پی ٹی آئی مردان اندرونی اختلافات کم کرنے میں سرگرم

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی عبید اللہ مایار کی جانب سے گزشتہ روز مردان کے علاقے مایار میں سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا گیا، جس میں سابق صوبائی جنرل سیکرٹری خالد مسعود ونعیمہ ناز نے شرکت کی، ذرائع کے مطابق مقامی سطح پر یہ کامیاب جلسہ رہا جس میں کم و بیش پانچ ہزار کارکنان نے شرکت کی، جلسہ عام سے قبل اعلانات کئے گئے تھے کہ جلسے میں صوبائی وزیر تعلیم عاطف خان، ایم این اے مجاہد خان، ایم این اے علی محمد خان سمیت پارٹی کے دیگر قائدین خطاب کریں گے، تاہم جلسہ عام میں عاطف خان گروپ کے کسی رہنما نے شرکت نہ کرکے جلسہ کی انتظامیہ و کارکنان کو حیران کردیا…

جلسے کے بعد مردان میں تحریک انصاف میں اندرونی اختلافات کی خبریں ایک مرتبہ پھر منظرعام پر آنے لگیں، مذکورہ جلسہ عام کے منتظم اعلیٰ عبید اللہ مایار انٹرا پارٹی انتخابات میں بھی اپنی نرالی حکمت عملی کے باعث توجہ کا مرکز رہے ہیں، ایم پی اے عبید مایار کبھی نوابزدہ عمرفاروق گروپ کی حمایت میں تقرریں کرتے اور عاطف خان گروپ کو للکارتے تھے تو کبھی عاطف خان کو اپنا قائد ’’مشر‘‘ مانتے ہوئے افتخار مشوانی کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے، تاہم تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات ملتوی کئے جانے کے بعد صورت تحال نے نیا رُخ اختیار کیا، انٹرا پارٹی انتخابات میں تحریک انصاف ضلع مردان میں تین دھڑے سامنے آئے تھے، ایک گروپ کی قیادت نوابزادہ عمر فاروق ہوتی کررہے تھے جو کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے، دوسرے گروپ کی قیادت وزیر تعلیم عاطف خان کررہے تھے جبکہ صدارت کے امیدوار ایم پی اے افتخار مشوانی تھے، جبکہ تیسرا گروپ تحصیل تخت بھائی کی حد تک ندیم شاہ کی قیادت میں متحرک دیکھائی دیا تھا،ضلع مردان کی صدارت کیلئے نوابزادہ عمرفاروق کی پوزیشن افتخار مشوانی کے مقابلے میں ذیادہ مستحکم دیکھائی دے رہی تھی…

منتخب نمائندوں سے نا راض تمام مقامی رہنماؤں عمرفاروق ہوتی کی حمایت کرتے دیکھائی دے رہے تھے، کپتان کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو عاطف خان اور انکے ساتھیوں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور روٹھے ہوئے پارٹی رہنماؤں و کارکنان کو منانے کا سلسلہ شروع کیا،پارٹی کے مقامی رہنماؤں کو ناراض منتخب بلدیاتی نمائندوں اور سابق پارٹی عہدیداروں سے رابطے تیز کرنے کی ہدایت کی گئی،ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں عمرفاروق ہوتی سے بھی ملاقاتیں کی گئیں اور عاطف خان گروپ انہیں بھی اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب دیکھائی دیتا ہے،ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ عاطف خان گروپ کی جانب سے عمرفاروق ہوتی کو آئندہ عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے،اسی طرح ایم پی اے زاہد درانی کو بھی کچھ لے دے کر اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے ہیں، عاطف خان گروپ کے ایم پی اے طفیل انجمبھی دوبارہ متحرک دیکھائی دینے لگے ہیں اور آئندہ انتخابات کیلئے اپنے حلقے کے سابق پارٹی عہدیداران کی منت سماجت کرکے انہیں اپنے ساتھ منانے کی کوششوں میں مصروف ہیں…

تیسرا گروپ جو صرف تحصیل تخت بھائی کی حد تک متحرک تھا کے سرکردہ رہنما ندیم شاہ سے بھی افتخار مشوانی ، انجنیئر عادل نواز و دیگر نے ملاقات کی ہے اور انکے تحفظات بھی دور کرنے کی توقع ہے، تمام تر صورت حال میں ایم پی اے عبید مایار اکیلے رہ گئے یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنی سیاسی قوت کا احساس دلانے کیلئے جلسہ عام کا انعقاد کرنا پڑا، جلسہ عام میں شرکت کے حوالے سے اعلانات کئے گئے تھے کہ وزیر تعلیم عاطف خان، ایم این اے علی محمد خان، مجاہد خان ودیگر اس جلسہ عام سے خطاب کریں گے تاہم عاطف خان گروپ کے کسی رہنما نے اس جلسے میں شرکت نہیں کی، ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ عاطف خان اس روز مردان میں ہی مقیم تھے اس کے باوجود انہوں نے اس جلسے میں شرکت نہیں کی اور موقف اختیار کیا کہ انہیں جلسے میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی، اسی طرح عاطف خان گروپ کے سرکردہ رہنما و ایم پی اے افتخار مشوانی بھی اس روز مردان میں تھے انہوں نے بھی اس جلسے میں شرکت کرنا ضروری نہیں سمجھا، ذرائع کے مطابق عبیدمایار کے اس جلسے کا مقصد صرف اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرکے اپنی موجودگی کا احساس دلانا تھا جس میں وہ کامیاب رہے ، تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا عاطف خان اور انکے ساتھی عبید اللہ مایار کی سیاست قوت کے اس مظاہرے سے متاثر ہوکر اپنے ساتھ ملاتے ہیں یا نہیں،یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ کیا پارٹی کے ناراض کارکنان اپنی منتخب نمائندوں کی جانب سے تین سال نظر انداز کرنے کے باوجود انہیں دوبارہ تسلیم کرنے کو تیار ہوتے ہیں یا نہیں،الیکشن قریب آتے ہی اپنے ناراض کارکنان کو منانے کا یہ طریقہ پاکستان کی سیاست میں نیا نہیں تاہم یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ تحریک انصاف کے کارکنان انہی آزمائے ہوئے نمائندوں کو دوبارہ آزماتی ہے یا پھر پیپلز پارٹی اور اے این پی کی طرح انہیں مسترد کرکے نئی قیادت کا انتخاب کریں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے