ترکی نے بشار الاسد کو قبول کرنے کا اعلان کردیا .

ترکی نے کہا ہے کہ شام میں جاری جنگ کو ختم کرانے کے لیے وہ زیادہ موثر کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے اور صدر بشار الاسد کو عبوری طور پر تسلیم کرتے ہیں لیکن طویل مدتی رہنما کے طور پر نہیں۔

ترکی کی پالیسی میں تبدیلی کا اعلان ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ’بشار الاسد کا شام کے مستقبل میں کوئی کردار نہیں ہے‘۔

انھوں نے کہا ’ہمیں پسند ہو یا نہ ہو لیکن یہ یقیقت ہے کہ بشار الاسد کا موجودہ شام میں ایک اہم کردار ہے۔‘

ترکی کے وزیر اعظم نے کہا کہ ’اگلے چھ ماہ میں ترکی شام میں جنگ بند کرانے کے لیے زیادہ موثر کردار ادا کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شام کو لسانی بنیادوں پر تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ شام میں سیاسی حل میں بشار الاسد، پی کے کے یا اپنے آپ کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کو شامل نہیں کرنا چاہیے۔

[pullquote]حسکہ پر بمباری
[/pullquote]

دوسری جانب امریکی فوج کے مطابق شام کے شہر حسکہ میں موجود امریکی سپیشل فورسز کو شامی طیاروں کی بمباری سے بچانے کے لیے جنگی طیارے بھیجے گئے۔

امریکہ کے محکمہ دفاع پینٹاگون کے بقول جب امریکی فضائیہ کے طیارے وہاں پہنچے تو شامی طیارے واپس جا رہے تھے۔

پینٹاگون کے ترجمان کیپٹن جیف ڈیوس کے بقول شامی طیاروں کی بمباری سے امریکی فوجی براہ راست متاثر نہیں ہوئے۔ خیال رہے کہ شام کی حکومتی افواج کے جنگی طیارے دو روز سے حسکہ میں کرد علاقوں میں بمباری کر رہے ہیں جس کے باعث ہزاروں افراد نے علاقے سے نقل مکانی کی ہے۔

حسکہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور شامی حکومت کا موقف ہے کہ فضائی بمباری کرد جنگجوؤں کی جانب سے اشتعال انگیزی کا جواب ہے۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ کے 300 انتہائی تربیت یافتہ فوجی اس وقت شام کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں اور یہ امریکی فوجی باغی جنگجوؤں کو تربیت فراہم کرنے ساتھ نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کر رہے ہیں۔

اس سے قبل پینٹاگون کا کہنا تھا کہ امریکہ کی سربراہی میں قائم فوجی اتحاد نے جمعرات کو زمین پر موجود اتحادی افواج کو شامی فوجوں کی بمباری سے بچانے اور ان کے وہاں سے انخلا کے لیے طیارہ بھیجا ہے۔

خیال ہے کہ وائی پی جی کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے اور وہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف سرگرم ہے تاہم حال ہی میں اس نے حسکہ صوبے میں کئی اضلاع میں حکومتی قبضہ ختم کیا ہے۔

یاد رہے کہ صدر براک اوباما نے شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں مقامی ملیشیا کی مدد کے لیے خصوصی فوجی دستے تعینات کرنے کی اجازت دی تھی تاہم وہ بڑے پیمانے پر زمینی فوج بھیجنے سے مسلسل انکار کرتے آئے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے