کشمیر پاسپورٹ اور اقوام متحدہ

سعید الرشید اعوان سے شناسائی کوئی آٹھ برسوں پر محیط ہے۔سعید ا عوان میری طرح جنگ بندی لائن سے ملحقہ اس حصے سے تعلق رکھتاہیں جہاں1990ء کے بعد دو روایتی حریف ممالک کی افواج کی لڑائی میں عوام سے بڑی جانی ،مالی و معاشرتی قربانی لی گئی ۔ گزشتہ دو برس سے موصوف سعودی عرب میں روزگار کے سلسلہ میں مقیم ہیں۔

آج سے دو ہفتے قبل انھوں نے مجھ سے رابطہ کر کے کہا کہ پوری دنیا سمیت برادر اسلامی ملک سعودی عرب میں بھی پاکستان کو بری نظر سے دیکھا جاتاہے اور ہمیں بارباریہ وضاحت دنیا پڑتی ہے کہ ہم کشمیری ہیں۔ سعودی باشندوں کے علاوہ دنیا بھر سے روز گار کے لیے سعودی عرب آئے مزدوروں کو صفائیاں پیش کر کے تھک چکا ہوں اور اب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنر ل بان کی مون کو درخواست بھیج رہا ہوں کے وہ بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو خصوصی پاسپورٹ جاری کریں۔

سعید الرشید نے درخواست بانکی مون کو ای میل کرنے کے بعد اس کا سکرین شوٹ مجھے بھی ارسال کیا ۔اس کے بعد دو ہفتے تک ہمارا رابطہ منقطع رہا ۔گزشتہ روز جب دوبارہ رابطہ ہوا تو میں نے بان کی مون کو بھیجی گئی درخواست کی بابت معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ درخواست بھیجنے کے دو دن بعد اقوام متحدہ کے ایچ آر دیپارٹمنٹ فارہیومن رائٹس سے کیتھرا ئن نامی خاتون نے کال کی اور مجھ سے میرا مسئلہ دریافت کیا۔ جب اسے اپنا مدعا بیان کیا تو اس نے صرف نیک خواہشات کا اظہار کر کے رابطہ منقطع کر لیا۔ 80کی دہائی کے بعد جب سے پاکستان نے جہاد کے سویلین ٹھیکے اور پرائیوٹ بروکر کی ذریعے جنت کے ٹکٹ جاری کرنے کا عمل شروع کیا تب سے ملک کی ساکھ دنیا بھر میں تباہ ہونے لگی ۔نائن الیون کے بعد یہ صورتحال انتہاءکو پہنچی جو ابھی تک برقرارہے ۔خود پاکستان کے شہری پاکستانی پاسپورٹ کے بجائے برطانیہ ،کنیڈا ،امریکہ سمیت دیگر پورپی ممالک کے پاسپورٹ کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ایسے میں کشمیری عوام جو کہ فطرتی طور پر امن قوم ہے اس بدنام زمانہ پاسپورٹ کو کیسے قبول کرئے گی۔
اگرچہ اقوام متحدہ نے پاکستان اور بھارت کو اس بات کا پابند ہوا ہے کہ وہ اپنے زیر انتظام کشمیر کے شہریوں کو سفری دستاویزات فراہم کریں مگر بدلتے عالمی حالات نے اس منظر نامے کو تبدیل کر دیاہے۔اقوام متحدہ کشمیر میں اب تک استصواب رائے کی اپنی قرادادوں پر عمل درآمد تو نہیں کراسکا مگر اسے کشمیر میں عوامی حقوق کی بحالی ،قیام امن اور شہریوں کی خوشحالی کے لے چند ضروری اقدامات کرنا ہونگے ۔
اقوام متحدہ پاکستان اور بھارت کو اس بات کا پابند بنائے کہ دونوں ملک اپنے خانگی معاملات کی جنگ کسی بھی صورت کشمیر کے میدان میں نہ لڑیں ۔یا یوں کہا جائے کہ کشمیر کو فری وار زون بنایا جائے. دوطرفہ فوجوں کی تعداد کم کی جائے .انسانی حقوق کی دو طرفہ پامالیوں کو روکا جائے۔ کشمیر یوںکیلئے الگ سے پاسپورٹ کا اجرا کر کے انہیں دنیا میں شناخت اور پہچان دی جائے ۔اقوام متحدہ کے ان چھوٹے چھوٹے اقدامات سے 70سال سے جنگ کی حالت میں مبتلا کشمیریوں کو سنبھلنے کا موقع ملے گا اور عالمی ادارے پر ان کا اتحاد بھی بحال ہو گا ۔
کشمیر ی عوام کو بھی چاہیے کہ و ہ اپنے کسی بھی مسئلہ کے حل کیلئے براہ راست اقوام متحدہ سے رجوع کریں ۔موجودہ دور انٹرنیٹ کا دور ہے ۔دنیا حقیقی معنوں میں گلوبل ویلج بن چکی ہے یواین او کی ویب سائیٹ پر سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ سمیت تمام اعلیٰ حکام سے رابطے کے لیے ای میل اور ٹیلی فون نمبر موجود ہیں ۔اپنی درخواست لکھ کر ای میل کرنازیادہ آسان ہے۔ جب تک زیادہ سے زیادہ شہری اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع نہیں کریں گے تب تک اقوام متحدہ کی دلچسپی کشمیر ایشو میں ماضی کی طرح واجبی ہی رہے گی۔ کشمیر کے ہر پڑھے لکھے شہری کا فرض ہے کہ وہ اپنے علاقے ،اپنے وطن کے چھوٹے چھوٹے مسائل کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کرئے ایسے اقدام سے مسئلہ کشمیر حل ہونے کے مواقع بڑھ سکتے ہیں ۔یہ کام آج ہی کرنے کا ہے اور آج کا کام کل پر مت چھوڑیے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے