اندھیر نگری چوپٹ راج

شہر قائد میں صحافت کرتے ہوئے اکثر پولیس کو جانبدار دیکھا مگر جب کبھی بھی صحافی کی بات آتی تو ہماری سندھ پولیس ہمیشہ نرمی دکھاجاتی مگراس کے برعکس پنچاب پولیس کی پولیس گردی اکثر دیکھنے میں آتی رہتی ہے مگر کل تو انتہا ہی ہو گئی ریاست کے چوتھے سکون صحافت سے وابستہ افراد کو بھی اس پولیس گردی کا سامنا ہے جب ہمارے قلم کار دوست نسیم الحق زاہدی جو کہ لاہور کے علاقے مزنگ میں کرایہ کے گھر میں رہتے ہیں اس محلے کے چند اوباش لڑکے ہر شام محلے میں اس کے گھر کے سامنے آکر کھڑے ہوجاتے ہیں اور آتی جاتی خواتین پر آوازیں کسنااونچی آواز میں گانے گانا سیٹیاں مارنا موٹرسائیکل کے سیلنسرنکال کر ریسیں لگانا ان کا وطیرہ ہے اور بالخصوص رات 9سے1تک دوسروں علاقوں سے بھی آوارہ شرابی چرسی اوباش لڑکے ٹولیوں کی صورت میں آکر ان سے مل جاتے ہیں اور موبائل پر اونچی آواز میں فحش فلمیں اور گانے لگا کر نازیبا آوازیں نکلانا ان کا وطیر ہے ۔

ایک بارہمارے قلمکاردوست نے ان سے ریکوسٹ کی کہ یہاں شریف لوگ رہتے ہیں اور اس طرح کی حرکات کا بچوں پر اچھا اثر نہیں پڑتا تو شراب کے نشے میں دھت ان اوباش لڑکوں نے خوب گندی گندی گالیا ں نکالی اور قتل اغواء جیسی سنگین نتائج کی دھمکیاں دی زاہدی کے بارہا سمجھا نا پر یہ اوباش لڑکے نہ مانے توہمارے قلم کار دوست نے پولیس سے رابطہ کیا اورتنگ آخر پولیس مددگار15پرکال کی مگرگھر سے پولیس اسٹیشن پانچ منٹ کے فاصلے پر ہونے کے باوجود پو لیس ایک گھنٹے بعد آئی اور اوباش لڑکوں سے بازپرس کرنے کے بجائے انہی سے حال احوال میں لگ گئے بقول زاہدی کے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے ان بااثر غنڈوں کا تعلق کسی ا علیٰ پو لیس افسر سے تھا اس لیے ان پولیس والوں نے زاہدی کو اپنے ساتھ تھانے لے گئے اور بولے کیا آپ نے پورے علاقے کو سدھارنے کا ٹھیکہ لیاہوا ہے اور بتایا کہ ان لوگوں نے آپ کے خلاف کہا ہے کہ آپ آتے جاتے ان لڑکوں کو دھمکیاں دیتے ہو کہ میں صحافی ہو تم لوگوں کو بند کروادونگا وہاں تو وہی ہوا کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے اور ان کو لینے کے دینے پڑ گئے اورالٹا مدعی ہونے کے باوجود ہمارے دوست کو ذلت اٹھانی پڑی حسب روایت رشوت کی مانگ کرنے لگے …

ہمارے دوست صحافت کی بانگ دیتے ہوئے سب کو برا بھلا کہتے تھانے سے واپس گھر آگئے اور گھر والوں کو بولا کہ ہمارے نظام کا کچھ نہیں ہونے والا آوے کا آوا ہی بگڑا ہو ہے اور پھر وہ پنی ہائی بلڈپریشر کی دوائی کھا کر سوگیا اورپھر آدھی رات کو وہی لوگ پھر موٹر سائیکل کو ریسیں دیتے رہے اور کچھ دیر بعد50‘40کے قریب غنڈے اسلحے سے لیس گھر کر دروازے پر آگئے اور دروازے کولاتیں مارتے اور دروازہ کھل گیا تو اندر گھس آئے اور ان کی بیوی اور بہن پر پسٹل تان کر مارنے کی دھمکی دی اور کہنے لگے کہ پولیس ہماری غلام ہیں اور اپنا تعارف شیخ تنویر ڈائر یکٹر انٹی کرپشن کہہ کر کرایااور دھکمیاں دیتے ہوئے دوبارہ گلی میں جا کر کھڑے ہوگئے تو ہمارے دوست نے دوبارہ 15پر کال کی تو ایک گھنٹے بعد ایک عام لباس میں بندہ آیا جو خود کر پولیس والا کہہ رہا تھااور ملزمان کے ساتھ گپ شپ کرنے لگا جبکہ 15 کو بتایا گیا تھا کہ ملزمان اسلحے سے لیس ہیں اور اس کے گھر میں گھس آئے ہیں کچھ دیر بعد ایک باورد ی پولیس والا آیا اور بولا زاہدی صاحب آرام سے زندگی گزاریں ان لوگوں کے معاملات میں نہ پڑے ورنہ یہاں رہنا مشکل ہوجائے گا۔کیا یہ پولیس کی ذمہ داری نہیں کہ متوسط علاقوں میں رہنے والوں کو تحفظ فراہم کرے اورکیا اہل قلم کی بے توقیری پنچاب پولیس کافرض منصبی ہے ؟

کیا زبردستی گھر میں پسٹل لیکر گھس جانا دہشت گردی نہیں؟چاردیواری کی تقدس کو پامال کرنا ان بڑے لوگوں کا شیوا ہے خدارا آئیے ریاست کے چوتھے ستون سے وابستہ افراد اورمعاشرے کے پڑھے لکھے طبقے کوکو پولیس گردی اور اس بے توقیری سے بچائیں اس جانبداراور سفارشی نظام کے خلاف آواز بلند کر یں اور حکومت کے ایوانوں تک اپنی آواز پہنچائے آج زاہدی اس کا شکار ہے کل ہم میں سے کوئی اور قلم کار ہو سکتا ہے کیا پولیس کا کام صرف تماشہ دیکھنا ہے اور ان بڑے لوگوں کا کام اس طرح کے تماشے دکھاناہے جب تک پولیس نظام ٹھیک نہیں ہوگا جب تک اس ملک کا کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوسکتاہر دور میں پنچاب پولیس نے یہ ثابت کیا ہے یہ نااہلی اور خوشامدی میں نچلی ترین سطحوں کو چھو سکتے ہیں لیکن ہمیشہ پنچاب حکومت کی طرف سے نظر انداز کیاگیا اور پولیس کو سیاسی پشت پناہی حاصل رہی ضرورت اس امر کی ہیکہ اب پولیس کو روایتی پولیس کے دور سے نکال کر ایک جدید پولیس بنانے کی ضرورت ہے انہیں جدید تربیت کے ساتھ اخلاقی وذہن سازی کی اشد ضرورت ہے تاکہ پولیس غیر جانبدار ہو کر اپنا کام کرے اور معاشرے میں پھیلتی ہوئی معاشرتی برائیوں کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں ورنہ پڑھے لکھے لوگ اسی طرح سر راہ رسوا ہوتے رہیں گے اور پولیس کے بااثر لوگوں کے ہاتھوں کی لونڈی بنی رہے گی اور یوں بے گناہ لوگ اس فرسودہ نظام سے بغاوت کر کے غلط راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو گے اور اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت وقت پرہو گی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے