سماجی اور تاریخی تحقیق کا موضوع

ایم کیو ایم کے چپڑقنات آئے دن ٹیلی ویژن چینلوں پر چیخم دھاڑ کرتے نظر آتے ہیں،نیوز کانفرنسوں کے دوران یہ بلند بانگ دعویٰ کرتے ہیں،مملکت خداداد پاکستان اور پاکستانی قوم پر یہ احسان جتلاتے ہیں،کیا ،ان کے بزرگوں نے اس وطن کے قیام میں بہت ۔۔بہت ۔قربانیاں دی تھیں؟ میرا کراچی اور دوسرے شہروں میں مقیم تحقیق کے طالب علموں سے یہ سوال ہے کہ اس موضوع پر تحقیق کیجیے۔

ذرا یہ کھوج تو لگائیے کہ ایم کیو ایم کے کس ایم این اے ،ایم پی اے ،سیکٹر انچارج ،رابطہ کمیٹی کے رکن ،سینیٹر یا دوسرے رہ نما کے والد ،دادا ،چچا ،پرداد وغیرہ نے تحریک آزادی اور تحریک پاکستان میں ذاتی طور کیا کردار ادا کیا تھا؟وہ آگ اور خون کا دریا عبور کر کے آئے تھے یا خصوصی ٹرینوں میں بیٹھ کر کراچی وارد ہوئے تھے یا ساٹھ کی دہائی میں طیاروں میں محو پرواز ہوکر پہنچے تھے؟

خون کا دریا تو اہل پنجاب نے عبور کیا تھا۔مشرقی پنجاب والے لٹ پٹ کر چیتھڑوں میں مغربی پنجاب یعنی پاکستان کے حصے میں آنے والے پنجاب میں پہنچے تھے۔وہ اس حال میں آئے تھے کہ جس خاندان کے بیس پچیس ارکان مشرقی پنجاب یا کرنال کے کسی علاقے سے چلے تھے ،وہ نئے وطن تک پہنچتے پہنچتے ،پانچ چھے رہ گئے۔ان کی بیٹیاں ،ان کی عورتیں اٹھا لی گئیں،ان کے بچوں،جوانوں اور مردوں کو ان کے سامنے بے دردی سے قتل کردیا گیا۔وہ تو آج تک حرف شکایت زبان پر نہیں لائے۔انھوں نے نوزائیدہ وطن کو اپنا دیس بنایا۔اس میں رچ بس گئے۔ایک نئے سرے سے زندگی آغاز کی اور آج کوئی نہیں جانتا کہ ان میں مہاجر کون ہے اور مقامی کون ہے؟

اب ذرا احسان جتلانے والے مہاجر اور اردو بولنے والوں کے ان نام نہاد نمائندوں کے کردار کو بھی ملاحظہ کیجیے۔یہ ستر سال بعد بھی پاکستان کے نہیں ہوسکے۔جس ملک نے ان کو عزت دی ،عہدوں پر سرفراز کیا،روزگار دیا اور سب سے بڑھ کر ایک پہچان دی، آج یہ اسی پاکستان کو خاکم بدہن توڑنے کے درپے ہیں۔اس کے خلاف تحریکیں چلاتے اور اس کے دشمن ملکوں سے مدد مانگتے ہیں۔

بدمعاشوں کو اپنے جرائم پیشہ افراد کی ہلاکتوں کا بہت غم ہے اور اس کا پروپیگنڈا بھی بہت کرتے ہیں لیکن انھوں نے جن کو دن دہاڑے قتل کیا، گولیاں ماریں،اس وطن کے ہیرے چھین لیے،بارود پھینک کر زندہ جلا دیا،ان کے خون کا حساب کون دے گا؟صلاح الدین مدیر تکبیر اور حکیم محمد سعید صاحب شہید سے لے کر امجد صابری تک یہ ایک لمبی داستان ہے۔ان سب کا آخر قاتل کون تھا؟ روشنیوں کے شہر میں خون کی ندیاں بہانے والا کون ہے؟کس نے لوگوں کے کاروبار تباہ کیے؟ کس نے بھتا نہ ملنے پر فیکٹریاں جلائیں؟ کس نے سیکڑوں بسوں اور گاڑیوں کو آگ لگائی؟ کن رنگ بازوں نے میڈیا دفاتر پر حملے کیے؟

یہ لولے ،لنگڑے ،موٹے ،چھوٹے ،ٹنڈے ،سامبے، کالیے کس جماعت کے کارکنان تھے؟کیا وہ کسی خلائی مخلوق کا حصہ تھے؟جانگلوؤں کی زبان سے جُرم کی ہر واردات کے بعد سچ نکل جاتا ہے۔کہتے ہیں،ان وارداتوں میں کسی تیسری قوت کا ہاتھ کارفرما ہے۔درست کہتے ہیں۔وہ تیسری قوت ہی ان سے یہ سب کام کرواتی ہے۔ان کا سانڈ نما سربراہ اب علی الاعلان اس تیسری قوت سے پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف مدد مانگ رہا ہے۔تُف ہے تم پر اور تمھاری غلاظت زدہ ذہنیت پر۔

ایک غلط فہمی : ایم کیو ایم کے قاتل اور جرائم پیشہ گروہ کو اردو بولنے والوں کا نمائندہ اور مہاجروں کا قائم مقام سمجھ لیا جاتا ہے۔کہاں جرائم پیشہ غنڈے اور کہاں شریف لوگ۔ ایم کیو ایم تمام مہاجروں یا اردو بولنے والوں کی نمائندہ نہیں ہے۔یہ استعمار کا ایجنٹ گروہ ہے۔
پس تحریر: ادھار کی دانش بیچنے والے استعمار کے بے دام غلام اب کس مشن پر ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے