’ کشمیر اورکشمیر کمیٹیاں ‘

کشمیر میں جاری کشیدگی کی تازہ لہر جو کشمیری نوجوان برہان مظفروانی کی شہادت کے ساتھ ہی شروع ہوئی تھی رکنے یا تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔بھارتی سیکورٹی فورسز کی پیلٹ گن فائرنگ اور تشدد سے اب تک مختلف علاقوں میں ۱۰۰ کے لگ بگ کشمیری شہید سینکڑوں زخمی جبکہ سینکڑوں ہی لوگ آنکھوں کی بصارت سے محروم ہوچکے ہیں۔حالات کی کشیدگی کے باعث ہسپتالوں میں دوائیوں اور کئی علاقوں میں شہریوں کو غذائی قلعت کابھی سامنا ہے۔کشمیر کی مزاحمتی قیادت کو مسلسل جیلوں میں ڈالا گیا ہے۔کاروبار ، ٹرانسپورٹ ،تعلیم ، انٹرنیٹ و موبائل سروس اور دیگر معمولات زندگی کئی روزسے معطل ہے۔ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور مودی سرکار کی طرف سے حالات کومعمول پر لانے کی سرتوڈ کوششوں اور مزاحمتی قیادت سے مذاکرات کی بار بار پیشکش بھی کشمیریوں کے غم و غصے کو ٹھنڈا نہیں کرسکی۔اس ساری صورت حال کو دیکھ کر جہاں دنیا بھر میں بھارتی فورسز کی طرف سے نہتے شہریوں پر بہیمانہ تشدد پرتشویش کا اظہار کیا جارہا ہے وہیں بھارت کے اندر بھی سول سوسائٹی اور کئی نامور سیاسی و سماجی شخصیات نے کشمیر میں جاری کشیدگی پر نہ صرف تشویش کا اظہار کیا بلکہ بھارت سرکار کی طرف سے کشمیریوں پر جارحانہ رویے پر کئی سوالات اٹھائے۔
پاکستان میں کشمیر کی کشیدہ صورت حال کو لے کر مذہبی و سیاسی جماعتوں اور مجموعی طور عوامی سطح پر کشمیریوں کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی دیکھنے میں آیا۔پاکستان کے مختلف شہروں میں کشمیر کے حوالے سے متعدد تقاریب، کانفرنسیں،سیمینارز، احتجاجی مظاہرے، ریلیاں، جلسے ، جلوس اور بھوک ہڑتالیں دیکھنے میں آئیں۔ لیکن حکومتی سطح پر کشمیر کی موجودہ صورت حال کو لے کر کوئی ٹھوس اور جامع حکمت عملی کا کوئی نمونہ نظر نہیں آیاسوائے ایک نمونے کے کہ وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے بائیس رکنی ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی جو عمومی خیال کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں جا کر مسلہ کشمیر کو اجاگر کرینگے اور دنیا کو قائل کرینگے کہ بھارت ریاستی دہشت گردی کرکے کشمیریوں کاحق سلب کئے بیٹھا ہے۔اس کمیٹی میں کن لوگوں کو شامل کیا گیا کیوں کیا گیا اسکی تفصیل تو سلسلہ وار سامنے آرہی ہے لیکن بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس نے اس کمیٹی کے بنانے والوں اور اس میں شامل لوگوں کا پول کھول دیا۔وہ اسطرح کہ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نواب وسان کو بھی اس کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے جو ایک وفد کے ساتھ روس جاکر مسلہ کشمیر کو اجاگر کرینگے۔نواب وسان صاحب کمیٹی میں شامل ہونے کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل پر نمودار ہوئے اور وزیراعظم پاکستان کی ہدایت پر تشکیل دی ہوئی کمیٹی کے بارے اپنے خیالات کا اظہار بیان فرمارہے تھے۔نجی ٹی وی چینل کے اینکر نے جب انہیں اس کمیٹی کے اغراض و مقاصد بارے پوچھا تو موصوف آئیں بائیں شائیں کرتے رہے ۔موصوف کا کہنا تھا کہ انہیں ابھی حکومت کی طرف سے کوئی گائیڈ لائن فراہم نہیں کی گئی کہ انہوں نے روس جاکر کیا کرنا ہے۔موصوف کو جب کشمیر کی جغرافیہ اور موجودہ صورت حال کے بارے پوچھا گیا تو انہیں اس بارے بھی کوئی علم نہیں تھا۔جب ان سے کشمیر سے مطلق دونوں ممالک کے بیچ ہوئے معاہدوں بارے پوچھا گیا تو نواب وسان کا جواب سن کر بیچارہ اینکر بھی شرمندہ شرمندہ دکھائی دیا۔نواب وسان کی گفتگو کو لے کر سوشل میڈیا پر ایک طویل مباحثہ چل پڑا کہ اگر حکومت پاکستان کشمیر میں جاری بھارتی تسلط اور کشیدگی کے حقائق دنیا تک پہنچانے کے لئے ایسے افراد کا انتخاب کرتی ہے جن کو کشمیر سے مطلق الف بے کا بھی پتہ نہیں تو حکومت کی کشمیرایشو اور کشمیریوں کے تعئیں سنجیدگی کا اسے بڑھ کر مضحکہ خیز عمل کوئی نہیں ہوسکتا۔
دوسری طرف حکومت پاکستان کی طرف سے تشکیل دی جانے والی اس بائیس رکنی کمیٹی کولے کر پاکستان کی قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے کشمیر (کشمیر کمیٹی)پر بھی سوالات کھڑے ہوگئے جس کی چیرمین شپ جمیعت علماء اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے پاس عرصہ دراز سے ہے۔مولانا کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ انکے پاس اپنے دوسرے سیاسی مفادات کی وجہ سے کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کا وقت ہی نہیں ہے۔ کیونکہ آجکل وہ وزیراعظم پاکستان کو پاناما لیکس سے بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔لہذا کشمیر کمیٹی کے فعال نہ ہونے کی وجہ سے ایک اور کمیٹی کا قیام بھی اسی منصوبے کی کڑی ہوسکتی ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے کشمیر کا قیام ۱۹۹۳ میں عمل میں آیا تھا۔اس کمیٹی کا مقصد مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنا اور کشمیر حل کے لئے اپنی سفارشات پیش کرنا تھا۔کشمیر کمیٹی کے پہلے چیرمین نوابزادہ نصراللہ خان مقرر کئے گئے پھر مختلف ادوار میں مختلف اشخاص کشمیر کمیٹی کے چیرمین رہے۔۲۰۰۸ کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے مخلوط حکومت بنائی اور مولانا فضل الرحمان کو چھتیس ممبران پر مشتمل کشمیر کمیٹی کا چیرمین بنایا گیا۔وہ دن اور یہ دن مولانا صاحب کشمیر کمیٹی کی چیرمین کی کرسی پر براجمان ہیں ۔کشمیر کمیٹی جو قومی اسمبلی کی بتیس قائمہ کمیٹیوں میں سب سے زیادہ بجٹ لینے والی کمیٹی ہے ،زیادہ تر اپنا کام مذمتی بیانا ت سے چلاتی ہے۔مولانا صاحب کشمیر کمیٹی کے چیرمین بن کر وفاقی وزیر کی تنخواہ اور مراعات لیتے ہیں۔اسلام آباد میں سرکاری گھر بھی اسی کھاتے میں ملا ہوا ہے۔چھ کروڑ سے زائد بجٹ اور لاکھوں کی تنخواہیں لینے والی کشمیر کمیٹی کو جو کام بین الاقوامی سطح پر کشمیر کاز کے لئے کرنا تھا وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔۲۰۰۱۳ سے لیکر آج تک کشمیر کمیٹی سب سے مہنگی کمیٹی ثابت ہوئی ہے جس کے صرف تین اجلاسوں پر ۱۸ کروڑ روپے لاگت آئی ہے۔مولانا فضل الرحمان کی جانب سے کشمیر کے معاملے میں ہمیشہ عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا گیا ۔لہذا کشمیر کمیٹی کے اوپر ایک اور کمیٹی بنانے کا مقصد سوائے پیسے کے ضیاع کچھ نہیں۔کمیٹیوں پہ کمیٹیاں بنانے کے بجائے حکومت کو چاہئے کہ کشمیر کمیٹی کو اسکی اصل روح کے مطابق فعال کرے اور مولانا صاحب کوملکی سیاست میں کوئی زمہ داری دیکر چیرمین کشمیر کمیٹی کی زمہ داری سے فارغ کرکے کسی ایسے شخص کو کمیٹی کا چیرمین بنائے جو واقعتاً کشمیر کاز کو دنیا تک پہنچانے اور کشمیریوں کی آواز بننے کا اہل ہو۔
کشمیر سے متعلق قراردادیں اقوام متحدہ میں موجود ہیں ۔جب سوائے بھارت کے ساری دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کی حیثیت کا فیصلہ کشمیر کے عوام کی مرضی کے مطابق کیا جانا چاہئے ۔تو پاکستانی حکومت کو ایسی کمیٹیاں جن کا کوئی سر پیر نہیں بنا کر غیر زمہ داری اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔
کشمیری صرف عالمی توجہ چاہتے ہیں۔پیلٹ گن کے استعمال سے کشمیریوں کی ایک نسل کو اندھا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔وزیر اعظم نواز شریف اگر کشمیریوں کے ساتھ مخلص ہیں تو انٹرنیشنل فورم پر بات کرنے کے لئے کسی ایسے شخص کو کشمیر کمیٹی کا کام سونپے جو بول چال میں مہارت رکھتا ہو اور دنیا کے سامنے کشمیر کے موقف کو سلیقے اور متاثر کن انداز میں پیش کرنے کا ہنر جانتا ہو۔کشمیری چاہتے ہیں کہ انکا مسلہ انٹرنیشنل فورم پرموثر انداز میں پیش کیا جائے ۔اسلئے حکومت پاکستان پہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بڑی سنجیدگی سے کشمیر کے بارے دوٹوک پالیسی اور موقف اختیار کرے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے