عربوں کا افغانستان

جاوید ہاشمی کے بقول ضیا ء الحق نے پا نی کا چُلو بھر ا اور کہاروس ان پانیوں پرقبضہ کر نا چاہتاہے لیکن کبھی اس مقصد میں کا میاب نہیں ہو گادنیا بھر کے اسلامی ممالک کی مخالفت کے باوجود افغانستان میں سویت یونین کی مدا خلت عروج پرپہنچ گئی پورے عالم سے مجاہدین پاکستان اور افغا نستان میں جمع ہونے لگے سعودی عرب اور امریکہ سمیت بہت سے اہم ممالک نے مجاہدین کے لئے سر مائے کے دروازے کھول دیے خطے کی صورتحال کروٹ لے رہی تھی لیکن ضیاء الحق بد لتے حالات کو سمجھ نہ پائے پاکستان اس حقیقت سے بخو بی واقف تھا کہ سویت یونین کی جنگ کا مقصد افغانستان کے پہاڑ نہیں بلکہ پاکستان کے گرم پانی ہیں دوسری طرف امریکہ افغانستان میں کامیابی کی صورت میں سویت یو نین کا مستقبل بھانپ چکا تھا‘ روس اور امریکہ میں سرد جنگ کے باعث انکل سام نے براہ راست اس جنگ میں کودنے کے بجائے بیک ڈور پالیسی اپنائی‘ پاکستان نے وافر مقدار میں افرادی قوت فراہم کی تو سعودی عرب اور امریکہ نے سرمایہ اور اسلحہ کی فراہمی میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی ۔

پاکستان نے افغانستان میں براہ راست مدا خلت کر کے روس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اوربالا آخر روس کو افغانستان سے شکست فاش کے بعد نکلنا پڑا ۔پاکستان اور اس کے تمام اتحادیوں نے روس کی شکست کو اپنی فتح جانتے ہو ئے واپسی کا سفر باندھنا شروع کر دیا ان ممالک نے واپسی سے قبل ’’مجاہدین‘‘اورافغانستان کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارہ نہ کی اور اس کانتیجہ ایک تباہ کن افغانستان کی صورت میں سامنے آیاوہ اسلحہ جو روس کے خلاف استعمال ہوتا تھا وہ طالبان نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال کر نا شروع کر دیا ‘پوست کی کاشت بڑھ گئی اور اسلحہ عام ہوگیا ‘عام آدمی کے جان و مال غیر محفوظ ہو گئے ‘مہاجرین کا ایک طوفان پاکستان میں امڈ آیاآج تین عشرے سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود یہ مہاجرین پاکستان کو اپنی تباہی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں آج تک پاکستان اس کی قیمت جھکا رہا ہے آج افغانستان سے طالبان آتے ہیں اور پاکستان میں تخریب کاری کے بعد واپس افغانستان چلے جاتے ہیں ایک لمبے عرصے سے افغانستان انڈیا کا آلہ کار بنا ہے اور پاکستان کے خلاف زہر اگل رہا ہے انڈیا اور امریکہ افغانیوں کوپاکستان کے خلاف استعمال کر تے ہیں اوراہل افغان فخر سے پاکستان مخالف سر گر میوں کا حصہ بنتے ہیں ‘افغان جنگ میں پاکستان کے اتحادی اپنے مقاصد کے حصول میں کامیابی کے بعد واپس لو ٹ گئے لیکن پاکستان آج تک افغا نیوں کے سامنے اپنی صفا ئیاں پیش کر رہا ہے پاکستان کو آج بھی افغانستان کی طرف سے پراکسی وار کا سامنا ہے ۔

بدلتے حالات نے اسلام دشمنوں کو امت مسلمہ میں انتشار پھیلانے کے طریقہ کار میں تبدیلی کے لئے مجبور کر دیا خصوصاََ افغان جنگ میں ناکامی کے بعد امریکہ اپنی سر زمین میں رہ کر امت مسلمہ میں اختلافات پیدا کر نے کی پالیسی پر کاربند ہے کوئی با شعور اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہیمن جنگ میں امریکہ کا کچھ نہ کچھ کردار ضرور ہے ‘سعودی عرب اتحادیوں کی شے پر حو ثی باغی جنہیں خطے کے شیطان ترین ملک ایران سمیت اسلام مخالف قو توں کی بھر پور ایما حاصل ہے کے خلاف اس جنگ میں کود تو پڑا ایک طالبعلم کی حیثیت سے میں اس معاملے میں( خدا کر ے میرا اندازہ غلط ہو )سعودی عرب کا مستقبل بھی پاکستان جیسا دیکھ رہا ہوںیمن بارڈر سے ملحقہ سعودی عرب کے شہر جازان کو قریب سے دیکھنے کہ بعد اور کچھ متاثرہ یمنی شہریوں سے بات چیت کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یمن کا علاقہ بھی افغانستان سے متشبہ ہے اور طالبان کی طرح حو ثی قبائل بھی گوریلا جنگ کے ماہرہیں ‘نیٹو فورسز بھر پور جدو جہد کے باوجود افغان جنگ میں کامیاب نہ ہو سکیں ایسی صورت میں سعودی عرب کی افغانستان میں کامیابی ایک گہرا سوالیہ نشان ہے سعودی عرب کے پاس نہ تو وہ افرادی قوت ہے جو جان جھوکوں میں ڈال کر دوسرے ممالک میں کود پڑے اور نہ ہی وہ ٹیکنالوجی جو جو دوسرے ممالک کو انکی سر زمین پر شکست دینے کیلئے درکار ہو تی ہے۔

اس جنگ کے آغاز کے بعدایک طرف تو سعو دی معیشت تنزلی کی طرف رواں دواں ہے تو دوسری طرف یمن سے ملحقہ علاقوں میں بد امنی بھی بڑھ رہی ہے خود کش دھماکے تو ایک طرف سرحد پار حملوں سے(جو میڈیاسے اوجھل ہیں ) سعودی عرب کے فوجی اورشہریوں کی بڑی تعداد جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے ‘ یمن جنگ میں مدا خلت کے بعد سعودی عرب کا مستقبل بھی یمن سے مشروط ہو چکا‘بالفرض سعودی عرب حوثی باغیوں کو پسپا کر نے کے بعد یمن میں فتح کے جھنڈے گاڑنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو مستقبل کے آئینے میں یمن کی صورتحال تسلی بخش دکھائی نہیں دیتی ‘ آباد سڑکیں اب کھنڈرات بن گئیں‘لوگوں کے کاروبار تباہ ہوگئے ‘صدیوں سے آباد دیہات ماضی کا حصہ بن چکے ‘سعودی عرب کیی جانب سے شادی حال اور ہسپتالوں پر حملوں کے دوران بے گناہوں کی موت بھی تشویشناک ہے ‘اگر سعودی عرب نے حوثی باغیوں کی پسپائی کو اپنی فتح سمجھتے ہوئے واپسیکا سفر باندھ بھی لیا تو عربوں کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے جس صورتحال سے آج پاکستا نی گزر رہے ہیں۔

اب تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہو تا ہے کہ کل جس جنگ کو معمولی سمجھ کر عرب اس کا حصہ بنے تھے آج وہی جنگ انکے گلے کی ہڈی بن چکی ہے ‘ یمن سے اُٹھنے والے طوفان کی صورت میں سعودی عرب میں مقیم ایک کروڑ کے قریب غیر ملکی جن کیساتھ اچھوتوں سے بدتر سلوک کیا جاتا ہے جو بنیادی انسانی حقو ق سے بھی محروم ہیں کا کردار بھی بہت اہم ہو جائے گا‘یہ ایک قبائلی معاشرہ ہے سطحی قبائلی معاشرہ غلطی کے ارتکاب کے بعد جنہیں غلطی کا احساس ہوتا ہے کم و بیش ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرنے کے بعدباشعور عرب شہری جن کی تعداد بہت کم ہے یہ جان چکے کہ پرائی جنگ میں مداخلت ان کی غلطی تھی کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ حوثی سعودی عرب کیلئے خطرہ تھے یہ الفاظ سن کر مجھے مشرف کی یاد آتی ہے جب انہوں نے طلبہ کو خود کیلئے خطرہ گردانتے ہوئے لال مسجد پر حملہ کیا تھا لکھنے کو اور بھی بہت کچھ ہے ایک جنگ نہیں ناجانے کتنی ہی کوتاہیاں جنہوں نے سعودی عرب کو اس دوراہے پر لاکھڑا کیا سپر د قلم اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ جہاں میں بیٹھا ہوں یہاں اظہار رائے کی آزادی نہیں مختصر یہ کہ عرب اگر اس جنگ میں سر خرو ہو نا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ایک ایک قدم چھو کر رکھا جائے بصورت دیگر عر بوں اپنے ہی پیدا کردہ طوفان کا راستہ روکنا مشکل ہو جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے