ہزاروں ان سے قتل ہوئے ہیں۔

گلاب آنکھیں شراب آنکھیں۔
یہی تو ھیں لا جواب آنکھیں۔
انہی میں الفت انہی میں نفرت۔
ثواب آنکھیں ، عذاب آنکھیں۔
کبھی نظر میں بلا کی شوخی۔
کبھی سراپا حجاب آنکھیں۔
کبھی چھپاتی ھیں راز دل کے۔
کبھی ھیں دل کی کتاب آنکھیں۔
کسی نے دیکھیں تو جھیل جیسی۔
کسی نے پائیں سراب آنکھیں۔
وہ آئے تو لوگ مجھ سے بولے۔
حضور آنکھیں ، جناب آنکھیں۔
عجیب تھا گفتگو کا عالم۔
سوال کوئی ، جواب آنکھیں۔
یہ مست مست بے مثال آنکھیں۔
نشے سے ھر دم نڈھال آنکھیں۔
اٹھیں تو ہوش و ھواس چھینیں
گریں تو کر دیں ، کمال آنکھیں۔
کوئی ھے ان کے کرم کا طالب۔
کسی کا شوقِ وصال آنکھیں۔
نہ یوں جلائیں نہ یوں ستائیں۔
کریں تو کچھ یہ خیال آنکھیں۔
ھے جینے کا اک بہانہ یارو۔
یہ روح پرور ، جمال آنکھیں۔
دراز پلکیں وصال آنکھیں۔
مصوری کا کمال آنکھیں۔
شراب رب نے حرام کر دی۔
مگر کیوں رکھی حلال آنکھیں۔؟
ہزاروں ان سے قتل ھوئے ھیں۔
خدا کے بندے ، سنبھال آنکھیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے