مسلکی اختلافات اور عصری تقاضے

قرآن حکیم اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مسلمانوں کے باہمی اتحاد اخوت اور محبت پر بہت زیادہ زور دیاگیا ہے اور اس کے فقدان کو مسلمانوں کے لیے بے وزن ہونے کی دلیل قرار دیاگیا ہے۔ دشمنانِ اسلام نے بھی ہر دور میں مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے پر توجہ مرکوز کررکھی ہے۔ تاریخ اسلام کا جب گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارا دورِ انحطاط اسی وقت سے شروع ہوا جب ہمارا ملی اتحاد منتشر ہونا شروع ہوا۔ اسلام کے دشمنوں کے نشانے پر بھی ہمیشہ یہی ملی اتحاد رہا ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے علمی، فقہی اور سیاسی اختلافات کو ہوا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ملی اتحاد کو توڑنے کے لیے ہی Nationalism کا نظریہ وضع ہوا۔ تاکہ مسلمان قومی سرحدوں میں محصور ہوکر ملت کے تصور کو خود ہی دفن کردیں۔ خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے اسباب پر نظر دوڑانے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کس طرح دشمنانِ اسلام نے عرب قومیت کے نعرے کو خلافتِ عثمانیہ کو پارہ پارہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس وقت خلافتِ عثمانیہ اسلام اور مسلمانوں کی نمایندگی کی علامت تھی۔ اگرچہ خلافت میں وہ دم خم باقی نہیں رہا تھا جس کی وہ متقاضی تھی۔

ماضی میں مسلمانوں میں موجود فقہی اختلافات جب اپنی جائز حدوں سے تجاوز کرگئے تو وہ فتنہ وفساد برپا ہوا، جس میں لوگوں کی جانیں تک تلف ہوئیں۔ ان چیزوں میں زیادہ تر ان کوتاہ بین اورنام نہاد علما کا رول رہتا ہے، جو ان فروعی اختلافات کو ہوا دے کر ایک طرف تو اپنی نام نہاد عالمانہ ساکھ کو مسلم معاشرے میں بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری طرف دانستہ یا نادانستہ طور پر دشمنانِ اسلام کے خانوں میں رنگ بھرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ مکاتب فکر کااختلاف کوئی معیوب چیز نہیں بشرطیکہ یہ اپنی جائز حدوں میں رہے۔ تفرقہ اور اختلاف میں فرق ہے۔ جہاں سوچنے سمجھنے والے دماغ ہوں وہاں اختلاف ہونا لازمی ہے۔ اختلاف نہ ہونا تو جمود کی علامت ہے۔ اسلام اختلاف کی نہیں تفرقے کی مذمت کرتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ اختلافات کو برداشت کیا جائے اور سینے کشادہ رکھے جائیں۔ قرآن اور احادیث مبارکہ کااگر مطالعہ کھلے ذہن سے کیا جائے اور تمام مکاتب فکر کے استنباطی اصولوں سے آگاہی حاصل کی جائے تو سارا معاملہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ مختلف فقہی مسالک میں استنباط کے اُصولوں میں فرق ہونے کی وجہ سے فقہی مسائل میں اختلاف پیدا ہوا ہے۔ اس میں قطعاً کوئی حرج نہیں کہ مسلک حنفی، مسلک شافعی، مسلک مالکی، مسلک حنبلی ، مسلک اہل حدیث کے اعتبار سے آپ علیحدہ علیحدہ رہیں یہ کفر اور شرک نہیں۔ یہ بات متفق علیہ ہے کہ اصل میں شارع حقیقی اللہ تبارک وتعالیٰ ہے اور اللہ عزوجل نمائندے کی حیثیت سے اللہ کا رسولﷺ ہے۔ اگر کسی نے یہ سمجھا کہ شارع کی حیثیت امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام بخاریؒ کو حاصل ہے تو وہ مشرک ہوجائے گا۔
حنفیوں ، شافعیوں، مالکیوں ، حنبلیوں اور اہل ظواہر کے درمیان بہت سارے فقہی اختلافات ہیں، لیکن اب یہ سارے اختلافات سمٹ کر نماز کے چند مسائل میں محصور ہوگئے ہیں اور زیادہ سے زیادہ طلاق تک متعین ہیں یا اگر تھوڑا اور تجاوز کر جائیں تو تقلید وعدم تقلیدتک۔

کسی بھی عام حنفی بھائی سے اگر آپ پوچھیں کہ آپ کا دوسرے مکاتب فکر سے کیا اختلاف ہے تو وہ صرف یہی بتائے گا کہ ہم نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھتے ہیں، رفع یدین نماز میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت کرتے ہیں، آمین بالسّر کہتے ہیں اور باجماعت نمازوں میں امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھتے۔ کیونکہ ہمارے علماء نے ہمیں یہی بتایا ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ایسی ہی تھی۔ ہم ابھی دین کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے ،ہم ابھی قرآن ٹھیک طرح سے نہیں پڑھ پاتے۔ ایسی صورت میں ہم اختلافی مسائل میں کیا لب کشائی کریں گے۔ اب آپ کسی عام اہل حدیث بھائی سے پوچھیے کہ آپ کا دوسرے مکاتب فکر خصوصاً حنفیوں سے کیا اختلاف ہے تو اس کا جواب کچھ اس طرح ہوگا دیکھیے جی! ہم کسی شخص یا امام کی تقلید نہیں کرتے۔ ہم تو صرف قرآن اور حدیث پر چلنے والے لوگ ہیں۔ ہم نماز میں رفع یدین تکبیر تحریمہ کے علاوہ رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت کرتے ہیں، آمین بالجہر کرتے ہیں، سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں اور باجماعت نمازوں میں امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ بھی پڑھتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ آپ کو احادیث بھی دکھائے گا۔ حالاںکہ یہ بھائی بھی حنفی بھائی کی طرح ابھی قرآن اچھی طرح نہیں پڑھ پاتا، قرآن اور احادیث کی زبان عربی سے واقفیت تو دُور کی بات ہے۔ اگر اسے ان احادیث کے بارے میں علمیت ہوتی جو احناف کے پاس بطور دلیل ہیں اور علم حدیث کے سمندرسے اس نے ایک گھونٹ بھی پیا ہوتا تو شاید ان تمام اختلافات کو کھلے ذہن کے ساتھ برداشت کرتا۔

جو شخص کتب اسماءالرجال پر نظر رکھتا ہے اس سے یہ بات مخفی نہیں کہ راویوں کے متعلق یہ کوئی انوکھی بات نہیں کہ ثقہ سے ثقہ راوی کو بھی بعض نے ضعیف کہہ دیا ہے اور ضعیف سے ضعیف راوی کو بھی بعض نے ثقہ کہہ دیا ہے۔ یہ بات یہاں قابل غور ہے کہ احادیث کے راویوں کی ہی بنیاد پر احادیث کے درجات طے ہوتے ہیں اور حدیث کو صحیح ، حسن ، ضعیف، موضوع وغیرہ کہاجاتا ہے۔ اسی لیے کسی راوی کے متعلق صحیح فیصلہ کرنے کے لیے تین چیزوں کی پرکھ ضروری ہے۔ ﴿۱﴾ جارح کی حیثیت ﴿۲﴾جرح کا سبب اور صیغہ جرح کا مرتبہ ﴿۳﴾تعدیل اور معدل کی حیثیت اور یہ وہی کرسکتا ہے جو حدیث کے متعلق علوم سے گہری واقفیت رکھتا ہے۔ نہ کہ وہ جو صرف رمضان کے مہینے میں نمازوں کااہتمام کرتا ہے اور افطار کے انتظار میں وقت گزارنے کے لیے مسجد میں بیٹھ کر ۲۰ اور ۸ رکعات تراویح کے مسئلے اور دیگر اختلافی امور پر بحث ومباحثہ کرتا رہتا ہے۔ اختلافی امور پر سب سے زیادہ لڑائیاں یہی رمضانی نمازی جیسے لوگ کرتے ہیں۔ ماہِ رمضان کے متبرک مہینے میں اور اللہ تعالیٰ کے گھر کے اندر ’’عالمانہ بحث ومباحثہ‘‘ کے دوران کبھی جوش میں آکر ایک دوسرے سے ہاتھا پائی بھی کرلیتے ہیں۔ لہذا کسی بھی صورت میں علمی اختلاف کو عام لوگوں کے درمیان نہیں لانا چاہیے۔ بلکہ صرف علماء کے درمیان ہی رہنا چاہیے۔ قارئین کرام کی خدمت میں ایک بات ذکر کرتا چلوں کہ برصغیر کے تمام مکاتب فکر (دیوبندی.بریلوی. اھلحدیث.جماعت اسلامی.)میں جو اختلاف مرکزی حیثیت اختیار کرگیا ہے خصوصا اھلحدیث اور حنفی حضرات کا اب لگ بھگ علامتی نشان بن چکا ہے وہ ہے نماز میں رفع یدین کرنا اور نہ کرنا۔ حالانکہ دونوں طریقے سنت سے ثابت ہیں۔ اگر اختلاف ہے تو صرف راجح اور مرجوح کا۔ لیکن بے شمار کتابیں دونوں طرف سے لکھی گئی ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ فریق مخالف جو حدیث اپنی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ ضعیف ہے اور اس کے مقابلے میں وہ حدیث جس پر دوسرا فریق عمل کررہا ہے وہ قوی ہے۔

اس سلسلے میں بہت سارے لٹریچر کو پڑھنے کے بعد دونوں فریقوں کو احقر کا مشورہ ہے کہ اگر واقعی کوئی جماعتی اور مسلکی تعصب سے اوپر اٹھ کر اسلام کی خدمت کرناچاہتا ہے تو مذکورہ اختلافی امور کے سلسلے میں اِن کتابوں کو زیر مطالعہ لایا جائے: رسائل ومسائل از مولانا مودودیؒ، اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، اسلام میں اختلاف کے اصول وآداب، دعوت دین کے جدید تقاضے احناف اور اہل حدیث حضرات کے بڑے بڑے علماکی مذکورہ اختلافی مسائل کے سلسلے میں جو عالمانہ رائیں ہیں، اُن کو بھی غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے کس طرح وسعتِ فکر ونظر سے کام لیاہے۔لیکن اب ہم نے ان مسائل کو ناک کا مسئلہ بنارکھا ہے۔ اسی لیے رفع یدین کی سنت پر عمل پیرا مسلمان رفع یدین کی سنت پر عمل نہ کرنے والے مسلمانوں سے اندرہی اندر ایسی نفرت کرتا ہے جیسے نعوذ باللہ ان سے کوئی گناہ ہوا ہے۔ اور اسی طرح عدم رفع یدین کی سنت پر عمل کرنے والا مسلمان رفع یدین کرنے کی سنت پر عمل کرنے والے مسلمانوں کے بارے میں پھبتیاں کستا ہے اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت کا مذاق اڑاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ جاہل قسم کے لوگوں کا کام ہے۔ لیکن مشاہدے میں آیا ہے کہ کہیں کہیں پڑھے لکھے افراد بھی ان چیزوں میں ملوث ہوتے ہیں۔

ان اختلافات سے نکلنے کی درخواست کے ساتھ احقر کا مشورہ ان مسلم نوجوانوں کے لیے، جو جزوی اور فروعی اختلافات میں الجھنے کے بجائے اقامت دین کا جذبہ رکھتے ہیں ، یہ ہے کہ وہ مثالی مسلمان بننے کی کوشش کریں اور صحابہ کرام کی مثالی زندگیوں پر گہری نظر ڈالیں اور ان کے نقش قدم پر چلیں تب ہم کامیابی سے ہم کنار ھوسکتے ھیں

اسی طرح احادیث کے صحیح و ضعیف ہونے پر علماء نے جو کتابیں لکھیں ہیں اورجن کو بنیاد بنا کر اکثر کچھ جوشیلے قسم کے لوگ بحث بازی شروع کردیتے ہیں اور ان لوگوں کو ہدف کا نشانہ بنایاجاتا ہے جو اپنی علمی کم مایگی کی وجہ سے علمی معاملات میں علماء کرام کی طرف ہی رجوع کرنے کو مناسب سمجھتے ہیں، اس لیے کہ انھیں معلوم ہے کہ وہ ابھی قرآن وسنت سے براہِ راست استنباط کرنے یا احادیث مبارکہ کے متعلق وسیع علوم سے استفادہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اتحاد امت کے درد رکھنے والے علما اور مفکرین کی عالمانہ اراءکو اگر اپنایا جائے تو مسلکی تنازعوں اور جھگڑوں کاازالہ ممکن ہے۔ جو لوگ فروعی یا اختلافی امور کو لے کر زیادہ بحث بازی کرتے ہیں ان کو ان سے اجتناب کرنا چاہئیے کیونکہ علوم دینیہ خصوصاً احادیث کے متعلق علوم سے واقفیت حاصل کرنا اور پھر اس پر دسترس حاصل کرنا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے جو صلاحیت اور محنت درکار ہے اس کے لیے عرق ریزی کرنی پڑتی ہے ۔یہ چند پمپفلٹ پڑھنے سے نہیں پیداہوتی۔ اس کے لیے طالب کو آنکھوں کی بینائی بطور تیل کے جلانی پڑتی ہے۔ یہ تو اس کے لیے ہے جو مذکورہ علوم پر مہارت حاصل کرناچاہتا ہے اب چونکہ دوسرے علوم کی تحصیل بھی ضروری ہے اور ان میں بھی ماہرین کا ہونا ملت اسلامیہ کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہوگیا ہے ۔ اسی طرح بہت سارے علوم جن میں ملت اسلامیہ کو ماہرین درکار ہیں، ملت اسلامیہ کو ڈاکٹر انجینئر، سائنس داں، کی بھی ضرورت ہے۔ یہ علوم بھی کافی وقت اور محنت کے متقاضی ہیں ۔ ایک مسلمان کے لیے جتنے علوم الفرائض اور دیگر ضروری دینی معاملات سے آگاہی ضروری ہے ان کو حاصل کرکے اسے دیگر علوم پر ہی ساری توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور جب اسے کوئی شرعی مسئلہ دریافت کرنے کی ضرورت پڑے تو اس وقت وہ ان علما کی طرف رجوع کرے ، جو صرف علوم اسلامیہ کے ماہرہیں۔ ایک عام مسلمان کو باریک دینی مسائل میں عالموں کی تقلید کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔کیونکہ عام لوگوں کو دینی مسائل کے بارے میں بولنامنع ہے ان کی آرائ کا کوئی اعتبار نہیں۔ ان کی حیثیت جو بھی ہو یااس کا تقویٰ جتنا بھی ہو۔

احقر کے نزدیک یہ ان دینی مسائل میں بولنے کے متعلق ہے جو عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔ علامہ قرطبیؒ اپنی تفسیر میں درج ذیل آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں:
’’ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں ان کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ اچھا اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہِ راست نہ پائی ہو تو کیاپھر بھی یہ انھی کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟‘‘ ﴿البقرہ:۱۷۰﴾
تَعَلَّقَ قَوْمٌ بِھٰذِہِ الْآیَۃِ فِیْ ذَمِّ التَّقْلِیْدِ لِذَمِّ اللّٰہِ تَعَالیٰ الْکُفَّارَ بِاِتِّبَارِعِھِمْ لِاٰبائِھِمْ فِیْ الْبَاطِلِ وَاِقْتِدَائِھِمْ بِھِمْ فِیْ الْکُفْرِوَالْمَعْصِیَتِ۔ أمَّا التَّقْلِیْدُ فِی الْحَقِّ فَأضلٌ مِنْ اَصُوْلِ الدِّیْنِ، وَعِصْمَۃٌ مِنْ عِصَمِ الْمُسْلِمِیْنَ یَلْجَأُ اِلَیْھَا الْجَاھِلُ الْمُقْصِرُ عَنْ دَرْکِ النَّظْرِ۔ ﴿تفسیرقرطبیؒ،۲/۲۱۱﴾
لوگوں نے اس آیت کو تقلید کی مذمت کے متعلق کردیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کفار کی باطل ، کفر اور معصیت میں اپنے آبائ کی پیروی کی مذمت کی ہے، جہاں تک حق میں تقلید کا تعلق ہے تو یہ اصول دین میں سے ایک اُصول ہے اور مسلمانوں کے بچاؤ میں سے ایک بچاؤ ہے، پناہ لیتا ہے اس کی طرف وہ نہ جاننے والا جو انتہائی گہری بصیرت سے قاصر ہو۔

وقت کی ضرورت ہے کہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلیؒ اور اہل حدیث اور اسی طرح برصغیر کی تمام مکاتب فکر کے اختلافات کو اصولی اختلاف نہ سمجھا جائے اور اس قسم کے اختلافات کو Space دے کر اُمّتِ واحدہ بن کر اقامت دین کی کوششوں میں اپنی توانائی صرف کرنی چاہیے۔اللہ کرے امت پھر سے امت واحدہ بن سکے امینmuslims

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے