زندگی میں اتنی افراتفری؟

گفتگو یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ لڑکیوں کو گھر سے بھاگ کر شادی کر لینی چاہیے یا نہیں ؟ میں فیصل کو کہہ رہا تھا کہ بالکل بھی نہیں کرنی چاہے کیونکہ مرد کی ذات پر اس قدر زیادہ اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ لڑکے پر اعتبار کرتے ہوئے اپنی ساری کشتیاں جلا دینا سب سے بڑی بیوقوفی ہوتی ہے۔ اگر مرد نے لڑکی کو چار سال بعد چھوڑ دیا تو لڑکی کدھر جائے گی؟ میں نے مسکراتے ہوئے ایک کہاوت دہرائی، "خوش قسمت ترین وہ لڑکی ہے، جو کسی مرد کی آخری محبت ہو، اور خوش قسمت ترین وہ مرد ہے، جو کسی لڑکی کی پہلی محبت ہو۔”

فیصل عباس ویسے تو اکنامکس میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے لیکن گپ شپ ہماری ہمیشہ ہی سماجی موضوعات کے گرد گھومتی تھی۔
اب فیصل ڈاکٹر فیصل عباس بن چکے ہیں لیکن زندگی گزارنے سے متعلق ان کا ایک اپنا ہی فلسفہ ہے۔

ہم دونوں حسب معمول آئس کریم ہاتھوں میں پکڑے یونیورسٹی آف بون کے فوارے کے قریب بیٹھے تھے۔ بون شہر کا یہ مرکزی پوائنٹ ہے۔ ہر وقت گہما گہمی رہتی ہے۔ لڑکیاں لڑکے، بوڑھے مائیاں، بچے، ہر رنگ کا بندہ آپ کو ادھر نظر آتا ہے۔آپ اس جگہ پر آ کر بیٹھ جائیں کبھی بھی بور نہیں ہوں گے۔

اس دن فیصل نے اچانک پوچھا کہ امتیاز یہ ہمارے پاس یا آج کے انسان کے پاس وقت کیوں نہیں بچا، یا سکون کیوں نہیں ہے یہ ہر کوئی بھاگ دوڑ اور افرا تفری میں کیوں رہتا ہے؟ پہلے تو ایسا نہیں تھا، یا ہم نے اپنے بچپن میں یا گاؤں میں زندگی اس قدر تیز تو کبھی بھی نہیں دیکھی تھی ؟

میں نے اسے روایتی جواب دیا کہ کام زیادہ ہوتے ہیں، بندہ تنہا ہوتا ہے اور اسے ہر کام جلدی کرنا پڑتا ہے، ہم مصروف زیادہ ہو گئے ہیں تو وقت بھی کم ملتا ہے اور زندگی میں بھاگ دوڑ لگی رہتی ہے۔

فیصل نے کہا کہ یہ تو سب ٹھیک ہے لیکن میری نظر میں آج کے انسان کی خواہشات بہت بڑھ گئی ہیں۔ تم آج اپنی خواہشات کم کر لو تمہاری بھاگ دوڑ اور مصروفیات بھی کم ہو جائیں گی اور تمہاری افرا تفری بھی ختم ہو جائے گی۔ میں اس دن واقعی حیران ہوا کہ اس نقطہ نظر سے تو کبھی سوچا ہی نہیں، ساری کی ساری بھاگ دوڑ کے پیچھے تو صرف اور صرف خواہشوں کی تکمیل ہے۔

میں اب جب بھی لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنتا ہوں کہ وقت ہی نہیں ملتا کیا کریں، تو میرے ذہن میں سب یہ پہلے یہ خیال آتا ہے کہ حضرت انسان کی خواہشوں کا سلسلہ بہت دراز ہو چکا ہے۔

آج خواہشوں کو ضرورت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور ہم آئی فون یا سمسنگ کے ہر نئے ماڈل کو اپنی ضرورت سمجھنے لگے ہیں۔
سائیکل سے موٹر سائیکل، موٹر سائیکل سے گاڑی اور پھر گاڑی سے ہر سال نئے ماڈل کی گاڑی کا سفر ہمارے وقت، آرام اور سکون کا کھا گیا ہے۔ دولت اور شہرت کی خواہش ایک ایسا شربت ہے، جسے آپ جتنا زیادہ پیتے ہیں، پیاس اتنی ہی زیادہ بڑھتی ہے۔

خواہشیں ایک ایسا سراب ہیں، جن میں سکون نظر آتا ہے لیکن ہوتا نہیں ہے۔ ظاہر ہے خواہشوں کے اس سفر میں میں بھی آپ کا ہم سفر ہوں، اور مجھے بھی دن رات انہی کا سامنا رہتا ہے۔

میں نے اپنی پہلی گاڑی کوئی چھ سال پہلے خریدی تھی۔ سوچ یہ تھی کہ گاڑی کے آنے سے سکون آئے گا اور آسانیاں پیدا ہوں گی۔ یہ میری کامیابی کی علامت ہے۔

لیکن گاڑی تنہا نہیں آئی یہ اپنے ساتھ نئی فکریں اور پریشانیاں بھی لے کر آئی۔ سب سے پہلے تو میں نے گاڑی خریدنے کے لیے کام زیادہ کیا، پیسہ جمع کیا، اپنا سکون اور چین اس گاڑی کے لیے قربان کیا۔ پھر اس کے پٹرول اور مرمت کا خرچہ، گرمیوں اور سردیوں کے ٹائروں کی تبدیلی ،ماہانہ انشورنس کی فکر، گیراج کا کرایہ اور مسلسل فکر یہ کہ گاڑی لگ نہ جائے وغیرہ وغیرہ۔ اب سوچ یہ تھی کہ گاڑی کے آنے سے آسانیاں پیدا ہوں گی، فکریں کم ہوں گی لیکن در حقیقت فکروں میں اضافہ ہوا۔

ایک شخص پانی پینے کے لیے مٹی کا گلاس لیتا ہے اور ایک مہنگا ترین کرسٹل گلاس۔ اب دونوں ٹوٹیں گے تو دکھ زیادہ کرسٹل گلاس کے ٹوٹنے ہر ہوگا اور یہ خریدا اس وجہ سے تھا کہ اس سے زیادہ سکون ملے گا۔

خواہشوں کا سراب بھی بالکل ایسے ہی ہے، جس چیز کے حصول میں ہم جتنا زیادہ پیسہ اور وقت لگاتے ہیں، وہ چیز اس سے کئی گنا زیادہ فکریں اور دکھ ساتھ لے کر آتی ہے۔ یقین جانیے اگر آپ کے پاس چند روپے ہیں لیکن آپ ان کے ساتھ مطمئن ہیں تو آپ دنیا کے بادشاہ ہیں اور اگر آپ کے پاس لاکھوں روپے ہیں لیکن آپ دن رات زیادہ سے زیادہ کے پیچھے بھاگ رہے ہیں تو آپ بھی میری طرح دنیا کے فقیر ہیں۔

میں یہ نہیں کہتا کہ خواہشیں نہیں ہونی چاہیں یا انہیں مکمل طور پر ختم کر دینا چاہیے۔ یہ تو انسانی فطرت کے خلاف ہے لیکن ہمیں انہیں کنٹرول کرنا بھی سیکھنا چاہیے، ہمیں ضرورتوں اور خواہشوں کے مابین فرق کو سمجھنا چاہیے، جو ہے اس کے ساتھ مطمئن ہو کر جینا سیکھنا چاہیے۔ اگر آپ کی دس خواہشات ہیں تو انہیں پانچ کر لیجیے، یقین کیجیے آپ کے پاس وقت بھی بچے گا اور سکون بھی ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے