مسئلہ کشمیر کی صنعت

پاکستان کو باقی دنیا سے جو شکایات ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ دنیا مسئلہ کشمیر کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتی جتنا اس کا حق ہے۔ خود پاکستان اس مسئلے کو کتنی سنجیدگی سے لیتا ہے؟ کتنے فیصلہ ساز پاکستانی مسئلہ کشمیر کو واقعی سمجھتے ہیں؟ کیا کبھی خود پاکستان میں اس مسئلے پر کھل کے گفتگو کی اجازت ملی یا روزِ اول سے رٹا ہوا اسٹیبلشمنٹی سبق ایک نسل سے دوسری نسل تک بنا سوچے سمجھے ویسے ہی پہنچایا جا رہا ہے جیسے محلے کی مسجد کے مولوی صاحب بچے کو بنیادی عربی قاعدہ معنی و شرح کے جھنجھٹ میں پڑے بغیر ہل ہل کے پیڑھی در پیڑھی یاد کراتے ہیں۔

کیا یہ ممکن ہے کہ پاکستان میں کوئی شخص ’ کشمیر بنے گا پاکستان‘ کے نعرے سے ہٹ کر یہ بات بھی کر سکے کہ کشمیری اگر بھارت اور پاکستان میں شمولیت کے بجائے اپنی علیحدہ شناخت اور وجود کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ۔ کیا پاکستان کے تعلیمی کورس میں کسی بھی سطح پر طلبا کو یہ بتایا جاتا ہے کہ کشمیر میں رائے شماری سے متعلق اقوامِ متحدہ کے اختیارات محض اخلاقی نوعیت کے ہیں۔بائیکاٹ، ناکہ بندی ، سفارتی مقاطعہ اور طاقت کا استعمال صرف ان قرار دادوں پر عمل کروانے کے لیے ہو سکتا ہے جو سلامتی کونسل نے چیپٹر سیون کے تحت منظور کی ہوں۔ کشمیر میں رائے شماری سے متعلق قرار دادیں چیپٹر سکس کے تحت منظور ہوئی ہیں ۔یعنی ان کی نوعیت سفارشی ہے۔ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں کسی فریق کے خلاف اقوامِ متحدہ طاقت کا استعمال نہیں کر سکتا اور نہ ہی اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے کوریا یا عراق طرز کی کوئی تادیبی کارروائی ممکن ہے۔

مگر سرکاری سطح پر ہر پاکستانی حکومت یہ تاثر دیتی ہے گویا یہ مسئلہ محض اقوامِ متحدہ کی سستی کے سبب حل نہیں ہو پا رہا۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر آخری بار ( دسمبر 1957 میں زیرِ بحث آیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک بہت سی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔پاکستان اور چین نے سرحدی معاہدے ( 1963 ) کے تحت شمالی کشمیر کی حد بندی میں باہمی سہولت کے حساب سے رد و بدل کر لیا۔

1965 کی جنگ نے طے کر دیا کہ کشمیر طاقت کے استعمال سے کسی ایک فریق کو نہیں مل سکتا۔71 کی جنگ نے ثابت کر دیا کہ پاکستان اپنی سالمیت کا تحفظ ہی کر لے تو بڑی بات ہوگی۔99 کی کارگل مہم جوئی نے طے کر دیا کہ دنیا اب پاکستان کا یہ موقف تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ متنازع علاقہ ہونے کے ناطے کشمیر میں مسلح کارروائی ہو سکتی ہے۔2004 میں بھارت نے صدر مشرف کی جانب سے کشمیر کا اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں سے بالا بالا آؤٹ آف باکس حل نکالنے کا فارمولا بھی مسترد کردیا۔

گذشتہ ہفتے نواز شریف حکومت نے اعلان کیا کہ وہ دنیا کے اہم ممالک میں ارکانِ پارلیمان کو مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے لرے خصوصی مندوب کے طور پر بھیج رہی ہے تاکہ رواں ماہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے پہلے پہلے زیادہ سے زیادہ ممالک کی اخلاقی حمایت حاصل ہو سکے ۔

مندوبین کی فہرست سے ہی اندازہ ہوگیا کہ حکومت مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اچھالنے میں کس قدر سنجیدہ ہے۔20 میں سے 17 مندوبین کا تعلق مسلم لیگ نواز سے ہے ۔یہ مندوب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک کے دارلحکومتوں میں بھی جائیں گے ۔وہاں کس سے ملیں گے؟ یہ واضح نہیں۔

ماسکو جانے کے لیے نامزد تین میں سے ایک مندوب سے جب ایک چینل اینکر نے پوچھا کہ سید علی گیلانی ، آسیہ اندرابی اور محبوبہ مفتی کے موقف میں بنیادی فرق کیا ہے تو انھوں نے فرمایا کہ ’موقف کسی کا جو بھی ہو ہم اس کا احترام کرتے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ مسئلہ حل ہونا چاہئے۔‘

کوئی مندوب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے دس غیر مستقل ارکان سے رابطہ نہیں کرے گا۔ البتہ اقوامِ متحدہ کے نیویارک اور جنیوا دفاتر میں دو علیحدہ علیحدہ پاکستانی وفود اقوامِ متحدہ کے اہل کاروں کو مسئلہ کشمیر کی اہمیت سے دو بار آگاہ کریں گے۔کچھ مندوب سعودی عرب اور جنوبی افریقہ بھی جائیں گے۔اللہ جانے کیوں؟

یوں اگلے ایک ماہ کے دوران مسئلہ کشمیر پاکستانی خزانے کو کم ازکم دس کروڑ روپے کا پڑ جائے گا۔اس میں وہ خرچہ شامل نہیں جو ستمبر میں نواز شریف کے دورہ نیویارک پر آئے گا۔

کشمیر سے متعلق قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کا خرچہ الگ ہے۔مولانا فضل الرحمان پچھلے آٹھ برس سے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں ۔ان کا عہدہ اور مراعات وفاقی وزیر کے برابر ہیں۔کشمیر کمیٹی میں 22 ارکانِ پارلیمان شامل ہیں۔عملے کی تعداد 38 ہے۔

کمیٹی نے پچھلے تین برس کے دوران پونے دو سو ملین روپے خرچ کر کے تین اجلاس منعقد کیے ، 21 پریس ریلیز جاری کیے ، ہر برس پانچ فروری کو یومِ کشمیر منایا اور تھوڑے سے غیر ملکی دورے کیے۔رواں مالی سال کے لیے کشمیر کمیٹی کا بجٹ 51 ملین روپے کے لگ بھگ ہے۔

مگر وزیرِ اعظم نواز شریف مسئلہِ کشمیر کے بارے میں جو 20 خصوصی ایلچی بیرونِ ملک روانہ کر رہے ہیں ان میں 17 کا تعلق کشمیر کمیٹی سے نہیں ۔پس ثابت ہوا کہ کشمیر کشمیریوں کے لیے اور کشمیری بھارت کے لیے کوئی مسئلہ ہوں تو ہوں مگر پاکستان کے لیے مسئلہ کشمیر ایک سیاحتی صنعت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے