سپرکلاس اور مصنوعی جنت

پاؤلو کوئیلہو مشہور برازیلی ناول نگار ہے ۔اس کی پہچان یوں تو الکیمسٹ جیسا آل ٹائم بیسٹ سیلر ناول ہے لیکن اس کے باقی ناول بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔پاؤلو کی تحریروں کی خاص بات زندگی کے مختلف پہلوؤں کو ان گمشدہ زوایوں سے دوبارہ دکھانا ہے جن کو مدت ہوئی ہم فراموش کر چکے ہیں۔جدید طرز زندگی کی نفسا نفسی نے جن ویلوز اور صدیوں کی لوک دانش کو ہم سے دور کر دیا ہے ان کو نئے سرے سے بین الاقوامی لٹریچر میں زیر بحث لانایقیناًپاؤلو کے سر جاتا ہے۔اس کا ایک ناول (Winner stands alone) مجھے بہت پسند ہے۔اس ناول کا پلاٹ کینز فلم فیسٹیول اور اس کا حصہ بننے والی سلیبرٹی کلاس کے گرد گھومتا ہے۔فرانس میں ہر سال سجنے والے اس رنگ ونور کے میلہ میں دنیا بھر سے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے صف اول کے سپرسٹارز، ڈائریکٹرز اور پروڈیوسر ز کچھ روز کے لئے ریڈ کارپٹ کی زینت بننے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔دوسرے درجے کے فنکار اور فلم میکر بھی اپنی قسمت آزمانے کے لئے کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچ جاتے ہیں۔اور کینز کا چھوٹا سا گاؤں ان چند دنوں کے لئے ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کا فلیش پوائنٹ بنا رہتا ہے۔

اس ناول کی کہانی دنیا کی امیر ترین سپرکلاس (superclass)کی زندگیوں کے روز وشب سے پردہ اٹھاتی ہے ۔لیکن چونکہ بنیادی فوکس فلم فیسٹول تھا اس لئے پاؤلو کا قلم صرف فلم انڈسٹری کی سپر کلاس کے پوسٹ مارٹم تک محدودرہتا ہے۔لیکن جس سپر کلاس کی طرف اس نے توجہ دلانے کی کوشش کی ہے اس کا کینوس بہت وسیع ہے۔ درحقیقت موجودہ زندگی کے ہر شعبہ پر چاہے وہ کھیل کا ہو یا کا روبار کا، سیاست ہو یا وسائل کی دنیا ،ہر جگہ اس سپر کلاس کی حکمرانی مسلم ہے۔دنیا کے ان چند ہزار لوگوں کے پاس دنیا کی بیشتردولت ،وسائل، عا لیشان محل نما گھر،ذاتی ہوائی جہاز،مہنگی ترین گاڑیاں ،صحت اور ٹیکنولوجی کی جدید ترین سہولتیں موجود ہیں۔موجودہ دور کی یہ سپر کلاس آج سے کچھ صدیوں قبل کی اپر کلاس سے بہت مختلف ہے۔

آج سے سو یا دوسو سال قبل کی دنیا کا سوشل آرڈربھی آج کی طرح ہی کلاس سسٹم میں بٹا ہوا تھا لیکن اس زمانے میں (social ladder)کلائمب کرنا تقریبا نا ممکن تھا۔یا تو خاند انی امیر ہوتے تھے یا خاندانی غریب۔شازو نادرہی ان میں امتداد زمانہ کی وجہ سے انمیں کوئی ردوبدل ہوتا تھا لیکن جب سے کارپوریٹ کلچر اور جدید سرمایہ داری نظام نے زور پکڑا ہے تب سے یہ کلاس چینج کرنا اتنی کوئی انہونی بات نہیں رہ گئی ہے۔بل گیٹس اور وارن بفٹ سے لے کرسٹیو جابز اورمارک زکربرگ تک بہت سے مڈل کلاس کے لوگوں نے اپنے سٹارٹ اپس کو ملٹی بلین ڈالر کمپنیوں میں بدل کر سپر کلاس میں اپنی جگہ بنا لی ہے جس کا تصور بھی پرانے زمانے میں اسکا تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ان نو دولتیوں کی آمد کے ساتھ ہی میڈیا نے اپنے فرائض منصبی میں ان کے شاندار لائف سٹائل اور غربت سے امارت (rag to riches)کی داستانوں کو مرچ مسالہ لگا کر بیان کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔کئی میگزین ،کالمز اور بلاگز میں انھیں idealizeکرکے جدوجہد،کوشش اور کامیابی کی معراج پر براجمان بتایا جانے لگا ،ایسی تصویر دکھائی جانے لگی کہ اگر کوئی جنت ہے تو وہ اس سپرکلاس کی زندگی ہے جس میں ہر شے کی فروانی ہے ، جہاں خواہشات صرف چشم زدن میں پوری ہوجاتی ہیں جہاں تمام غموں اور پریشانیوں سے چھٹکارے کا سرٹیفکیٹ ملا ہواہے،جن کی اچیومنٹ کامیابی کی وہ آخری منزل ہے جس سے آگے جستجو، ہمت اور کوشش کا کوئی پہنچ نہیں ہے۔اس تمام potrayalکا بظاہر اثر یہ ہوا کہ معاشرے کے دوسرے نچلے طبقات میں نفسا نفسی پھیلی ان میں اپنی زندگی کے ناکام ہونے کا تاثر پروان چڑھنے لگااور اس احساس کمتری نے رفتہ رفتہ سوسائٹی کو ایسی پٹری پر چلا ڈالا جہاں دولت ہی معاشرے میں عزت اور وقار کی علامت بن گئی اور لوگ اندھادھند اس کے پیچھے بھاگنے لگے۔

پاؤلو کوئیلہو کے ناول کا اصل مقصد بھی اس متھ کو توڑنا ہے کہ سپر کلاس کی زندگی کسی جنت کا نمونہ نہیں ہے۔ان کی زندگی کا دوزخ دوسرے طبقات کی زندگی سے مختلف ضرور ہے لیکن وہ اس مصنوعی جنت سے بہت کم مماثلت رکھتی ہے جس کا انھیں مکین گردانا جاتا ہے۔ ان کے روز وشب اپنی فیلڈ میں ایمپائر کو بناتے ،سنوارتے اور قائم رکھتے جس بری طرح گھس جاتی ہے اس کو حال صرف وہی اچھی طرح جانتے ہیں۔لائم لائٹ میں کمی زیادتی سے لے کر سٹاک ایکس چینج کے نشیب و فراز جس طرح ان کے اعصاب پر دباؤ اور راتوں کی نیند حرام کئے رہتے ہیں اس کاتصوربھی کسی درمیانے طبقہ سے تعلق رکھنے والے نوکری پیشہ کے پہنچ سے باہر ہے۔دولت اور مزید دولت کی ہوس جس طرح ان کو دوسروں کا خون چوسنے،فراڈ،دھوکہ دہی ،ٹیکس چوری،منی لانڈرنگ اور کرپشن پر آمادہ کئے رہتی ہے، اس آپا دھاپی اور چھینا جھپٹی سے پیدا ہونے والی چپقلش کسی فردوس میں توہرگز نہیں ہوتی ہوگی ۔

اس پر مزیدپیسہ خرچنے کے لئے ان کا luxury feverان کی زندگی کو بل بورڈ کی مانند دکھاوے اور نمائش کااشتہار بنا کر قابل رحم بنا چھوڑتا ہے ۔پرتعیش اشیاء کی خریداری سے لے پلاسٹک سرجری تک بہترین نظر آنے، اوڑنے ،پہننے کا آبسیشن ان کی کوالٹی آف لائف میں کوئی اضافہ کرے یا نہ کرے لیکن ڈاکٹروں اور فیشن ڈیزانرز کی جیب ضرور بھا ری کر کے انھیں ضرور بیوقوف بنائیرکھتاہے۔ان کے محل نما گھر جہاں ہر فیملی ممبر کے لئے ان کا کمرے خود ایک ویل فرنشڈ گھر کی مانندہوتا ہے گھر نہیں بلکہ کسی ویرانے کا منظر پیش کرتے ہیں، جہاں سب لوگ اپنی تنہائی یا مصروفیتوں کے اسیر رہتے ہیں۔سالگراہوں اور شادی پر کروڑوں خرچ کرنے والے مہینوں اور سالوں اپنی فیملی کے لئے ٹائم نہیں نکال پاتے ہیں ۔فیملی لائف ٹائپ کی کوئی چیز ان کی مصروفیات کا حصہ نہیں بن پاتی ہے۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ کہ لاکھوں اور کروڑوں اپنی صحت پر خرچ کرنے کے باوجود بھی یہ غریبوں سے کچھ زیادہ نہیں جی پاتے ہیں۔

اس دولت مندی کی ایک قیمت ہے جو یہ ارب پتی سپرکلاس والے ہرگزرتی سانس کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔یہ قیمت سکون،اطمینان اور کامیابی کی وہ جنت ہرگز نہیں ہے جس کو میڈیا میں پوٹرے کیا جاتا ہے۔لیکن اس تصویر کے غلط رخ کا مسلسل دکھانے سے دنیا کو ایک اور قیمت ضرور ادا کرنی پڑتی ہے اور وہ صحیح یا غلط ذرائع سے ان جھوٹے سرابوں کے پیچھے بھاگنے والوں کا ایک ہجوم کا اضافہ ہے جو کبھی پانامہ میں اپنا کالا دھن چھپاتے پھرتے ہیں تو کبھی سوئس اکاؤنٹس میں اپنے کرپشن کا کریہ کرم کرتے نظر آتے ہیں ۔منی لانڈرنگ سے لے کر انڈرورلڈ کی بھیانک دنیاتک پھر اس کالا دھن کی کارفرمائی اربوں انسانوں کو روٹی روٹی کا محتاج بنائے رکھنے سے لے کر زندگی کی بنیادی سہولتوں تک سے محرومی کا سبب بنائے رکھتی ہے۔کاش ہم یہ سمجھ جائے کی دولت کی اس اندھی دوڑ کو مہمیز دینے کا مطلب خود انسانی سماج کی بتدریج تباہی ہے جو نہ دولت منداور نہ ہی غریب کے مفاد میں ہے ۔اگر idealize کرنا بہت ضروری ہے تو ان مخیر حضرات (philanthropists)کوکیا جائے جو اپنی دولت،پیسہ اور وسائل مفلوک الحال انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کر رہے ہو۔جن کی وجہ سے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ جسم جان کا رشتہ قائم رکھے ہوئے ہیں جو اصل میں ہمارے سماج کا نمک ہیں۔یہ اس لئے بہت ضروری ہے کہ اس سے معاشرے میں امیر غریب کے درمیان نفرت کا نہیں بلکہ احترام کا رشتہ پروان چڑھے گا ، دولت کے لئے اندھی دوڑ کی بجائے خدمت کے لئے ایک دوسرے سے بڑھنے کا رجحان پروان چڑھے گا،اور دوسرے امراء کو بھی تحریک ملے گی کہ
اپنے لئے تو جیتے ہیں سبھی لوگ اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے