ڈانس کہانی: رقص کے موضوع پر پاکستانی فلم

ڈانس کہانی پاکستان کی پہلی فلم ہے جو رقص کے موضوع پر بنائی گئی ہے اور جس میں کراچی کے انڈر گراؤنڈ اور سٹریٹ ہپ ہاپ ڈانس کلچر متعارف کروایا گیا ہے۔

ڈانس کہانی کے مصنف اورہدایت کار عمر حسن ہیں جن کی یہ پہلی فیچر فلم ہے جبکہ سکرین پلے شبیر سراج کا ہے۔ اس فلم کو ایکٹ ون ۹۹ فلمز ، اوسکو فلمز اور آیون انٹرٹینمنٹ کے اشتراک سے بنایا گیا۔ فلم کے دسٹری بیوٹرز سمٹ انٹرٹینمنٹ ہیں۔

اردو اور انگریزی زبانوں میں بنائی گئی اس فلم کے اہم اداکاروں میں سکاٹ لینڈ کی اداکارہ اور ڈانسر میڈیلن ہانا، علمدار خان اور ورنن یو چونگ شامل ہیں۔

13445646_1738768563067020_9106331598114323457_n

فلم کی کہانی ایک ایسی لڑکی نزہت یا نزی (میڈیلین ) کے گرد گھومتی ہے جس کے والدین برطانیہ سے اس لیے واپس آجاتے ہیں کیونکہ ان کو اپنی بیٹی کی شادی ایک پاکستانی لڑکے سے کرانی ہے اور اس طرح نزی کا ایک پروفیشنل بیلے ڈانسر بننے کا خواب ادھورا رہ جاتا ہے۔ لیکن نزی

پاکستان آکر بھی اپنے خوابوں سے پیچھا نہیں چھڑا پاتی اور والدین اور رشتہ داروں کی شدید مخالفت کے باوجود پاکستان میں بھی ڈانس کی تربیت حاصل کرنے کی کوشش شروع کردیتی ہے۔ اس ہی دوران اس کی ملاقات کراچی کے ایک سٹریٹ ڈانسر ٹیپو ( ورنن یو چونگ ) سے ہوجاتی ہے جو اس کے ساتھ ایک ہپ ہاپ ڈانس گروپ بنانے کا ارادہ کرتا ہے اپنے دیگر ساتھیوں سے ملواتا ہے جو مختلف پیشوں سے منسلک ہیں اور رات کو اپنا شوق پورا کرنے کے لیے سڑکوں اور مختلف مقامات پر ڈانس دکھاتے ہیں۔ اس طرح ان اکا یک چھوٹاسا ڈانس گروپ بن جاتا ہے جو آگے چل کر مقابلوں میں بھی حصہ لیتا ہے۔ نزی کو ایک پاکستانی لڑکے شوبی (عملدار خان) سے محبت بھی ہوجاتی ہے جو ایک بزنس مین ہے اور نزی کے شوق میں اس کا پورا ساتھ دیتا ہے۔

Dance-Kahani-2nd-poster-crop

گو کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فلم رقص کے موضوع پر ہی بنائی گئی ہے جس میں دوستی اور محبت جیسے انسانی جذبوں کو بھی ابھار اگیا ہے لیکن کہیں کچھ تشنگی رہ گئی ہے مثلا فلم کا مرکزی کردار جو کہ ایک بیلے ڈانسر ہے اسے بہت کم ڈانس کرتے دکھایا گیا ہے اور اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کیونکہ وہ ہپ ہاپ ڈانس کو فروغ دے رہی ہے اس لیے اس کے بیلے ڈانس کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کی اگر فلم ہپ ہاپ ڈانس کے موضوع پرتھی تو ہیروئن کو بیلے ڈانسر دکھانے کی کیا ضرورت تھی۔ فلم کے آخری بیس منٹوں میں ایک بیلے ڈانس دکھایا گیا ہے جوکوئی خاص تاثر نہ چھوڑ سکا البتہ ہپ ہاپ ڈانسرز نے بہت جم کر ڈانس کیا ہے۔

تمام اداکاروں نے کرداروں کے حساب سے مناسب ادکاری کی لیکن دیگر پاکستانی فلموں کی طرح ڈائلاگ کمزور تھے۔ اور بار بار اردو اور انگریزی کے آنے جانے سے لوگ جھنجلاہٹ کا شکار نظر آئے۔

فلم میں کل تیرہ گانے شامل ہیں جو بھنگڑا سے لے کر ریپ اور راک دھنوں پر مشتمل ہیں۔ جبکہ فلم کا ساؤنڈ ٹریک عثمان بن سہیل نے ترتیب دیا ہے۔

565039f48ef6b

فلم کے ہدایت کار عمر حسن کا کہنا ہے کہ ان کا یہ فلم بنانے کا مقصد لوگوں (خاص طور پر وہ لوگ جن کے پاس مواقع کم ہوتے ہیں) کو اپنے خوابوں کو زندہ کرنے اور انہیں حقیقت کا رنگ دینے کا جزبہ پیدا کرنا ہے۔ لیکن فلم کی زبان زیادہ تر انگریزی ہونےاور سینما کے مہنگے ٹکٹ کی وجہ سے ڈانس کہانی شائقین کی بہت زیادہ دلچسپی اور توجہ حاصل نہ کرسکی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے