آزادی کی جنگ اور بین الاقوامی قانون

آزادی کی جنگ کی شرعی حیثیت پر الگ گفتگو کی ضرورت ہے لیکن چوں کہ بعض لوگ بین الاقوامی قانون سے ناواقفیت کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں کہ معاصر قانون کی رو سے اسے ناجائز سمجھا جاتا ہے ، اس لیے یہاں اس ضمن میں بین الاقوامی قانون کی کچھ تفصیلات دی جارہی ہیں ۔

بین الاقوامی قانون میں آزادی کی جنگ کے جواز اور عدم جواز پر بحث ”حق خود ارادیت“ (Right of Self-determination) کے لیے جد و جہد پر بحث کے ضمن میں شروع ہوئی۔

معاصر بین الاقوامی قانونی نظام کی ابتدا یورپ میں ”قومی ریاست“(Nation-state) کے تصور سے ہوئی۔ اس تصور کا بنیادی مفروضہ یہ تھا کہ ایک ریاست کے اندر رہنے والے لوگ ایک قوم ہیں۔ یورپ میں یہ تصور جس طرح وجود میں آیا اور جس طرح اس نے پرانے نظام کی جگہ لی اس پس منظر میں یورپ کی حد تک اس تصور سے کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا، اگرچہ کہیں کہیں ایک ریاست کے اندر رہنے والے لوگ خود کو ”الگ قوم“ متصور کرکے ”آزادی“ حاصل کرنے اور ”الگ ریاست“ کی تشکیل کے لیے آواز بلند کرتے رہے۔ البتہ جب یورپی اقوام کے قبضے کے خلاف ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں مزاحمت کا سلسلہ شروع ہوا تو ”قومی آزادی کی جنگ“ (War of National Liberation) کے جواز اور عدم جواز پر بحث بھی شروع ہوئی۔

ظاہر ہے کہ قابض قوتیں ابتدا میں اس کے جواز کی قائل نہیں ہوسکتی تھیں، اور چوں کہ بیسویں صدی کے ربع اول تک یورپی قوموں کا تصور یہی تھا کہ ریاست کو جنگ شروع کرنے کا مطلق اختیار ہے جو اس کے اقتدار اعلی (Sovereignty)کا لازمی نتیجہ ہے، اس لیے یورپی قبضے اور تسلط کے خلاف جہاں بھی مزاحمت ہوئی اسے ناجائز قرار دیا گیا اور مزاحمت کاروں کو ”دہشت گرد“ (Terrorists) کا خطاب دیا گیا۔ یہیں سے آزادی کی جنگ اور دہشت گردی کے تعلق پر بحث شروع ہوئی۔ پھر آزادی کی جنگ لڑنے والوں نے بھی دہشت گردی کے خطاب کو اپنے لیے اعزاز سمجھنا شروع کیا اور یہ بات مشہور ہوگئی کہ ایک شخص جسے دہشت گرد کہتا ہے وہ دوسرے کے نزدیک آزادی کی جنگ لڑنے والا مجاہد ہے:
One man’s terrorist is another’s freedom fighter.

پہلی جنگ عظیم کے خاتمے (1918ء) پر جو بین الاقوامی نظام وجود میں آیا اس میں آزادی کی جنگ اور حق خود ارادیت کی جد و جہد کی بحث کو ایک نیا رخ دیا۔
اس جنگ عظیم میں ترکی اور جرمنی نے شکست کھائی اور ان کے زیر تسلط علاقوں پر برطانیہ، فرانس اور ان کے اتحادیوں کا قبضہ ہوگیا۔ جنگ کے دوران میں ہی انہوں نے مستقبل کے متعلق جن امور پر آپس میں اتفاق کیا تھا ان میں ایک امر یہ تھا کہ جنگ کے بعد ان علاقوں کو کس طرح تقسیم کرنا ہے، بالخصوص مشرق وسطی کے نقشے کو نئے سرے سے بنانے (Redrawing the Map of the Middle East) کا منصوبہ بنایا جاچکا تھا۔ اسی طرح افریقہ کے وہ علاقے جو اس وقت تک جرمنی کے قبضے میں تھے ان کی تقسیم کا بھی فیصلہ ہوچکا تھا۔ 1918ء میں ”میثاقِ مجلسِ اقوام“ (Covenant of the League of Nations) کے ذریعے ایک عالمی تنظیم قائم کی گئی۔ ان علاقوں کی تقسیم کے لیے میثاق کے تحت ایک ”نظامِ انتداب“ (Mandate System) وضع کیا گیا جس کے تحت طے پایا کہ یہ علاقے مختلف یورپی طاقتوں کو بطور ”ذمہ داری“ (Mandate) دیے جائیں گے اور ان یورپی طاقتوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان علاقوں کے لوگوں کو اپنی حکومت خود چلانے (Self-rule) کا اہل بنائیں اور اس مقصد کے لیے ان کی تربیت کریں۔ پھر جب وہ اس کے اہل ہوجائیں گے تو یورپی طاقتیں ان پر قبضہ ختم کرلیں گی۔ یوں دو صدیوں سے جاری ظلم و استحصال کو ایک قانونی شکل دے دی گئی۔
اس نظام کے تحت مقبوضہ علاقوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا:

درجۂ اول (Mandate ‘A’): اس درجے میں رکھے گئے علاقوں کو کاغذات کی حد تک یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنے اوپر قبضے کے لیے یورپی طاقتوں میں کسی کو اپنی مرضی سے چن سکتے ہیں۔ ویسے عملاً ایسا کچھ نہیں ہوا اور عراق کے امیر فیصل نے فرانس جاکر جب اس سلسلے میں مذاکرات کی کوشش کی تو کسی نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ ان علاقوں میں قابض یورپی طاقت کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ ان علاقوں کے لوگوں کو ”انتظامی امور میں مشورے اور تعاون“دیں یہاں تک کہ یہ خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے اہل ہوجائیں۔ عرب علاقے جو اس وقت تک عثمانی سلطنت کا حصہ تھے اس درجے میں رکھے گئے۔ شام کا علاقہ فرانس کے سپرد کیا گیا جبکہ عراق، فلسطین اور دریائے اردن کے پار کا علاقہ برطانیہ کو دیا گیا۔ یاد رہے کہ 1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے عالمی صہیونی تنظیم کے سربراہ کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ جنگ کے خاتمے پر برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کے لیے ”قومی وطن“ (National Home) کی تشکیل میں ہر ممکن مدد دے گا۔

درجۂ دوم (Mandate ‘B’): اس درجے میں زیادہ تر افریقہ کے وہ علاقے رکھے گئے جو اس وقت تک جرمنی کے مقبوضہ جات تھے۔ ان علاقوں کو مجلس اقوام کی تمام ممبر ریاستوں کی تجارت کے لیے آزاد رکھا گیا۔ البتہ قابض ریاستوں کی ذمہ داری قرار دی گئی کہ وہ ان علاقوں میں غلاموں کی تجارت اور اسلحے کی ترسیل ختم کرنے کی کوشش کریں۔ ٹانگانائیکا کو برطانیہ، بیلجیم اور پرتگال میں، جبکہ کیمرون اور ٹوگولینڈ کو برطانیہ اور فرانس میں تقسیم کردیا گیا۔

درجۂ سوم (Mandate ‘C’): اس درجے میں مغربی افریقہ اور بحر الکاہل میں جرمنی کے سابقہ مقبوضہ جات کو رکھا گیا۔ مغربی افریقہ کے علاقوں کو جنوبی افریقہ کے حوالے کیا گیا جبکہ بحر الکاہل کے علاقوں کو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان میں تقسیم کیا گیا۔ مجلس اقوام کی ممبر ریاستوں کو ان علاقوں میں تجارت کی قطعاً اجازت نہیں تھی۔ واضح رہے کہ درجۂ دوم اور درجۂ سوم کے علاقوں کے لوگوں کو قابض فوج میں ملازمت کی اجازت بھی نہیں تھی۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ پہلی جنگ عظیم سے قبل ان یورپی طاقتوں نے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا ان پر وہ اپنا قبضہ قانونی طور پر جائز اور مستقل سمجھتی تھیں اور انتداب کا نظام ان کے لیے نہیں تھا۔ چنانچہ مثال کے طور پر برصغیر کو 1857ء سے ”برطانیۂ عظمی“کا حصہ سمجھا جاتا تھا اور اسے ”برطانوی ہند“ کہا جاتا تھا۔ برطانیہ کے بادشاہ کے القابات میں ایک لقب ”شہنشاہِ ہند“ کا بھی تھا۔

1919ء کے ورسائی معاہدے (Treaty of Versailles) میں یورپ کی حد تک علاقائی تنازعات کے حل بھی کوشش کی گئی۔ چنانچہ جرمنی کے مقبوضہ علاقے ”طاس ِسار“ (Saar Basin) کو فرانس کے قبضے میں دیا گیا تاکہ جرمنی کے حملے سے فرانس کو جو نقصان پہنچا اس کی تلافی ہوسکے! البتہ ساتھ ہی طے پایا کہ اس علاقے کے لوگوں سے پندرہ سال بعد استصواب رائے (Plebiscite) کیا جائے گا۔ 1935ء میں کیے گئے استصواب رائے میں لوگوں کی غالب اکثریت نے جرمنی کے ساتھ الحاق کے حق میں رائے دی۔

1864ء میں جرمنی نے ڈنمارک سے شمالی اور مرکزی شلیز وگ (Schlezwig) کے علاقے قبضے میں لیے تھے۔ یہاں جب استصواب رائے کیا گیا تو شمالی علاقے نے ڈنمارک کے ساتھ اور مرکزی علاقے نے جرمنی کے ساتھ الحاق کو اختیار کیا۔

ایک اور استصواب رائے کے ذریعے بالائی سلیشیا (Upper Silesia) کو جرمنی اور پولینڈ کے درمیان تقسیم کردیا گیا۔

1917ء میں امریکی صدر ووڈرو ولسن نے یورپی طاقتوں کو تنبیہ کی تھی کہ اگر انہوں نے مقبوضہ علاقوں میں بندربانٹ کی اور لوگوں کی خواہشات اور حقوق کا خیال نہ رکھا تو ان علاقوں میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکے گا اور یہ دنیا کے امن کے لیے بھی خطرے کا باعث بنیں گے۔ ولسن کے ان الفاظ کو حق خود ارادایت کی بہترین وضاحت سمجھا جاتا ہے:

We beleive first, that every people have the right to choose the sovereignty under which it shall live; second, that the small states of the world have a right to enjoy the same respect for their sovereignty and for their territorial integrity that the powerful nations expect and insist upon; third, that the world has a right to be free from every disturbance of its peace that has its origin in aggression and disregard of the right of peoples and nations.

(ہم یقین رکھتے ہیں اولاً کہ تمام لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خود اپنے لیے وہ حکومت پسند کریں جس کے تحت وہ رہنا چاہتے ہیں؛ ثانیاً کہ دنیا کی چھوٹی ریاستیں اپنے اقتدار اعلی اور اپنی علاقائی سا لمیت کے احترام کا اتنا ہی حق رکھتی ہیں جتنا بڑی طاقتیں اپنے لیے توقع رکھتی ہیں اور اصرار کرتی ہیں؛ ثالثاً کہ دنیا کویہ حق حاصل ہے کہ اس کا امن ہر طرح کی خرابی سے محفوظ رہے جس کی جڑیں جارحیت اور لوگوں اور اقوام کے حقوق کے عدم احترام میں پائی جاتی ہیں۔)

No peace can last, or ought to last, which does not accept the principle that governments derive all their just powers from the consent of the governed, and that no right anywhere exists to hand people from sovereignty to sovereignty as if they were property.

(کوئی امن اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا، نہ ہی قائم ہونا چاہیے، جب تک اس کی بنیاد اصول کے تسلیم کرنے پر نہ ہو کہ حکومتیں اپنے تمام جائز اختیارات عوام کی رضامندی سے حاصل کرتی ہیں اور کوئی ایسا حق کہیں پایا نہیں جاتا جس کے تحت لوگوں کو ایک حکومت سے دوسری حکومت کے حوالے یوں کیا جائے جیسے وہ انسان نہیں بلکہ اموال ہوں۔ )

اپنے مشہور ”چودہ نکات“میں ولسن نے ایک طرف آسٹریا اور ہنگری کے لوگوں کے لیے ”زیادہ سے زیادہ“آزادی کے مواقع دینے کی بات کی اور رومانیہ، سربیا اور مونٹے نیگرو سے غیر ملکی فوجوں کے مکمل انخلا کو ضروری قرار دیا تو دوسری طرف اس پر بھی زور دیا کہ عثمانی سلطنت میں موجود ”ترک علاقوں“ پر مشتمل ریاست کی خودمختاری کو محفوظ بنانا نہایت ضروری ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف ولسن نے حق خود ارادیت کا چیمپئن بننے کی کوشش کی اور دوسری طرف امریکی حکومت نے روسی صدر لینن کو اس بنا پر مذمت کا نشانہ بنایا ہوا تھا کہ لینن نے افریقہ اور ایشیا کی تمام اقوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے پر زور دیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ لینزگ نے صراحتاً قرار دیا کہ اگر حق خود ارادیت کو افریقہ اور ایشیا کی اقوام کے لیے تسلیم کیا گیا تو مستقبل کا عالمی نظام عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔

اس سے معلوم ہوا کہ امریکی صدر نے جس حق خود ارادیت کی بات کی اس سے مراد صرف یورپی اقوام کا حق خود ارادیت تھا! یہی وہ دوہرا معیار ہے جو حق خود ارادیت کی جد و جہد اور آزادی کی جنگ کے سلسلے میں مغربی طاقتوں کی پالیسی کا رکن ِ رکین رہا ہے۔ چنانچہ مثال کے طور پر 1941ء میں امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جسے ”منشور اوقیانوس“ (Atlantic Charter) کہا جاتا ہے۔ اس منشور میں بشمول دیگر امور کے کہا گیا:

They desire to see no territorial changes that do not accord with the freely expressed wishes of the people concerned. They respect the right of all peoples to choose the form of geovernment under which they live; and they wish to see sovereign rights and self-government to those who have been forcibly deprived of them.

(وہ کوئی ایسی جغرافیائی تبدیلی دیکھنا نہیں چاہتے جو لوگوں کی مرضی کے آزادانہ اظہار کے مطابق نہ ہو۔ وہ تمام لوگوں کے اپنی پسند کی حکومت کے تحت رہنے کا حق کا احترام کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو جبراً اقتدار اعلی اور اپنی حکومت سے محروم کیا گیا ہے انہیں یہ حقوق پھر میسر ہوں۔ )

تاہم بعد میں چرچل نے دار العوام سے خطاب کے دوران میں قرار دیا کہ یہ وعدہ صرف یورپی اقوام کے لیے اور ان کے لیے کیا گیا تھا جو جرمن نازی مظالم کے تحت گھرے ہوئے تھے۔

1945ء میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اقوام متحدہ کی تنظیم وجود میں لائی گئی۔ اس تنظیم کے منشور میں حق خود ارادیت کو تمام انسانوں کا بنیادی حق قرار دیا گیا۔ اگرچہ یورپی قابض طاقتوں، بالخصوص بیلجیم نے اس شق پر بہت اعتراض کیا تھا لیکن اس شق کو منشور سے حذف نہیں کیا گیا۔ تاہم ان قابض طاقتوں کے دباؤ کی وجہ سے اصل شق میں تبدیلی کی گئی اور ایک نسبتاً کمزور شق منشور میں داخل کی گئی۔

منشور کے تحت ”لوگوں کے حق خود ارادیت کے احترام پر مبنی بین الاقوامی تعلقات“ کی تشکیل کو تنظیم کا بنیادی مقصد قرار دیا گیا۔ منشور نے تمام چھوٹی بڑی ریاستوں کے لیے مساوات کا اصول بھی تسلیم کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ریاستوں کے ”اندرونی معاملات“میں مداخلت کو ناجائز بھی قرار دیا ہے۔ منشور میں یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے حق خود ارادیت کا احترام کیا جائے۔ واضح رہے کہ منشور کے تحت تمام رکن ریاستوں پر لازم کیا گیا ہے کہ وہ انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر تنظیم کے بنیادی مقاصد کے حصول کے لیے کوشش کریں۔

اقوام متحدہ کی تنظیم کے قیام کے وقت چوہتر (۴۷) علاقے ایسے تھے جن کو Non-self-governing territories کہا جاتا تھا، یعنی وہ علاقے جن پر وہاں کے لوگوں کی اپنی حکومت نہیں ہے۔ منشور کے گیارھویں باب میں ان علاقوں کو ان کے اوپر قابض طاقتوں کے پاس ”امانت“ (Trust) قرار دیا گیا اور ان کی ذمہ داری یہ قرار دی گئی کہ وہ ان علاقوں کے لوگوں کی بہبود اور ترقی کا خیال رکھیں گے۔ میثاقِ مجلسِ اقوام کے نظامِ انتداب کو اب منشور کے بارھویں باب کے تحت ”نظامِ امانت“ (Trusteeship System) میں تبدیل کردیا گیا اور اس کی نگرانی کے لیے تیرھویں باب کے تحت Trusteeship Council قائم کی گئی۔ نظامِ انتداب کے تحت جو علاقے ایسی طاقتوں کو دیے گئے تھے جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں شکست کھائی ان کو اب اس نئے نظام کے تحت دیگر ریاستوں کو دیا گیا۔ ان Trust Territories کی تعداد گیارہ تھی۔

اس نظام کے تحت مشرقی تیمور کا علاقہ بھی تھا جس پر انڈونیشیا اور پرتگال کا تنازعہ بھی تھا۔ انڈونیشیا نے مشرقی تیمور کے لیے اندرونی خود مختاری کا بھی وعدہ کیا لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق جب 1999ء میں مشرقی تیمور کے لوگوں سے استصواب رائے کیا گیا تو ان کی اکثریت نے آزادی کو ترجیح دی۔

فلسطین اور ماورائے اردن کا علاقہ 1918ء سے برطانوی انتداب کے تحت تھا۔ 1948ء میں برطانیہ نے اقوام متحدہ کے سامنے اپنی معذوری ظاہر کی اور کہا کہ اب وہ انتداب کی ذمہ داری مزید اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس دوران میں صہیونی تنظیم کے پیروکاروں کی کاوشوں سے برطانیہ، امریکا، فرانس اور دیگر مغربی طاقتوں کے تعاون اور مدد اور جرمن نازیوں کے مظالم کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں یہودی دنیا کے کونے کونے سے فلسطین میں آبادکاری کے لیے پہنچ گئے تھے۔ ان کے اور مقامی عرب آبادی کے درمیان خونریز جھڑپیں بھی ہوتی رہیں۔ بعض یہودیوں نے عرب آبادی اور برطانوی حکومتی اہلکاروں پر حملوں کے لیے تنظیمیں بھی بنائیں۔ بالآخر جب معاملہ اقوام متحدہ کے سامنے پیش ہوا تو جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کا فیصلہ کرلیا۔

واضح رہے کہ اس وقت جنرل اسمبلی میں اکثریت مغربی ممالک اور ان کے اتحادیوں کی تھی۔ اس تقسیم کے اعلان کے ساتھ فسادات پھوٹ پڑے۔ برطانیہ نے فلسطین سے نکلنے کا اعلان کیا لیکن صہیونی تنظیم کی باقاعدہ مدد جاری رکھی۔ مئی 1948ء میں صہیونی تنظیم بالآخر ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ عربوں کو جنگ میں شکست ہو گئی۔ البتہ یروشلم اور ماورائے دریائے اردن کے علاقے پر ہاشمی امیر عبد اللہ کی حکومت برقرار رہی۔

1956ء میں نہر سویز کے بحران کے موقع پر اسرائیل، برطانیہ اور فرانس نے مشترکہ طور پر مصر پر حملہ کیا لیکن عالمی دباؤ کے نتیجے میں انہیں واپس ہٹنا پڑا۔ اس جنگ کا اور کوئی نتیجہ نکلا ہو یا نہ نکلا ہو، لیکن اتنا ضرور ہوا کہ عرب قوم پرستی کو مزید تقویت ملی اور جمال عبد الناصر کو قوم پرستی کے اس مذہب کے پیغمبر کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ 1967ء میں تیسری جنگ کے موقع پر عربوں کی مشترک طاقت کو عبرتناک اور انتہائی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اسرائیل نے مزید کئی علاقوں پر قبضہ قائم کرلیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ ہوا۔ اس قبضے کے بعد ”عرب اسرائیل“ تنازعے نے ”فلسطیینوں اور یہودیوں“ کے تنازعے کی شکل اختیار کرلی۔ یہاں یہ بات ذکر کرنا ضروری ہے کہ 1967ء کی جنگ میں جو علاقے اسرائیل نے قبضے میں لیے یروشلم سمیت ان تمام علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ اقوام متحدہ کے موقف کے مطابق ناجائز ہے اور وہ ریاست اسرائیل کا حصہ نہیں ہیں، بلکہ ان علاقوں میں اسرائیل کو قابض طاقت (Occupying Power) کی حیثیت حاصل ہے۔

”برطانوی ہند“ کا تعلق نظام انتداب سے نہیں تھا۔ تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کے لیے ہندوستان پر قبضہ برقرار رکھنا ناممکن ہوگیا تھا۔ چنانچہ برطانوی حکومت نے ہندوستان پر قبضہ ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ہندوستانی سیاستدانوں کا اس امر پر اختلاف تھا کہ برطانیہ کے قبضے کے خاتمے پر کیا ہندوستان ایک سیاسی وحدت کے طور پر برقرار رہے یا اسے تقسیم کردیا جائے۔ 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی نے تقسیم کی راہ ہموار کردی جس کو روکنے کی آخری کوشش کے لیے برطانیہ نے تین وزراء بھجوائے لیکن پنڈت نہرو کی ایک بھیانک سیاسی غلطی نے تقسیم کو یقینی کردیا۔

برطانوی ہند میں کچھ علاقے ایسے تھے جن پر برطانیہ کا مکمل کنٹرول تھا اور کچھ علاقوں میں مقامی سرداروں، نوابوں، راجوں، شہزادوں اور والیان کا اختیار تسلیم کیا گیا تھا۔ ان مؤخر الذکر علاقوں کو ”شاہی ریاستیں“ (Princely States) کہا جاتا تھا۔

جون 1947ء میں ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہند کا جو منصوبہ پیش کیا اس کے تحت طے پایا کہ چونکہ بنگال اور پنجاب کے صوبوں میں ایک طرف مسلمانوں کی اکثریت ہے اور دوسری طرف غیر مسلموں کی، اس لیے اگر وہاں کی اسمبلیاں تقسیم کا فیصلہ کریں تو پھر ان صوبوں کو تقسیم کرکے مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں اور ہندو اکثریتی علاقے بھارت میں شامل کردیے جائیں گے۔ صوبہ سرحد کے متعلق فیصلہ کیا گیا کہ یہاں کے عوام سے استصواب رائے کیا جائے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔ یہ فیصلہ اس بنا پر کیا گیا کہ اس صوبے میں کانگریس کے اتحادی سرخپوشوں کی حکومت تھی، حالانکہ یہاں کی آبادی کی انتہائی غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ استصواب رائے میں لوگوں کی غالب اکثریت نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے حق میں ووٹ دیا۔

شاہی ریاستوں کے سربراہان کو حق دیا گیا کہ بھارت یا پاکستان میں کسی کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کرلیں۔ اگرچہ بعض ریاستوں کے سربراہان نے خود مختار رہنے کا آپشن بھی مانگا مگر اسے تسلیم نہیں کیا گیا۔ اکثر ریاستوں کی جغرافیائی پوزیشن ایسی تھی کہ ان کے سربراہان کے پاس عملاً کوئی آپشن نہیں تھا۔ مثال کے طور پر سوات کی ریاست کا الحاق لازماً پاکستان سے ہونا تھا اور جوناگڑھ کا الحاق لازماً بھارت سے ہی ہونا تھا۔ البتہ جموں و کشمیر کی ریاست ایسی تھی جس کے سربراہ کے پاس یقینا یہ موقع تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں کسی کے ساتھ بھی شامل ہونے کا فیصلہ کرسکتا تھا، اور یہی تنازعے کا باعث بنا۔ پھر جب تنازعے نے جنگ کی شکل اختیار کرلی اور معاملہ سلامتی کونسل کے پاس چلا گیا تو سلامتی کونسل نے فیصلہ کیا کہ جموں و کشمیر کے عوام سے استصواب رائے کیا جائے۔ یوں پہلی دفعہ حق خود ارادیت کا معاملہ نظام انتداب اور نظام امانت سے باہر علاقوں تک بھی چلا گیا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی قابض طاقتیں کمزور ہوگئی تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایشیا، افریقہ، مشرق بعید اور لاطینی امریکا میں ان کے خلاف مزاحمت میں مزید شدت آتی گئی۔ اس دوران میں بین الاقوامی سطح پر حالات کی تبدیلی میں ایک اور عامل نے اہم کردار ادا کیا اور وہ تھا روس کا امریکا اور مغربی طاقتوں کے مد مقابل کے طور پر سامنے آنا۔ 1949ء میں روس کی مدد سے چین میں کمیونسٹوں نے امریکی اتحادی نیشنلسٹ حکومت کو شکست دے کر عوامی جمہوریۂ چین کی تشکیل کا اعلان کیا۔ 1950ء میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے شمالی کوریا پر حملہ کیا جسے روس اور چین کے تعاون سے پسپا کیا گیا اور بالآخر جنگ بندی کا سمجھوتہ کرنا پڑا۔

1956ء میں نہر سویز کے تنازعے کے موقع پر اگرچہ روس نے مصر کی مدد نہیں کی لیکن اس موقع پر امریکا نے اسرائیل، برطانیہ اور فرانس کے خلاف سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کرکے ان کو واپس ہونے پر مجبور کیا اور اس تنازعے کے بعد برطانیہ اور فرانس کو مشرق وسطی میں اپنے کئی اڈے ختم کرنے پڑے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے امریکا اور روس میں دوڑ شروع ہوئی۔ کئی عرب ممالک میں اشتراکی حکومتیں قائم ہوئیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام کی کشمکش نے جلد ہی افریقہ اور ایشیا کے بیشتر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کو قابض طاقتوں کا نظام سمجھا جاتا تھا اس لیے ان علاقوں میں قابض طاقتوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے لوگوں نے اشتراکی نظام میں کافی کشش محسوس کی۔ دوسری طرف چینی گوریلا مزاحمت کار بھی ان کے لیے نمونہ اور ماڈل بن گئے۔ اس لیے ان علاقوں میں ”قومی آزادی“ کی تحریکوں اور اشتراکیت نے مل کر ایک نئے نظریے کی تشکیل کی۔ دنیا کے مختلف خطوں میں آزادی کے لیے جد و جہد کرنے والوں نے باقاعدہ مسلح جد و جہد بھی شروع کی اور ایک دفعہ پھر قومی آزادی کی جنگ اور دہشت گردی کے درمیان موازنہ کیا جانے لگا۔ تاہم اب توازن کا رخ قومی آزادی کے لیے لڑنے والوں کے حق میں تھا۔ اس پس منظر میں 1960ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مقبوضہ علاقوں کے لیے مشہور ”اعلان آزادی“ (Declaration of Independence) کیا۔

اس قرارداد میں ایک طرف یہ بات تسلیم کی گئی کہ حق خود ارادیت سے انکار بین الاقوامی جنگوں کا باعث بنتا ہے اور دنیا میں امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے اوپر سے ”غیروں کے تسلط“ (Alien Domination) کا خاتمہ کیا جائے، تو دوسری طرف اس قرارداد میں اس حقیقت پر بھی زور دیا گیا کہ کئی مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کی جد و جہد کامیابی سے ہمکنار ہوچکی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ کئی دیگر علاقوں میں آزادی کی تحریکیں دن بدن زور پکڑتی جارہی ہیں اور ان کو دبانا اب ممکن نہیں رہا ہے۔ اس پس منظر میں ”تمام لوگوں“ کے لیے حق خود ارادیت کا اعلان کیا گیا۔ پھر بالخصوص مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کے لیے اس بنیادی انسانی حق کے تحفظ اور نفاذ کو لازمی اور دنیا کے امن کے لیے ضروری قرار دیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ان علاقوں کے لوگوں کو اپنی حکومت خود چلانے کے لیے نااہل نہیں قرار دیا جاسکتا خواہ وہ سیاسی، معاشی یا تعلیمی طور پر پسماندہ ہوں۔ ان لوگوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو ناجائز قرار دیا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ تمام مقبوضہ علاقوں سے غیروں کے قبضے کو پوری طور پر ختم کردیا جائے۔ البتہ ریاستوں کے ”اندرونی معاملات“ میں مداخلت کی پابندی کو اس قرارداد میں بھی دہرایا گیا تاکہ آزادی کی تحریکوں کی مدد کے بہانے سے ریاستیں دوسری ریاستوں میں مداخلت کرکے عالمی عدم استحکام کا باعث نہ بن سکیں۔

تقریباً انہی باتوں کو اگلے کئی سالوں تک دیگر اہم قراردادوں میں دہرایا گیا۔ ان میں ایک اہم قرارداد 1970ء میں منظور کی گئی جس کا عنوان تھا: بین الاقوامی قانون، ریاستوں کے مابین دوستانہ تعلقات اور تعاون کے قواعد عامہ کا اعلان“ (Declaration of the Principles of International Law, Friendly Relations and Cooperation between States)۔ اس قرارداد میں حق خود ارادیت کے حوالے سے دیگر باتوں کے علاوہ ایک اہم بات یہ کی گئی کہ حق خود ارادیت کی جد و جہد کے تین قانونی نتائج نکل سکتے ہیں:

۱۔ آزاد اور خودمختار ریاست کا قیام؛
۲۔ کسی دوسری ریاست کے ساتھ آزادانہ الحاق؛
۳۔ کسی اور سیاسی حیثیت کا تقرر جو لوگوں کی آزادانہ مرضی سے ہو۔

1967ء کے بعد سے اسرائیلی قبضے کے خلاف برسرپیکار فلسطینی مزاحمت کاروں نے اس بحث کو ایک نیا موڑ دیا کیونکہ اب جہازوں کا اغوا کرنا، لوگوں کو یرغمال بنانا اور اس طرح کے دیگر طریقوں سے قابض طاقت کو مادی اور نفسیاتی نقصان پہنچانے کا سلسلہ تیز ہوا۔ اسرائیل اور دیگر ریاستیں اسے دہشت گردی کا نام دیتی رہیں اور اس طرح ”بین الاقوامی دہشت گردی“ (International Terrorism) کی اصطلاح بھی مستعمل ہونے لگی۔ اس پس منظر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1972ء میں ایک اہم قرارداد منظور کی جس کا عنوان تھا: ”بین الاقوامی دہشت گردی کے تدارک کے لیے اقدامات“ (Measures to Prevent Internatioal Terrorism)۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ اس قرارداد کا عنوان دہشت گردی کا تدارک تھا لیکن اس میں پھر حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے پر زور دیا گیا۔ قرارداد کے مکمل عنوان میں دہشت گردی کے اسباب کا بھی ذکر کیا گیا:

Measures to prevent international terrorism which endangers or takes innocent human lives or jeopardises fundamental freedom, and study of underlying causes of those forms of terrorism and acts of violence which lie in misery, frustration, grievance and dispair and which causes some people to sacrifice human lives, including their own, in order to affect radical changes

(دہشت گردی، جو معصوم انسانوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالتی ہے اور بنیادی آزادیوں کو نقصان پہنچاتی ہے، کی روک تھام کے لیے اقدامات اور دہشت گردی اور متشددانہ کاروائیوں کی ان اقسام کے اسباب کا مطالعہ جن کی جڑیں بے بسی، پریشانی، احساس محرومی اور مایوسی میں پائی جاتی ہیں جو بعض لوگوں کو ان کی اپنی زندگی سمیت دیگر انسانوں کی زندگیوں کی بھینٹ اس مقصد کے لیے دینے پر مجبور کردیتی ہیں کہ وہ کوئی بڑی تبدیلی لے آئیں۔ )

یہ عنوان سالہاسال تک کئی قراردادوں کو دیا گیا۔ اس عنوان کے ساتھ آخری قرارداد دسمبر 1989ء میں منظور کی گئی۔

1974ء میں جنرل اسمبلی نے ایک اور اہم قرارداد منظور کی جس کے ذریعے ”جارحیت“ (Aggression) کی تعریف پیش کی گئی۔ اگر کوئی ریاست کسی دوسری ریاست کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرے تو اقوام متحدہ کے منشور کے باب ہفتم کے تحت جارح ریاست کے خلاف سلامتی کونسل کو اجتماعی فوجی کاروائی کا اختیار ہوتا ہے۔ جنرل اسمبلی نے اس قرارداد کی دفعہ ۷ میں تصریح کی ہے کہ آزادی کی جنگ لڑنے والوں یا ان کی مدد کرنے والوں کو جارحیت کا مرتکب نہیں قرار دیا جاسکتا۔ البتہ ایک دفعہ پھر ریاستوں کو یاد دلایا گیا کہ دیگر ریاستوں کے ”اندرونی معاملات“ میں مداخلت ناجائز ہے۔

1977ء میں جنیوا معاہدات کے ساتھ دو اضافی معاہدات ملحق کیے گئے اور ان اضافی پروٹوکولز میں پہلا پروٹوکول بین الاقوامی مسلح تصادم کے دوران میں عام شہریوں کے تحفظ کے متعلق ہے۔ اس پروٹوکول کی ایک اہم شق یہ ہے کہ آزادی کی جنگ کو ”بین الاقوامی مسلح تصادم“ قرار دیا گیا۔ چنانچہ کوئی ریاست یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس کے زیر تسلط علاقے میں جاری آزادی کی جنگ اس کا ”اندرونی معاملہ“ ہے۔ مزید برآں، اس پروٹوکول نے ”مقاتل“ (Combatant) کی تعریف میں وسعت پیدا کرکے آزادی کے لیے لڑنے والوں کو بھی مقاتل کی حیثیت دی اور قرار دیا کہ قید ہونے کی صورت میں انہیں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو جنگی قیدی کو حاصل ہوتے ہیں۔ نیز اس پروٹوکول نے تصریح کی کہ بعض ناگزیر حالات میں مقاتل باقاعدہ یونیفارم پہنے بغیر بھی لڑ سکتا ہے بشرطیکہ وہ حملے کے وقت واضح طور پر مسلح ہو اور غدر (Perfidy)کا ارتکاب نہ کرے۔ اس طرح اس نے گوریلا طرز کی جنگ کو بہت حد تک قانونی حیثیت دے دی۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی طاقتیں اور ماہرین قانون بالعموم اس پروٹوکول کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور کوشش کرتے رہے ہیں کہ ان شقوں کی ایسی تعبیر پیش کی جائے کہ یہ عملاً غیر مؤثر ہوجائیں۔

اس دوران میں ”ریاستی دہشت گردی“ (State Terrorism) کی اصطلاح بھی عام طور پر مستعمل ہوگئی لیکن اس اصطلاح کو دو مختلف، بلکہ متضاد، مفاہیم میں استعمال کیا جاتا رہا۔ ایک مفہوم کے تحت اسرائیل فلسطینیوں کو مدد فراہم کرنے والی ریاستوں کو ریاستی دہشت گردی کا مرتکب قرار دیتا رہا، جبکہ دوسرے مفہوم کے مطابق فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کو ریاستی دہشت گردی کا نام دیا جاتا رہا۔ 1984ء میں جنرل اسمبلی نے ریاستی دہشت گردی کے خلاف جو قرارداد منظور کی اس میں اس اصطلاح کو ان دونوں مفاہیم میں استعمال کیا گیا۔ اس لیے صحیح قانونی پوزیشن واضح ہونے کے بجائے مزید مبہم ہوگئی۔

دسمبر 1979ء میں روس نے افغانستان میں فوجیں داخل کیں اور 1980ء کی دہائی میں روسی قبضے کے خلاف افغانستان میں جو جنگ لڑی گئی اس نے آزادی کی تحریکوں اور معاصر دنیا میں جہاد کے تصور، نظریے اور تطبیق پر نہایت دور رس اثرات مرتب کیے۔ روس کے خلاف مزاحمت نے عالمی سطح پر غیر وں کے تسلط کے خلاف مسلح مزاحمت کی تحریکوں کو بہت تقویت دی، بالخصوص جب 1989ء میں روس کو افغانستان سے فوجیں واپس بلوانا پڑیں۔ 1989ء میں ہی مغربی اور مشرقی جرمنی کا الحاق ہوا اور دیوار برلن گرادی گئی۔ خود روس کی بڑی ریاست شکست و ریخت کا شکار ہوگئی۔

1990ء کی دہائی میں عالمی سطح پر دوررس اثرات کی حامل کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

عراق نے کویت پر اگست 1990ء میں قبضہ کیا اور امریکا نے اس کے خلاف کاروائی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے منظوری حاصل کرنی چاہی تو روس اور چین اس کی مزاحمت نہیں کرسکے۔ چین تو ویسے بھی امریکا کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا تھا لیکن روس کی جانب سے عدم مزاحمت عراق کی حکومت کے لیے نہایت حیرت کا باعث بنی۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ روس اندرونی طور پر انتہائی سنگین نوعیت کے بحرانوں کا شکار ہوچکا تھا۔ اس کی طویل اور غیر ضروری مہم جوئیوں نے اس کی معیشت تباہ کردی تھی اور بالخصوص افغانستان کی مہم جوئی اس کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوئی تھی۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کویت کو ”آزاد کراکے“ آزادی کی جدوجہد کو ایک نیا مفہوم دیا۔

دسمبر ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کا خاتمہ ہوگیا اور کئی ایسی ریاستیں وجود میں آگئیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ افغانستان کی جنگ کے تربیت یافتہ جنگجوؤں نے ان ریاستوں کا رخ کیا لیکن وہاں ”اسلامی حکومت“کے قیام کا خواب شرمندہئ تعبیر نہیں ہوسکا کیونکہ وہاں کی حکومتیں اس راہ میں مزاحم تھیں۔ اس دوران میں مشرقی یورپ میں بڑی کمیونسٹ ریاست یوگوسلاویا بھی شکست و ریخت کا شکار ہوگئی اور جلد ہی چار الگ ریاستوں ۔ سربیا، کروشیا، بوسنیا اور مونٹے نیگرو ۔ میں تقسیم ہوگئی۔ ان ریاستوں کی آپس میں بھی لڑائی ہوئی۔ بالخصوص بوسنیا پر سربیا کے مظالم نے ظلم و عدوان کی ایک نئی داستان رقم کی۔ افغان جنگ کی تربیت نے یہاں بھی کردار ادا کیا اور یہاں بھی آزادی کی جنگ کے ساتھ جہاد کے نعرے لگائے گئے۔

یورپی یونین نے یوگو سلاویا کی شکست و ریخت کے بعد وجود میں آئی ہوئی ریاستوں کو تسلیم کرنے کے لیے خصوصی شرائط رکھیں جن میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو خصوصی اہمیت دی گئی۔

چنانچہ یورپی یونین کے ثالثی کمیشن نے حق خود ارادیت کے حوالے سے قرار دیا کہ بعض لوگوں کو اس حق کا ”پہلا درجہ“ حاصل ہے اور بعض کو ”دوسرا درجہ“۔ پہلے درجے کے حق خود ارادیت (First Level Self-determination) سے مکمل آزادی کا حق مراد لیا گیا اور قرار دیا گیا کہ وفاقی ریاست کے صوبوں کو یہ حق حاصل ہے بشرطیکہ وہ ریاست کے عناصر اربعہ حاصل کرسکتے ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ وفاقی ریاست کے صوبے کے پاس تین عناصر (زمین کا معین ٹکڑا، مستقل آبادی اور حکومت) تو پہلے ہی سے ہوتے ہیں۔ پس اسے ضرورت صرف چوتھے عنصر (دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت) کی ہوتی ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس چوتھے عنصر کے حصول کی راہ میں وفاقی حکومت مزاحمت کرے گی۔ پس اس طرح آزادی کے حصول کی کوشش لازماً جنگ کی صورت میں نکلے گا۔ اس میں جہاں آزادی کے حصول کی خواہشمند صوبے کی صلاحیت ضروری ہوتی ہے وہاں دوسری ریاستوں کا تعاون بھی نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ بین الاقوامی تعلقات میں یکطرفہ ٹریفک نہیں چلاکرتی۔ تعلقات استوار کرنے کے لیے دوطرفہ تعاون ضروری اور ناگزیر ہوتا ہے۔ یہ بھی واضح ہے مکمل آزادی کا یہ حق ان لوگوں کے لیے موجود ہی ہے جو غیروں کے تسلط کے تحت ہوں یاجن کے لیے سلامتی کونسل نے یہ حق تسلیم کیا ہو۔

دوسرے درجے کے حق خود ارادیت (Second Level Self-determination) سے ثالثی کمیشن کی مراد یہ تھی کہ بعض لوگوں کو مکمل آزادی کا حق تو نہیں دیا جاسکتا لیکن اندرونی خود مختاری اور مذہب و ثقافت اور شناخت کا تحفظ ان کا قانونی حق ہے۔ اس طرح اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مکمل آزادی اور الگ ریاست کی تشکیل کے بجائے اندرونی خود مختاری کی راہ تجویز کی گئی۔

1990ء کی دہائی میں کشمیر میں حق خود ارادیت کی جد و جہد نے ”آزادی کی جنگ“ کی صورت اختیار کرلی۔ 1972ء کے شملہ معاہدے کے بعد سے بھارت کا سرکاری موقف یہ رہا کہ کشمیر کے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادیں غیر مؤثر اور غیر متعلق ہوگئیں کیونکہ اس معاہدے میں پاکستان اور بھارت نے مان لیا تھا کہ وہ تمام تنازعات دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے اور کوئی فریق کسی تنازعے کو بین الاقوامی فورم پر دوسرے فریق کی مرضی کے بغیر نہیں لے جائے گا۔1990ء کی دہائی میں پاکستان کی مسلسل یہ کوشش رہی کہ کشمیر کے مسئلے کو عالمی امن کے لیے خطرے (Threat to International Peace) کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ عالمی دباؤ کے پیش نظر بھارت مذاکرات کی میز پر آکر اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ کوشش پر آمادہ ہوجائے۔ 1998ء میں جب دونوں ریاستوں نے یکے بعد دیگرے ایٹمی دھماکے کیے تو عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کی سنگینی کا احساس پیدا ہوا جسے 1999ء کی کارگل جنگ نے مزید شدید کردیا۔ تاہم کارگل کی جنگ میں پاکستان کی فوج کی حکمت عملی انتہائی حد تک ناقص تھی جس کی وجہ سے پاکستان کو فوجیں واپس بلوانا پڑیں۔

1990ء کی دہائی کا ایک اور اہم مسئلہ چیچنیا کا تھا۔ وہاں بھی روسی تسلط کے خلاف مسلح مزاحمت ہوئی جس کے جواب میں روس نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے اور چنگیز و ہلاکو کی یاد تازہ کردی۔ اسی طرح البانیا اور کوسووا میں بھی غیروں کے تسلط اور ظلم کے خلاف مسلح مزاحمت ہوئی۔ امریکا اور اس کے اتحادی چیچنیا میں روس کے خلاف کچھ نہیں کرسکے لیکن 1998ء۔ 1999ء میں نیٹو نے سربیا پر بمباری کرکے اس کے مظالم کا سلسلہ روکنے میں اہم کردار ادا کیا اگرچہ اس بمباری میں مقامی آبادی کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا اور قانونی لحاظ سے بھی اس کاروائی کا جواز مشکوک تھا۔ تاہم اس کاروائی کی وجہ سے آزادی کی جنگ میں فوجی مدد فراہم کرنے کے مسئلے پر بحث کرنے والوں کو ”انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت“ کے جواز اور عدم جواز پر بھی بحث کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

ستمبر 2001ء امریکا میں رونما ہونے والے حادثات کے بعد امریکا نے ”دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ“ (Global War on Terror) شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اس جنگ کے پہلے مرحلے میں افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت ختم کردی گئی اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے تعاون سے ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی گئی۔ اس کے بعد 2003ء میں عراق پر حملہ کرکے اس تجربے کو وہاں بھی دہرایا گیا۔دونوں ممالک میں اس قبضے کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔

دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے مسلسل یہ کوشش کی جارہی ہے کہ بین الاقوامی کی من پسند تعبیر جبراً پوری دنیا پر نافذ کی جائے۔ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی یہ ہے کہ حق خود ارادیت کے لیے جد و جہد، غیروں کے تسلط کے خلاف مزاحمت اور آزادی کی جنگ کو دہشت گردی قرار دیا جارہا ہے اور پچھلی پوری صدی میں بین الاقوامی قانون نے اس سلسلے میں جو پیش رفت کی اس کو کالعدم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاہم، جیسا کہ آگے ہم دیکھیں گے، بین الاقوامی قانون کو اس طرح تبدیل کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی، نہ ہی اس طریقے سے غیروں کے تسلط کے خلاف مزاحمت کے جذبے اور جد و جہد کو دبایا جاسکتا ہے۔ کئی ماہرین قانون کے نزدیک آزادی کا حق بین الاقوامی قانون کے ان بنیادی قواعد (Jus Cogens) میں شامل ہوچکا ہے جنہیں کسی معاہدے کی صریح شق کے ذریعے بھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

آزادی کی جنگ سے متعلق بین الاقوامی قانون کی تقریباً سوا سو سال کی تاریخ کے اس جائزے کے بعد اس قانون کی رو سے اس مسئلے کا قانونی تجزیہ آئندہ پیش کریں گے ، ان شاء اللہ ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے