انوکھا خواب۔۔۔۔

یہ سچ ہے۔۔۔۔۔ یہ سچ ہے۔۔۔۔۔۔ یہ سچ ہے۔۔۔۔۔۔!۔
اسے غلط نہ سمجھنا !!!!۔

اسے غلط تصور کر کہ نظرانداز کرنے والے اور من گھڑے کہنے والوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔۔۔۔۔۔ کسی کو کاروبار میں نقصان ہوا !!!۔ تو کسی کی کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں اور کسی کے مویشیوں کو جنگل میں شیر کھا گیا۔۔۔۔۔۔!!!!۔

ممتاز خیال کا یہ خواب اس سعودی شیخ کے خواب سے بالکل مختلف طرز کا ہے۔ جس سعودی شیخ کے خوابوں نے نوے کی دہائی میں ہلچل مچا رکھی تھی۔ اور ہر کوئی طالب علم گھر والوں سے پیسے لا کر اس خواب نامے کی فوٹو کاپیاں کرواتا اور پھر باقی سکول کے لڑکوں میں وہ کاپیاں بانٹتا۔ فوٹو کاپیاں گیارہ، تینتیس اور نناوے کی تعداد میں کی جاتیں۔۔۔۔۔!!!۔
پر انشااللہ میرے اس خواب کی کاپیاں ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوں گی۔۔۔۔۔۔۔!!!۔

کل رات کی بات ہے کہ میں سو رہا تھا اور سوتے سوتے خواب میں لندن چلا گیا۔ کچھ پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی اور میرے ایک نہایت ہی اچھے دوست "ارشد گجر” سے بھی ملاقات لندن میں ہوگئی۔ ان کی فرمائش پر کہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین سے ملنے اس کی رہائش گاہ چلتے ہیں انھوں نے اس بابت وہاں ایم کیو ایم کے ایجوئر روڈ دفتر پہلے سے اپنی چند دوستوں کے ہمراہ اپائنٹمنٹ لے رکھی تھی۔۔۔۔۔۔

ہم تین دوست جب وہاں پہنچے تو وہاں گیٹ سے ملحقہ ایک آفس میں ہمیں بیٹھنے کو کہا۔ اور اس شخص نے انٹرکوم پر کسی سے ہمارے متعلق بات کی۔ کوئی آدھا گھنٹہ ہی گزرا ہوگا کہ ایک شخص نے ہمیں کہا کہ چلو "بھائی” اب آپ کا ہی انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔۔

جب ہم لوگ کمرے میں داخل ہوئے تو "بھائی” ایک گھومنے والی کرسی پر کالا چشمہ لگائے کسی سے فون پر بات کر رہے تھے۔۔۔۔۔ ان کے اشارے سے ہمیں بیٹھنے کی اجازت مل گئی۔۔۔۔۔ یہاں قارئین کو پھر بتاتا چلوں کہ "یہ خواب ہے۔۔۔۔۔خواب ہے۔۔۔۔۔۔ خواب ہے۔۔۔۔۔”۔ تعارف شروع ہوا تو میری باری جب آئی تو میں نے کہا کہ میں دو اخبارات کے لئے یورپ سے نمائندگی کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔ جس پر "بھائی” نے سیدھے سیدھے پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا کو پاکستان کے اندر بد امنی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ

۔”چڑھ گئی نا میڈیا کی بھینٹ قندیل بلوچ”۔۔۔۔۔۔

اس کی ہر ادا کو پرائیویٹ ٹی وی چینلز والے کیسے چیخ چیخ کر آگ کے الاؤ پر رکھتے تھے۔۔۔۔۔!!!!!۔

اس کی شوخ اداؤں سے گھائل "مولوی قوی” ہوا جس نے اس کے ساتھ سیلفیاں بنا کر اپنی ملازمت ہر خود لات ماری۔۔۔۔۔ اور ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھا۔۔۔۔۔۔

اور نتیجہ کیا نکلا۔۔۔۔۔ قندیل ہم میں نہ رہی۔۔۔۔۔۔!!!۔
اس کو مروانے میں سستی شہرت کے حامل ٹی وی چینلز کا بڑا کردار ہے۔۔۔۔۔۔

اب دیکھو میڈیا کو کہ فاروق ستار کو رینجرز کے جس اہلکار نے پکڑا اور گاڑی کی طرف دھکیلا۔۔۔۔۔ "ٹھاکر” کا نام بھی اب ٹی وی چینلز والے چیخ چیخ کر لے رہے ہیں۔۔۔۔ اسے بھی قندیل بلوچ بنا کر رہے گا یہ میڈیا۔۔۔۔۔ !!!!۔

ٹھاکر نے جو کیا وہ اوپر سے ملنے والے حکم پر کیا۔۔۔۔۔

پاکستان میں اگر کوئی محفوظ نہیں ہے تو میڈیا کی غیر ضروری تمہید کی بدولت۔۔۔۔۔۔
اب میڈیا والوں نے ٹھاکر کا شجرہ نسب کھول کر رکھ دیا ہے۔۔۔۔۔

یہ میڈیا اور سوشل میڈیا والوں نے ناک میں دم کر کہ رکھا ہوا ہے۔۔۔۔۔ کراچی میں آج جو کوئی بھی طبعی موت مرتا ہےتو بھی ایم کیو ایم پر الزام۔۔۔۔۔۔ کھارے پانی کی وجہ سےہلاکتوں میں اضافہ پر بھی ایم کیو ایم نامزد ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔

خیر "بھائی” سے مزید بات چیت ہوتی رہی تو اس دوران وہ ہمیں ایک اور کمرے میں لے گیا۔ مگر اس کمرے تک جانے کے لئے خواب میں دو گھنٹے کا سفر طے کرنا پڑا۔۔۔۔۔۔!!!۔
حیران کن بات تھی کہ الطاف حسین کا یہ کمرہ ایران کے دارالحکومت تہران میں واقع تھا۔۔۔۔۔۔۔ یہاں بھی ہم نے خوب بات چیت کی اور میں نے بطور صحافی ان سے پاکستان آنے کا پوچھا کہ آپ کا اپنا ملک ہے۔۔۔۔۔ آؤ نا کبھی وہاں بھی۔۔۔۔۔شہری ہو وہاں کے۔۔۔۔۔۔

اب ہم پاکستان کے پڑوس میں آئے ہوئے ہیں۔۔۔۔ ہم نے بھی کافی وقت ہوگیا پاکستان نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔!!!۔

الطاف حسین نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "برخوردار سنو”

!!!
پاکستان میں ایک ہفتے کے لئے آؤں گا۔۔۔۔ مگر میرے رہنے سہنے کا بندوبست۔۔۔۔میرے پاکستان کے دوسرے شہروں کے دورے۔۔۔۔۔میری سکیورٹی۔۔۔۔۔سب آپ کے سپرد۔۔۔۔۔۔میری واپسی لندن تک کی ٹکٹ بھی آپ کے ذمے ہے۔۔۔۔۔!!!۔

کہو منظور ہے ؟؟؟

یہ بہت بڑی ذمہ داری ڈال دی سرکار آپ نے۔۔۔۔۔ بہت مشکل میں پھنسا دیا ہے۔۔۔۔۔میں اسی کبھی ہاں کبھی نہ کی کشمکش میں تھا کہ میرا سر بیڈ کےسرہانے سے زور سے ٹکرایا اور میں جاگ اٹھا۔۔۔۔۔

اب اٹھ کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ الطاف حسین ہی کیونکر میرے خواب میں آیا۔۔۔۔۔؟؟؟؟
اب میں دیکھے ہوئے خواب کو بیٹھ کر دوہرانے لگا تو مجھے خواب کے آخری حصے کی کڑی طاہر القادری سے ملتی دیکھائی دی۔۔۔۔اس نے بھی سالوں پہلے حضور کی میزبانی کی دعوت رو رو کر قبول کی تھی۔۔۔۔۔ اور کھانے پینے کے علاوہ پاکستان میں سفری سہولیات کے ساتھ ساتھ مدینہ واپسی کی سعودی ائیر لائن کی ٹکٹ کا بندوبست بھی کیا تھا۔۔۔۔
ادھر خواب میں میں بھی رو رہا تھا کہ یہ سارے انتظامات اور میں۔۔۔۔؟ اور ساتھ ساتھ خوش بھی تھا کہ مجھے پےمنٹ صرف وہاں سے یہاں آنے والی فلائیٹ کی کرنی پڑے گی۔۔۔۔۔اور واپسی کی ٹکٹ واپس کروا لوں گا ۔ میں بس ایک بار آ تو جائے پاکستان اس کو جانے کون دے گا واپسی؟؟؟؟؟؟

رات کے تین کا وقت تھا۔۔۔۔کچن میں گیا فریج سے ٹھنڈے دودھ کا گلاس پی کر ذرا سا سکون ملا۔۔۔۔۔۔!!!!۔

تھا تو خواب ہی پر سیانے کہتے ہیں کہ کبھی کبھی برے آدمی سے بھی اچھی بات مل جاتی ہے۔۔۔۔ اور جو بات میں نے اس خواب میں الطاف حسین سے نوٹس کی، وہ ہے ہماری الیکٹرونک میڈیا کی پھرتیاں۔۔۔۔

خواب تو کبھی کبھی حقیقت کے قریب تر ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ اور خواب کبھی کبھار پورے بھی ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔

مگر سپنے ادھورے ہی رہ جاتے ہیں۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے