شہداء قوم سے معذرت

قوموں کی زندگی میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو کہ انکی تاریخ کا انمٹ حصہ بن جاتے ہیں۔اور پھر تا دمِ حیات قوم و ملک ان دنوں کو اپنی قومی تاریخ کا حصہ بنا کر یادگار بنالیتی ہے۔ ایسے دن یا تو قربانیوں کی داستان لئے ہوئے ہوتے ہیں یا پھر خوشی کی نوید اور آزادی وحریت کی داستانوں سے مزین ہوتے ہیں۔ہماری قومی تاریخ میں بھی کئے ایسے مبارک دن ہیں۔ اور ۶ ستمبر ۱۹۶۵ء بھی انہی قومی دنوں میں سے ایک ہے۔

یہ دن ہماری قومی تاریخ میں جراء ت و بہادری کے داستانوں کے ساتھ رقم کیا گیا۔ جب ایک نو زائیدہ اور غیر طاقتور اور اپنے سے کئی گنا کم طاقتور ملک پر بھارت کی فوجوں نے یہ سوچ کر چڑھائی کردی کہ اب یہ تر نوالہ ہم بآسانی نگل لیں گے۔ اور اپنے غرور و کبر کی چادر اُوڑھ کر اس نے ہمارے سرحدی حدود کو پار کرکے اپنی شاموں کو لاہور کے گریزن کلب میں رنگین بنانے کا تہیہ کر لیاتھا۔ یہی وہ دن ہے ۔ جب طاقت و رعونت سے سر شار بھارتی فوج نے ہماری قومی حمیت، ملکی جذبے اور دینی غیرت کو للکارا۔ جواب میں عمررضی اللہ عنہ و خالد رضی اللہ عنہ کے جان نثار تھے کوئی بڑا جنگی ساز و سامان نہیں تھا۔ سامنے حیدرِ کرار کے نام لیوا تھے ۔ کوئی فرعونیت کے نشے میں چور قوت کا پہاڑ نہیں تھا۔ ہاں بالکل مقابلہ کرنے کے لئے جذبہء حسینی سے سرشار ہما ری فوج کے جوان تھے۔ کسی یزید ی فوج کے ساز و سامان سے لیس عساکر نہیں تھے۔

قو م کے یہ نوجوان اس وقت کے فرعون سے ٹکراگئے۔یہ سوچ کر کہ ہم حق پر ہیں اورحق والے قوت و طاقت سے گھبراتے نہیں۔ ہماری فوج کے نڈر اور سرفروش نوجوان دشمن کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔ قرآن کی اس آیت کو ذہن میں رکھ کر کہ۔۔ کتنی دفعہ ایک چھوٹی سی قوت نے اپنے سے کئی گنا بڑی قوت پر اللہ کی مدد اور اپنے ایمان کے ساتھ غلبہ پایا�آ۶ ستمبر انہی بہادر سپوتوں کی یاد میں منائی جانے والا تاریخ ساز دن ہے۔ یہ شہداء ہماری قومی حمیت اور غیرت کا زندہ جاوید داستان ہے۔ آزاد قومیں اپنے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہیں ۔ اور ساتھ ساتھ اس سرمایہء عظیم یعنی دیس کی ترقی اور خوشحالی کے لئے دن رات سرگرمِ عمل ہوتی ہیں ۔ جسکی حفاظت کرتے کرتے قوم کے یہ سپوت اپنی زندگیوں کی بازی لگا بیٹھے۔

لیکن میں جب آج اپنے ملک کے مجموعی حالات کو دیکھتا ہوں تو لامحالہ اپنے شہداء کے آگے من حیث القوم سر شرم و ندامت سے جھک جاتا ہے۔ کہ جس دھرتی کی حفاظت کے لئے ان شہداءِ قوم نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ آج وہی مملکتِ خداداد ہماری نا اہلی اور نفس پرستی کی وجہ سے بے شمار مسائل میں گھرا ہو ہے۔

جس دشمن کو ہمارے شاہینوں نے بے سرو سامانی کی حالت میں ذلت آمیز اور عبرت آمیز شکست اور درماندگی سے دوچار کیا۔آج وہی دشمن ہمارے اپنوں کی غداری اور وطن دشمنی کی وجہ سے بڑی آسانی سے ملک کے سکون و امن کو تباہ کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ جس قوم کے جوانوں نے میدانِ جنگ میں جاکر کبھی دشمن کو پریشان کیا تھا ۔ آج اسی دھرتی کا جوان اپنے ملک کے لئے پریشانی کا سبب بن رہاہے۔
ہم شہیدوں کی یاد مناتے ہیں ۔ بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ مانا کہ یہ بھی قابلِ تحسین و آفرین ہے لیکن ان شہیدوں کی قربانیوں کا لاج رکھنا اس سے کہیں زیادہ ضروری اور اہم ہے۔ہماری نئی نسل کے دل و دماغ پر انکے زندہ جاوید کردار کا نقش ہونا اور اسکو مشعلِ راہ بنانا بے حد ضروری ہے جس سے شاید ہم صرفِ نظر کرکے بیٹھے ہیں۔ آج ہمارے نوجوانوں کے ہیرو فٹبال ، کرکٹ یا پھر ہالی ووڈ یا بالی ووڈ کے اداکار ہواکرتے ہیں۔ میں ارتقاء کا مخالف نہیں ، لیکن اے کاش کہ ہمارا میڈیا اور ہماری حکومت میجر عزیز بھٹی شہید ، یونس حسین شہید ، ایم ایم عا لم اور ان جیسے بے شمار قومی ہیروں کو نوجوانوں کے دل و دماغ میں قومی ہیرو بنا کر چھوڑتی۔ آج شہیدوں کا لہوبہ زبانِ حال پوری قوم سے سوال کرتا ہے۔ کہ ہماری قربانیوں کا لاج آپ لوگوں نے کتنا رکھا۔

جس دھرتی کی حفاظت کے لئے ہم نے اپنی جوانیاں لُٹا دیں ۔ اسکو آج آپ لوگوں نے تعصب، نفرت اور مذہبی عداوت کا اکھاڑا بنا دیا۔ وہ دیس جس میں خوشحالی اور امن کے لئے ہم نے اپنی خوشیاں اور گھر کا امن داؤ پر لگا دیا۔ آج اس دیس کے باسی حکمرانوں کے کرتوتوں کے باعث امن او سلامتی کے چند گھڑیوں کے لئے ترس رہے ہیں۔ جس ملک کی حفاظت کرتے کرتے ہم نے اپنی خوشیان قربان کردیں آج اس دیس میں خوف و غم اور مایوسیوں کے سائے منڈ لا رہے ہیں۔

آج جب میں سوچتا ہوں کہ ان شہیدوں نے جس عظیم مقصد کے لئے قربانیاں دیں کیا ہمارے حکمران اور دیگر قومی ادارے اس مقصد کی طرف قدم اُٹھانے کی بھی کوئی خواہش رکھتے ہیں۔ تو جواب نہایت مایوس اور دل خراش ملتا ہے۔ حکمران اپنی تجوریاں بھرنے ، ملک کو لوُٹنے میں مصروف ہیں۔ جو حکومت سے باہر ہیں وہ اپنی باری کی تگ و دو میں ملکی مفاد اور عوام کا دکھ سکھ داؤ پر لگانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور بے بس عوام اقتصادی بدحالی اور معاشی تنگدستی کے باعث اتنی بے حال کہ انکو حکمرانوں اور سیاستدانوں کے گریبان پکڑنے کی نہ تو ہوش ہے اور نہ ہی ہمت ۔ ایسے میں شہداء کے لئے ٹی وی اور اخبارات میں ایک یا دو دن وقف کرنے کے باوجود بھی ضمیر ملامت ہے اور یہی لگ رہا ہے کہ جیسے ہم نے شہیدوں کے خون کی لاج نہیں رکھی ۔لگتا یوں ہے کہ شہداء آج بھی یہی سوال لئے کھڑے ہیں۔

خاک و خوں میں پڑی یہ جوانی مری ختم کیا ہوگئی ہے کہانی مری
میں لڑا شان سے ہوں وطن کے لئے سن لو میری کہانی زبانی مری

امیدِ واثق ہے کہ اس ۶ ستمبر پر قوم کے جوان اور حکمران یہ عہد کر لیں کہ ہم شہیدوں کے خون کا احترام کرکے ملک کو امن و آشتی کا گہوارہ بنا کر دم لیں گے۔ کہ یہی قوم کے شہیدوں کو سب سے بڑا خراجِ تحسین ہوگاآ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے