کچھ عمران خان کے دفاع میں

عمران خان پاکستانی سیاسی منظرنامے کا ایک منفرد کردار ہیں۔ ان پر تنقید بے پناہ ہوتی ہے اور خان سے محبت کرنے والے بھی کم نہیں۔ مجھے اکثر یہ لگتا ہے کہ ہم پاکستانی اپنے رد عمل میں شدت اختیار کرتے ہیں۔ محبت بھی شدید اور ناپسندیدگی بھی انتہا کی حد تک۔ اعتدال شاید ہمیں پسند نہیں یا پھر اس سے ہماری ہیجان زدہ طبیعت کواطمینان نہیں مل پاتا۔ عمران خان کے حامی انہیں ہر معاملے میں کلین چٹ دے کر ان کے بعض غیر ذمہ دارانہ بیانات کا بھی دفاع کرتے ہیں؛ حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ سیاسی لیڈر اور روحانی مرشد میں فرق ہوتا ہے۔

سیاست میں ہم لوگ کسی خاص لیڈر یا جماعت کو اپنا ووٹ دیتے ہیں، اس کے ہاتھ پر بیعت نہیں کر لیتے۔ قارئین جانتے ہیں کہ اس اخبار نویس کو عمران خان کی کئی پالیسیوں سے اختلاف بلکہ بعض سے سخت اختلاف رہا ہے۔ انہی کالموں میں کھل کر ان ایشوز پر نکتہ چینی کی گئی۔ دو سال پہلے دھرنے کے دنوں میں واضح طور پر لکھا تھا کہ عمران خان کی یہ پالیسی غلط ہے۔ دھرنوں یا عوامی احتجاج کے ذریعے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش خطرناک اور بالکل غلط ہے۔ اپنی جماعت کی تنظیم نو میں غفلت اور جنوبی پنجاب، کراچی اور اندرون سندھ نہ جانے پر بھی تنقید کرتا رہا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ میرے جیسے عمران پر تنقید کرنے والے لوگ بھی جب عمران پر مختلف حلقوں کی جانب سے بے رحمانہ حملے دیکھتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ اس بلاجواز، تعصب کی حد تک پہنچی تنقید کا جواب دیا جائے۔ میرے خیال میں عمران خان پر ہونے والی تنقید کا ایک بڑا حصہ بالکل غلط، ناانصافی پر مبنی اور مختلف قسم کے تعصبات کے تابع ہے۔ ناقدین میں سے بعض لوگ تو ایسے ہیں جو واضح طور پر مسلم لیگ ن سے اپنے تعلق کا حق ادا کر رہے ہیں۔ مختلف وجوہ کی بنا پر وہ شریف برادران کی غیر اعلانیہ ترجمانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔کچھ نے مفادات اٹھائے تو بعض شاید شاہی خاندان سے دیرینہ تعلقات نبھانا ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک حلقہ یقیناً ایسا بھی ہے جس پر مفادات لینے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا، ایسا کہنا زیادتی ہوگی، یہ مگر حقیقت ہے کہ ان کی تنقید غیر متوازن ہے۔ بطور سیاستدان عمران خان سے ان کی وابستہ توقعات پوری نہیں ہوئیں یا پھر تحریک انصاف نے ان کی انا کی آبیاری نہیں کی۔ وجہ جو بھی ہو، جو تنقید غیر منطقی ہو، اسے درست کیسے مانا جا سکتا ہے۔ عمران پر دو تین الزامات تواتر سے لگائے جاتے ہیں، ان پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔
عمران خان پر سب سے زیادہ تنقید اس حوالے سے ہوتی ہے کہ وہ اب نظریاتی کارکنوں کے بجائے الیکٹ ایبلز کو ترجیح دیتے ہیں اور روایتی سیاستدان ان کی پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں تو پھر مسلم لیگ ن اور ان کے مابین فرق کیا رہ گیا؟ یہ دلچسپ اعتراض ہے۔ تضاد مگر اس میں یہ ہے کہ جب تحریک انصاف نظریاتی کارکنوں کو ٹکٹ دے اور وہ وسائل کی کمی، الیکشن لڑنے کا تجربہ نہ ہونے اورمقامی برادری کی سپورٹ نہ ہونے کے باعث بری طرح ہار جائیں تو پھر جوش وخروش سے لکھا اور تجزیہ کیا جاتا ہے کہ عمران خان کا جادو ختم ہوگیا، ان کے امیدوار بری طرح ہار رہے ہیں، پولنگ سٹیشنوں تک وہ پولنگ ایجنٹ ہی نہیں پہنچا سکے تو الیکشن کیا لڑیں گے وغیرہ وغیرہ۔ جب الیکٹ ایبلز یا مقامی سطح پر اثر و رسوخ والے امیدوار کو ٹکٹ دیا جائے اور وہ سخت مقابلہ کرکے ایک دو ہزار ووٹوں سے ہار جائے تو پھر تحریک انصاف کے امیدواروں کو سیاسی لوٹے، روایتی سیاستدان کہہ کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مزید مزے کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماﺅں میں شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان وغیرہ جیسے چند لوگوں کونشانہ بنایا جاتا ہے، مگر دوسری طرف مسلم لیگ ن میں موجود سو فیصد الیکٹ ایبلز کی بات ہی نہیں کی جاتی۔

یہ کہاں کی دلیل ہے کہ ایک پارٹی میں اگر چند فیصد الیکٹ ایبلز ہیں تو اسے طعنہ دے کر رد کر دیا جائے اور دوسری طرف روایتی سیاست کرنے والی سو فیصد الیکٹ ایبلز سے مسلح پارٹی کے بارے میں ایک حرف بھی نہ کہا جائے۔ سامنے کی بات ہے کہ روایتی الیکٹ ایبلز کی جماعت مسلم لیگ تو کبھی پھوٹے منہ بھی سسٹم میں تبدیلی لانے کا نام نہیں لیتی جبکہ عمران خان پاکستانی سیاست کے زمینی سفاک حقائق کے پیش نظر الیکٹ ایبلز کو مجبوراً ملا رہے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ تبدیلی کے نعرے، تھانہ کچہری میں ریفارمز لانے کی بات سے دستبردار نہیں ہوئے۔ خیبر پختونخوا میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ وہاں وزیراعلیٰ روایتی سیاستدان ہے، کئی وزیر، مشیر بھی الیکٹ ایبلز ہیں، مگر اس کے باوجود تحریک انصاف نے وہاں پولیس میں اصلاحات کیں، صوبے کی تاریخ کا طاقتور ترین آئی جی پولیس لگایا اور پولیس افسروں کی ٹرانسفر، پوسٹنگ میں کرپشن صفر کر دی۔ تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں اسی روایتی سیاست دان وزیراعلیٰ اور ارکان اسمبلی کے باوجود اصلاحات لائی جا رہی ہیں، بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ پنجاب سے کئی ماہ پہلے مکمل کر دیا اور بلدیاتی نمائندوں سے ہی ترقیاتی کام کرانے کی پلاننگ ہو رہی ہے۔ یہ درست کہ بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاستدانوں سے لے کر بیوروکریسی تک کوئی بھی نظام کی اصلاح نہیں چاہتا، وہاں اصلاحات نافذ کرنا پہاڑوں سے دودھ کی نہر نکالنے جتنا مشکل کام ہے، مگر بہرحال کچھ نہ کچھ ہوا ہے، مزید کرنے کی نیت بھی ظاہر کی گئی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو سیاست میں رومانویت کے عنصر کو شامل کرنے پر تنقید کرتے اور جماعت اسلامی جیسی نظریاتی جماعت کو بھی زمینی حقائق دیکھ کر اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، وہ عمران خان کو رومان پسندی چھوڑنے اور عملیت پسندی اپنانے کا طعنہ دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ جو تجزیہ کار جمہوری روایات کو مضبوط کرنے کی بات کرتے ہیں، وہی لوگ تحریک انصاف کے قائد پر سخت تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے مئی تیرہ کے انتخابات سے پہلے پارٹی الیکشن کیوں کرائے؟ بھائی جمہوریت کی رٹ لگانے والوں کو تو ملک میں جمہوری تقاضا پورا کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔ حد یہ ہے کہ پچھلے خوفناک تجربے کے باوجود عمران خان چند ماہ پہلے تک دوبارہ پارٹی الیکشن کرانے پر تلا ہوا تھا، اس وقت مجھ سمیت سب لوگ اس پر تنقید کر رہے تھے کہ یہ غلطی نہ کرو۔
بےشک سیاسی اعتبار سے یہ غلطی ہی لگتی ہے، مگر سیاسی رومانویت کے حساب سے تو یہ بالکل درست کام ہے۔ جمہوریت اور جمہوری کلچر کے حامیوں کو تو اس پر عمران خان کو سراہنا چاہیے۔

عمران خان کا دھرنا اس کی سیاسی غلطی تھی۔ اتنا جلد آل آﺅٹ وار کی طرف نہیں جانا چاہیے تھا۔ اب دوبارہ سے وہ میدان میں اترا ہے۔ اس پر مسلم لیگ ن کے حامی حلقے شدید تنقید کر رہے ہیں۔ کسی کو معاشرے میں ہیجان پیدا کرنے پر شکوہ ہے تو کوئی احتجاج سے معیشت متاثر ہونے کا راگ الاپ رہا ہے۔ ایک سوال کا جواب ان پر قرض ہے کہ دھرنوں کے دوران حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ الیکشن ریفارمز کریں گے۔ اب دھرنوں کو دو سال ہونے والے ہیں، کہاں ہیں وہ الیکشن ریفارمز؟ کوئی بتا سکتا ہے کہ الیکشن میں ڈیڑھ دو سال ہی رہ گئے ہیں، کیا حکومت نے پچھلے انتخابات میں ہونے والی خرابیاں دورکرنے کے لئے کوئی ایک قدم بھی اٹھایا؟ بائیو میٹرک انتخابات، مقناطیسی سیاہی، اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کا انتظام، الیکشن کے لئے عملے کی تربیت وغیرہ….کچھ ہوا ہے؟ یاد آیا، ایک پارلیمانی کمیٹی بھی تو بنائی گئی تھی، انتخابی اصلاحات کے لئے۔ کسی کو یاد ہے کہ اس کا آخری اجلاس کب ہوا؟ اگر اب الیکشن ریفارمز کے لئے کوئی لیڈر سڑکوں پر دوبارہ آئے تو اسے کس طرح مورد الزام ٹھیرا سکتے ہیں؟ اسی طرح ہر ایک کو یاد ہوگا کہ تین چار ماہ پہلے پاناما لیکس کے طوفان اٹھنے پر جناب وزیراعظم نے قوم سے خطاب کیا تھا اورکچھ وعدے کئے تھے۔ کہاں گئے وہ وعدے؟ کیا پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ٹی اوآرز طے کرانے کا ڈرامہ صرف وقت لینے کا بہانہ نہیں تھا؟ کوئی ہے جسے اس میں اب کوئی شک رہا ہو؟ اپوزیشن لیڈر خورشد شاہ جسے وزیر برائے اپوزیشن کہنا زیادہ مناسب ہو، انہوں نے اپنا کردار خوب طریقے سے ادا کیا۔ اگر اب پاناما لیکس والے معاملے پر عمران خان سڑکوں پر احتجاج کریں اور پریشر ڈالنے کی کوشش کریں تو انہیں کس طرح غلط کہہ سکتے ہیں؟ حکومت اور ان کے باتدبیر مشیروں نے کوئی اور آپشن ہی نہیں چھوڑی۔ اس لئے تجزیہ کاروں اور اہل دانش سے استدعا ہے کہ وہ جو چاہے تنقید کریں، جس نکتہ کو پسند کریں اسے اٹھائیں، مگر ایسا کرتے ہوئے انصاف سے کام ضرور لیں۔ جو بات غلط ہے، اسے غلط مگر درست کو درست کہنا بھی سیکھیں۔ ایسا کرنے والے کی توقیر میں اضافہ ہو گا اور پھر سوشل میڈیا پر تنقید یا لعنت ملامت کا گلہ بھی نہیں رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے