ایم کیو ایم کی تین خوفناک کہانیاں

کراچی کے حالات کس طرف جا رہے ہیں، اس کا اندازہ آپ ان چند چشم دید واقعات سے لگا سکتے ہیں۔
۔
[pullquote]پہلا واقعہ
[/pullquote]

۔یہ اکتوبر 2009ء کی بات ہے جب میں وہاں پہنچا تو اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور اس سے سوالات جاری تھے۔ مجھے ساتھ لے جانے والے پولیس افسر نے کہا کہ اب اس کی انویسٹی گیشن سنو مگر یہ تمہاری آواز نہ سنے، بہت حرامی ہوتے ہیں یہ۔ میں ایک جانب بیٹھ کر سوال جواب سننے لگا۔ تحقیقات کرنے والے تینوں افسران معروف پولیس افسران تھے، اور کراچی کے دہشت گردوں کے خلاف سرگرم ہونے کا خصوصی ریکارڈ رکھتے تھے۔ اور محکمہ پولیس بھی ان افسران سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرانے کے بعد انھیں دہشت گردوں کا ہدف بننے سے بچانے کے لیے بلوچوں یا پٹھانوں کے علاقے میں تعینات کردیتا تھا۔ تفتیش کرنے والے یہ تینوں افسران ملزم کو ڈائیورٹ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو میجرصاب، کرنل صاب اور کیپٹن صاب کہہ کر مخاطب کر رہے تھے۔
یہ 9 اپریل 2008ء کو طاہر پلازہ میں وکلا کو زندہ جلانے کے سانحے میں گرفتار ہونے والے ملزم کی تحقیقات تھیں، جو عام طور لوگوں کے لیے ’’نامعلوم‘‘ ہوتے تھے۔ تفتیش کے دوران ملزم نے تفصیل بتائی۔

’’طاہر پلازہ کو کیمیکل کے ذریعے جلایا گیا ہے۔ کراچی میں یہ کیمیکل وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ منصوبے کے تحت کراچی کو سیکٹرز کی سطح پر تقسیم کیا گیا ہے اور ہر سیکٹر کی حدود میں موجود سرکاری اور نجی املاک کو مد نظر رکھتے ہوئے کیمیکل فراہم کیا گیا ہے۔ اس کیمیکل کو اسٹاک کرنے کے لیے مخصوص اسپاٹ بنائے گئے ہیں جہاں یہ کیمیکل ڈمپ کیا گیا ہے۔ میں صرف اپنے ایریا میں ڈمپ کیے گئے کیمکل اسپاٹ کے متعلق جانتا ہوں۔ (پولیس افسر نے بتایا کہ اس کی نشاندہی پر کیمیکل برآمد کرلیا گیا ہے)۔لڑکوں کو مختلف گروپس میں تقسیم کرکے کمانڈ بھی دی گئی ہے۔ ہمارے گروپ کو صرف عمارات کو راکھ کرنے کی ہدایات ہے۔ جب تحریک چلے گی تو سرکاری اور بڑی نجی عمارات ہمارا ہدف ہوں گی، اور عمارات کو نشانہ بنانے والی ہر سیکٹر کی ٹیم الگ ہوگی جو اپنے سیکٹر کی حدود میں کارروائی کرے گی، جبکہ شہر کی گلیوں میں سکیورٹی اداروں سے لڑنے والے گروپس الگ ہوں گے، اور ٹارگٹ کرکے مختلف اہم شخصیات کو ہدف بنانے والے گروپس الگ ہوں‌گے۔‘‘

میں نے روزنامہ جسارت، کراچی میں اس حوالے سے تفصیلی خبر فائل کردی ۔ کچھ دن بعد اس کی جے آئی ٹی بھی آگئی مگر حکومت کے دبائو پر میڈیا میں جاری نہیں ہونے دی گئی، جبکہ میڈیا بھی ان دنوں یرغمالی میڈیا تھا۔
۔

[pullquote]دوسرا واقعہ:[/pullquote]

جامعہ کراچی کے سامنے بس پر کریکر حملے اور فائرنگ کرکے کئی طالب علموں کو شہید و زخمی کردیا گیا تھا۔ میں اس کیس کو مسلسل فالو کر رہا تھا۔ ایک دن ڈاکٹر پرویز محمود شہید جو ایسے معاملات پر خصوصی نظر رکھتے تھے، کی فون کال آئی اور کہا کہ فوری میرے پاس آئو۔ میں گیا تو انھوں نے کہا کہ ایک سرکاری افسر نے رابطہ کرکے بتایا ہے کہ جامعہ کراچی سانحہ کے حوالے سے ایک ملزم کو گرفتار کیا ہے، کچھ اہم انکشافات ہوئے ہیں، ان سے ملنے جانا ہے۔ پھر ہم ان افسر صاحب سے ملنے چلے گئے تو انھوں نے اس ملزم کی گرفتاری کی تفصیل کچھ یوں بتائی۔

’’تحقیقات اور انٹیلی جنس نیٹ ورک سے ہمیں اس حملے کو لیڈ کرنے والے اور ٹیم اراکین کا پتا نہیں لگ رہا تھا۔ بڑی مشکل سے اس سانحے میں ملوث اس ٹیم کے ایک لڑکے کی تصویر ملی۔ (اس افسر نے وہ تصویر دکھائی تو وہ ایک لڑکے کی دور سے لی گئی تصویر تھی جس میں اس کا سائیڈ پوز تھا مگر واضح تھا اور وہ برگر ٹائپ لڑکا لگ رہا تھا)۔ کوئی اور لنک ہمیں نہیں مل رہا تھا۔ ہم مسلسل اس پر کام کرتے رہے تو ہمیں کڑیاں ملنی شروع ہوگئی۔ یہ لڑکا دائود انجینئرنگ یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور یونیورسٹی سمیت محلے یا کسی بھی دوسری جگہ اس کی کوئی منفی سرگرم نہیں تھی۔ یہ چیز ہمیں زیادہ پریشان کر رہی تھی کہ یہ ایک عام سا اسٹوڈنٹ ہے، شاید ہم غلط ٹپ پر کام کر رہے ہیں۔ اس لڑکے کے حوالے سے ہر اینگل سے تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ لڑکے نے ڈی جے کالج سے انٹر کرنے کے بعد دائود میں داخلہ لیا مگر اس دوران تین سال کا گیپ تھا اور لڑکے کا داخلہ بھی قواعد کے خلاف ہوا تھا۔ شاید ہم اس لڑکے کی فائل بند کر دیتے مگر یہ تین سال کا غائب ہونا ہمیں کھٹک رہا تھا۔ لڑکے کا باقی تمام ریکارڈ موجود تھا، بس کالج اور دائود کالج کے درمیان کا جو تین سال کا گیپ تھا وہ ہماری تحقیقات میں پورا نہیں ہو پارہا تھا۔ پھر بالآخر اسےگرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران لڑکے کی مسلسل مانیٹرنگ کی گئی مگر وہ کسی طرح کی منفی سرگرمی میں نظر نہ آیا۔ فون کالز بھی ریکارڈ کی گئی مگر کچھ نہ ملا۔ گرفتاری کے بعد جب بظاہر برگرٹائپ نظر آنے والے لڑکے سے تحقیقات آگے بڑھیں اور وہ مشکوک ہوا تو اس سے معلومات حاصل کرنےکے حربے استعمال کیے گئے کہ ایک بار ہمارے ’ماہرین‘ کو بھی دانتوں پسینہ آگیا۔

تحقیقات کے دوران اس نے انکشاف کیا کہ یہ کارروائی خصوصی تربیت یافتہ لڑکوں نے کی تھی۔ ایسے لڑکوں کی پوری ٹیم موجود ہے جو صرف لندن سیکرٹریٹ کے مخصوص افراد سے رابطے میں ہیں اور کراچی قیادت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ اس ٹیم کے افراد ایک دوسرے کو بھی نہیں جانتے۔ یہ لڑکے چھوٹے چھوٹے پیکٹس کی صورت میں کام کرتے ہیں اور ایک پیکٹ کا دوسرے پیکٹ سے رابطہ نہیں ہوتا۔ بہرحال اس لڑکے نے بتایا کہ انھیں خصوصی اہداف پر ہی کام کرنا ہوتا ہے، باقی کارروائیوں سے ان کا تعلق نہیں ہوتا۔ اس کی نشاندہی پر اس لڑکے کے پیکٹ کے دو مزید افراد گرفتار کیے گئے ہیں مگر ان کا سانحہ کراچی سے تعلق نہیں ہے۔ اور یہ لڑکا سانحہ ملوث ہونے کا اعتراف کر رہا ہے، مگر اسے دیگر لڑکوں کے حوالےسے علم نہیں ہے۔ ان لڑکوں کے ذمے ہائی پروفائل ٹارگٹس لگائے جاتے ہیں۔‘‘

[pullquote]تیسرا واقعہ
[/pullquote]

2015ء میں متحدہ قومی موومنٹ کے جنگجو کمانڈروں نے شہر میں اپنی نقل و حرکت چیک کرنے کی ایک ڈرل کی تھی۔ لندن میں الطاف حسین کی حراست کے معاملے پر اچانک احتجاج کی کال دی گئی اور ہر سیکٹر میں لڑکوں کو نکالنے کی ہدایت کی گئی۔ اس ڈرل کے حوالے سے انٹیلی جنس ایجنسیز کے اعداد و شمار کے مطابق 9 منٹ میں 7 ہزار مسلح لڑکے شہر کے مختلف اہم چوراہوں اور شاہراہوں پر نکلے تھے مگر کچھ دیر پر مبنی اس ڈرل کو ختم کردیا گیا تھا۔ ایک جانب تو متحدہ جنگجو اپنی پریکٹس کر رہے تھے اور دوسری جانب انٹیلی جنس ایجنسیز اعداد و شمار جمع کر رہیں تھیں۔
۔
دہشت گردوں کو کھلے میدانوں اور شہروں میں جنگ کی الگ الگ تربیت دی جاتی ہے۔ متحدہ جنگجو شہروں میں لڑائی اور خونریزی، اہم اہداف کو نشانے بنانا اور سرکاری املاک اور حساس تنصیبات کو ہدف بنانے کی خصوصی تربیت رکھتے ہیں۔ دیگر دہشت گردوں کے معاون بن کر سکیورٹی اداروں کے خلاف کارروائی میں مدد دینا، افرادی قوت کے بجائے صرف معلومات دیگر دہشت گردوں کو فراہم کرکے ان سے کارروائیاں کرانا (جس کی مثال متحدہ کے گرفتار دہشت گردوں کی جانب سے شیعہ اور سنی علماء کو شہید کرکے شیعہ سنی فساد کرانے کی صورت میں سامنے آچکی ہے)۔ یہ اس ان کی غیر ملکی تربیت کا نتیجہ ہے۔
۔
اب معاملہ یہ ہے کہ متحدہ جنگجو ابھی تک خاموش ہیں اور فائننل رائونڈ کی تیاری کررہی ہیں۔ یہ بات عسکری ادارے بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ الطاف حسین اپنی ملک مخالف تقریروں سے نفرت ابھارتے ہیں، پھر معافی مانگ کر عوام کو بتاتے ہیں کہ دیکھو یہ میری معافی بھی قبول نہیں کرتے، اور پھر اگلے دن ملک کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے۔ الطاف گرائونڈ تیار کر رہا ہے اور موجودہ صورتحال میں فاروق ستار کو کراچی میں سازگار ماحول فراہم کرنے کی ڈیوٹی دی گئی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو متحدہ کے دفتر گرنا، تصویریں اترنا اور خواتین کا گرفتار ہونا، متحدہ کی منصوبہ بندی کے مطابق بالکل درست سمت میں جارہا ہے۔
۔

میرے خیال میں متحدہ بڑی چالاکی سے آخری رائونڈ کی تیاری کر رہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے