الطاف حسین کی سیاسی خودکشی ۔ ۔

ستمبر 2013سے شروع ہونے والے کراچی آپریشن کے خلاف 6 دن سے لگے ایم کیوایم کے بھوک ہڑتالی کیمپ جو تا دم مرگ تھا اب وہ ایم کیو ایم کیلئے سیاسی خود کشی بن گیا قائد ایم کیو ایم کے شر انگیز تقریر کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز بنتا ہی نہیں ایک تقریر نے سارا کھیل پلٹ دیا حیرت انگیز بات یہ ہیکہ ایک ایسے وقت میں جب ساری ہمدردیاں ایم کیو ایم کو مل رہی تھیں تادم مرگ بھوک ہڑتال کی وجہ سے ماحول ان کے حق میں بنتا جا رہا تھا جبکہ آج ہی فاروق ستار اور نسرین جلیل کی ملاقات وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید سے ہوئی تھی جس میں ایم کیو ایم رہنماؤں نے اپنے مطالبات تحریری شکل میں دئے تھے اور ایم کیو ایم کے وفد کی ملاقات جمعرات کو وزیراعظم سے متوقع تھی جبکہ دوسری طرف فرحت اللہ بابر بھی ان کے مطالبات آگے تک پہنچا رہے تھے اور تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے ہمدردیاں ایم کیو ایم کو مل رہی تھی مگرعین اس موقع پر جب سب معاملات بہتری کی طرف جا رہے تھے اس وقت ایسا اقدام ایم کیو ایم کی سیاسی خود کشی ہے اس اقدام نے سب کچھ سبوتاژکر دیا ۔وطن عزیز میں سیاسی قائدین ایسی باتیں کرتے رہے ہیں کبھی غلام مصطفی کھر انڈین ٹینکر پر بیٹھ کر پاکستان آنے کی بات کرتے ہیں تو کبھی خواجہ آصف نے افواج پاکستان کو نشانہ بنایا اورابھی حال ہی میں محمود اچکزئی نے فواج پاکستان کے حوالے اپنے دل کے چھالے پھوڑے اور قائد ایم کیوایم تواتر کے ساتھ ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں قائد ایم کیو ایم نے 14ستمبر کو 2013کو خود فوج کو بلایا اور اس کے بعد وقتا فوقتا خود ہی پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بر ا بھلا کہتے رہے

ما رچ 2015میں انہوں نے جیو نیوزکے پروگرام میں "شاہ زیب خانزادہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رینجرز کا وقت اب ختم ہونے والا ہے ، اپریل 2015میں نوجوانو ں کو کہا کہ وہ کمانڈو ٹریننگ لے اور انڈیا سے درخواست کی کہ وہ ٹریننگ میں مدد کرے ،جون 2015میں انہوں نے کہا کہ 1992میں جن افسران نے ایم کیو ایم کے خلاف کاروائی کی تھی ان کو کتوں کی طرح موت آئی ، جولائی 2015 میں دھمکی دی کہ ہم سڑکوں پر آجائے گے اور ر ینجرز اور آئی ایس آئی کو سرراہ لٹکائے گے اور اکتوبر 2015میں کہا کہ رینجرز اہلکاروں کی سروں سے فٹبال کھیلے گے اور اس کے بعد سے قائد ایم کیوایم کی تقاریر اور تصاویر پر پابندی لگائی گئی تھی اوراس کے برعکس قائد ایم کیو ایم کئی بار قانون نافذکرنیوالے اداروں کی تعریف بھی کرتے رہے ہیں اور اکثر اپنے بیانات میں وہ جوتوں کی آوازیں سنتیں رہے ہیں اور فوج کے اقتدار پر براجمان ہونے کی پیشین گوئیاں کرتے رہے ہیں مگر پھر بھی ایم کیوایم مشرف والی ہم آہنگی وہ موجودہ سپہ سالار سے پیدا نہ کرسکے اورفوج اور ایم کیوایم کے درمیان اختلافات جوں کے توں رہے ۔

ایم کیوایم کو جنم دینے والے ضیاء الحق تھے ان کو پروان چڑھانے والے مشرف مگر موجودہ سپہ سالارسے ایم کیو ایم اچھی انڈرسٹنڈنگ نہ بنا سکی اور کراچی آپریشن کے خلاف ایم کیو ایم واویلا کرتی رہی ہے کہ ہمیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے !اردو بولنے والا وزیراعلی کب بنے گا ! ہمارے بے گناہ کارکنوں کو گرفتار کیاجارہا ہے ! کی دوہائی دینے والوں کو واقعتا ہی اکیلا ہونا پڑااور اس کی وجہ قائد ایم کیو ایم کی اشتعال انگیز تقریر اور پاکستان مخالف نعرے بنے اوررات گئے ایم کیو ایم کے مرکز 90کاپولیس و رینجرز کامحاصرہ اور گھر گھرتلاشی اور شعبہ اطلاعات ایم پی اے ہاسٹل اور د وسرے شعبہ جات کی تلاشی کے بعد کراچی کی تاریخ میں پہلی بار ایم کیو ایم کے مرکز 90کو بند(سیل) کردیا گیا اور شہر بھرمیں قائم ایم کیو ایم کے تمام سیکٹر آفس بھی بند (سیل)کر دئے گئے ہیں جبکہ پانچ بڑے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ تقریبا ایم کیوایم کے 50 سے زائد کارکنان کو حراست میں لیا گیا ہے اور ودسری طرف قائد ایم کیو ایم کے خلاف اسکاٹ لینڈ یارڈ کو بھی کالز اور درخواستیں موصول ہو رہی ہیں جبکہ پرویز رشید نے کہا کہ لندن پولیس الطاف حسین کو گرفت میں لے جبکہ چوہدری نثار نے کہا کہ لندن حکومت کس طرح ایک شخص کو اپنی زمین پاکستان مخالف نعرے لگانے کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دے رہی ہے؟

اب جس طرح تمام حالات مائنس الطاف کی طرف جارہے ہیں اور ایم کیو ایم کے اسکرین سے غائب بڑے رہنماؤں اور اراکین اسمبلی کی طرف سے پاکستان کے حق میں ٹوئٹ آرہے ہیں اس سے تو یہ ہی ظاہر ہوتا ہے کہ اب الطاف حسین کی سیاسی زندگی ختم جبکہ پاکستان خلاف تقریر سننے ، نعرے لگانے اورمعاون بننے والے شرپسندعناصر کو گرفتا ر کیا جارہا ہے لگتا ہے کہ اب کراچی آپریشن درست سمت جارہاہے اور ایسے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص میجر جنرل اکبر بلال کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ کراچی کا اردو بولنے والا ایک عام شہری اس صورتحال میں خود کو غیر محفوظ محسوس نہ کرنے لگے اور پھر سے ایم کیو ایم کو اپنا واحد سہارا نہ سمجھے بس ذرا اس بات کا خیال رکھے کہ عام اردوبولنا والاشخص اس سے متاثر نہ ہو اور ان کا اعتماد بحال ہو اور اگر قانون نافذکرنے والے اس میں ناکام رہے تو پھر قائد ایم کیوایم مظلومیت کا کارڈ کھیلنے میں کامیاب ہو جائے گے بس تھوڑی احتیاط سے کام کرنے کی ضرورت ہے پاکستان کو گالی دینے والے مردہ باد کہنے والے کسی بھی نرمی کے مستحق نہیں اور ایسا صرف عام پاکستانی اور قانون نافذکرنے والے ادارے ہی نہیں بلکہ خود ایم کیو ایم کے سینئر رہنما اپنے ٹوئیٹ میں پاکستان زندہ باد اور ہم سب سے زیادہ پاکستان سے پیار کرنیوالے ہیں کا اظہار کر رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے