سرکاری صاحب

ہم ایشین لوگ بھی کمال کے رویوں کے مالک ہوتے ہیں۔ اور اگر کوئی سرکاری آفیسر ہو تو پھر اس کا غرور اپنی مثال آپ ہوتا ہے۔ ۔۔۔۔۔ جبکہ یورپ میں سرکاری آفیسرز کا ردعمل خالصتاً عوامی ہوتا ہے۔ وہ اپنے منصب اور عہدے کو عوام کی امنگوں پر ڈھالتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ عوام سے میل جول اعلی انداز میں ہو۔ وہ سرکار کے "کاغذوں” میں آفیسر ہوتا ہے۔ مگر عملی طور پر وہ عوام کی خدمت پر معمور ہوتا ہے۔

اٹلی اگرچہ یورپین یونین کے بانی ممبر ممالک میں سے ہے۔ یہاں کی گورنمنٹ پر بھی مالی بے ضابطگیوں کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔ چونکہ یہاں بھی "کالی بھیڑیں” موجود ہیں۔ مگر باوجود اس کے ان میں اچھے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔

چند روز قبل مجھے ایک ڈاکٹر سے ملاقات کا اتفاق ہوا۔ میں اس ڈاکٹر کے پاس ایک پاکستانی لڑکے کے ساتھ گیا تاکہ اس کی بات کو ایک مترجم کے ذریعے ڈاکٹر کو بتایا جائے۔ میرا ریکارڈ یہاں کی لوکل گورنمنٹ کے پاس ہے کہ میں اردو اور انگریزی کے ساتھ ساتھ پنجابی اور کشمیر سمیت پاکستان کی چند لوکل زبانوں پر عبور رکھتا ہوں۔ چنانچہ وہ کبھی کبھار پیشگی کال کر کہ بلا لیتے ہیں۔

یہ لڑکا ذہنی مریض تھا اس لئے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے مختلف سوال کرتا اور اس کی حرکتوں سے ساتھ گئی ہوئی اٹالین لڑکی بھی محظوظ ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر کے ساتھ صبح دس بجے کی اپائنٹمنٹ بُک تھی۔ ڈاکٹر کے پاس پہنچ کر اس لڑکے کا حملہ ڈاکٹر کی میز پر پڑے سرخ ڈبے پر ہوا۔ اس ڈبے میں ایک طرف بہت ہی اعلی معیار کی ٹافیاں تھیں تو دوسری جانب ڈاکٹر کی تعریفی شیلڈ اور سرٹیفکیٹ تھا جو چند روز قبل ہی اسے اعلی خدمات کی بدولت روم میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر نے مسکراہٹ بھرے لہجے میں اس کی جانب دیکھا اور اس ڈبے کو کھول کر چند ٹافیاں اس کو تھما دئیں۔ اس لڑکے نے جب ٹافیاں کھانا ختم کیا تو ڈاکٹر نے اپنی کارروائی شروع کی۔ یہ مریض مجھے پنجابی میں بتاتا تو میں اس کو انگلش میں ساتھ گئی ہوئی اٹالین لڑکی کو بتاتا اور وہ پھر ڈاکٹر کو اٹالین زبان میں بتاتی۔
تھوڑی ہی دیر گزری تو ڈاکٹر نے اچانک اس کو اپنے بغل گیر کر لیا۔ اس سے قبل یہ مریض ہر بات بہت ہی مشکل سے کرتا تھا۔ مگر ڈاکٹر کے اس عمل سے جیسے جادو کا کوئی منتر پھونک دیا ہو اس پر۔ اس مریض کی 30% باتیں ٹھیک سی ہو گئیں۔۔۔۔
چیک اپ ختم ہوا تو ڈاکٹر نے اٹھ کر دروازہ کھولا اور ہمیں الوداع کیا۔
واپسی سارا رستہ میں یہ سوچتا رہا کہ اس لڑکے کی ہر ادا نرالی تھی مگر ڈاکٹر نے بھی جیسے کوئی جادو کر دیا ہو۔ کافی بہتری پہلی ملاقات میں آگئی ہے۔ میں اس ڈاکٹر کے حسن اخلاق سے بہت متاثر ہوا۔ مجھے بھی اپنے ساتھ بیتے ہوئے سرکاری افسران کے تجربے یاد آنے لگے۔
مجھے سب سے پہلے جو واقعہ یاد آیا۔۔۔۔۔۔۔ جب میں اپنے ڈومیسائل کے حصول کے لئے پلندری/سدھنوتی کے اسسٹنٹ کمشنر "آفتاب شاہ” کے دفتر گیا تھا۔
یہ کوئی 1998/99 کی بات ہے جب میں اپنے کزن خالد صدیق کے ساتھ اسسٹنٹ کمشنر سدھنوتی”آفتاب شاہ” کے دفتر گیا تھا۔اس نے میرے کزن کو سلام کیا اور جب میری باری آئی تو میرے ہاتھ میں پنسل تھی اور میں نے ہاتھ آگے بڑھایا مگر "صاحب ” نے ایک مخصوص انداز میں ہاتھ پیچھے کی جانب کر لیا اور میرے کزن کو کہا کہ مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ آپ کا کزن ملنے کے "آداب ” سے نا آشنا ہے۔ جب تک ہم اس کے دفتر میں رہے اس نے میری طرف دیکھا نہ ہی کوئی بات میرے ڈومیسائل بابت کی۔ صرف اس نے جھاڑ پلائی۔ اس وقت میں بمشکل انیس/بیس سال کا تھا۔ میری وجہ سے میرے کزن کو "صاحب ” سے معذرت کرنا پڑی۔ بعد ازاں ڈومیسائل جب بنا تو معلوم ہوا کہ دستخط کسی ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے ہیں۔
کیا غرور تھا "آفتاب شاہ” کو اپنی حیثیت کا۔۔۔۔ "آفتاب شاہ” کے اندر فرعونیت والا غرور تھا۔۔۔۔۔
یہ میرے لئے پہلا تلخ تجربہ تھا کہ کسی "سرکاری سانڈ” نے بتایا ہو کہ کسی ” صاحب” سے کیسے ملا جاتا ہے۔ ۔۔۔۔
وقت گزرتا گیا ۔۔۔۔اس وقت میں پاکستان میں تھا مجھے کئی بار خواہش ہوئی کہ ” صاحب” سے ملوں۔۔۔۔۔ مگر خواہش ، خواہش ہی اور میں یورپ آگیا۔
یہاں یورپ میں بھی اپنے قانونی کاغذات کی تکمیل کے دوران متعدد افسران اور اداروں سے واسطہ پڑا مگر یہاں تو کوئی "صاحب” نظر سے نہیں گزرا۔ یہاں سب کے لہجوں اور رویوں میں یکسانیت محسوس کی۔
قانون سب ممالک میں الگ ہی انداز میں لاگو ہوتے ہیں اور قانون کے رکھوالے عوام کے مال و جان کے محافظ ہوتے ہیں۔
پاکستان کے ہر شعبہ زندگی میں افسر شاہی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔ نائب قاصد پاکستان کے کسی بھی سرکاری ادارے کا پہلا "سرکاری صاحب ” ہوتا ہے۔ پھر جوں جوں بتدریج آگئے بڑھیں گے، آپ کو سارے "صاحب” ہی ملیں گے۔

پندرہ سولہ سال کے بعد مجھے "آفتاب شاہ” یاد آیا اور اس کا پروٹوکول بھی۔۔۔۔۔!!!!۔
عزت ذلت کا مالک تو رب تعالٰے ہے۔ غرور بھی صرف رب تعالٰے کی ذات کو ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔
عزت آپ اپنے عہدے سے کہیں زیادہ اپنے اخلاق سے حاصل کر سکتے ہو۔
تلخ تجربات ہوں یا لہجوں کی تلخی ۔۔۔۔۔۔ انسان کو بھولائے نہیں بھولتے۔۔۔۔۔۔ اور اعلی اخلاق کے حامل افراد بھی سدا زندہ رہتے ہیں۔۔۔۔۔ آپ کی سوچوں میں۔۔۔۔۔ آپ کے "خیال” میں۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے