ون ویلر پھر سڑکوں پر!

وطن عزیز میں سیاست کے کاریگرں نے اپنے تمام کل پرزوں کے ساتھ میدان میں اتر کر ماحول کو گرما رکھا ہے ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول کر عوام کو سبز باغ دیکھا رہا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارئے ملک کی سیاست بھی ون ویل پر چل رہی ہے اور جب چلانے والے ناتجربہ کار ہوں تو حادثے کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے و یسے تو اس کھیل میں تجربہ کار ہی مات کھاتے ہیں جیسا کہ کہا گیا
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں

پر یہ وہ والے شہسوار نہیں جو جنگ جیت کر آہیں بلکہ یہ زندگی کی شمع بھی بجا دیتے ہیں اور جو اس کھیل میں بچ جاتے ہیں ان کی وجہ سے لگنے والے زخم وقت کے ساتھ بھر تو جاتے ہیں لیکن اس کی اندرونی چوٹیں بدلتے موسموں میں درد کا احساس دلاتی ہیں ان ون ویلر سیاست دانوں کے دیے ہوئے زخم وطن عزیز کی بنیادوں تک رس رہے ہیں اللہ ان سیاست کے کاریگروں سے وطن کو محفوظ رکھے،

بات ون ویلروں سے سیاست کے ون ویلروں کی طرف چل نکلی اور دل تو یہی چاہ رہا ہے کہ آج سیاست کے ون ویلروں پر لکھا جائے لیکن میرے عزیز دوست ذوالفقار چوہدری کا کہنا ہے کہ سیاست کی بجائے انسانوں کے سماجی مسائل پر لکھوں کیونکہ ان مسائل کی نشاندہی زیادہ اہم ہے جو عام ادمی کو روزانہ پیش آتے ہیں سیاست دانوں کی ڈگڈگی کو مزید بجانے کا کوئی فائدہ نہیں خاموش طبع ذوالفقار چوہدری خاموش انقلاب کا حامی ہے اور اس نے کئی بار پریس کلب کی سیاست میں ایسا انقلاب پیدا کیا کہ بڑے بڑے برج زمین بوس ہو گئے.ان کی خواہش کا احترام بھی ہے اور حالات کی نزاکت بھی ہے کہ ون ویلروں کے کارناموں اور اس کھیل میں پیش آنے والے نقصانات کا تذکرہ کیا جائے،

دوسری طرف قہقہوں سے ماحول کو خوشگوار بنانے والے افضال بٹ کا کہنا ہے کہ کالم کو مختصر کریں جو کہ میرے لیے ایک مشکل کام ہے لیکن پھر بھی کوشش کرنے میں کیا حرج ہے کیونکہ ڈرو اس وقت سے جب کوئی بٹ گلو بٹ بن کر سب کچھ تہس نہس کر دے خیر افضال بٹ ایسا نہیں کرے گا وہ اپنے دوستوں مشفق،رانا سہیل اور نوید صدیقی کی صحبت یاراں کو قائم رکھنا چاہتا ہے ،

ون ویلر نوجوانوں کے خونی کرتبوں کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوہیں میں نے اپنے کئی گزشتہ کالموں میں بھی اس اہم مسلئے کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے اور میرے جیسے ادنی سے طالب علم کے علاوہ کئی سینئر صحافیوں نے بھی اس اہم موضوع پر قلم اٹھایا جس کے اثرات بھی سامنے آے اور وقت کے حکمرانوں نے کچھ اقدمات بھی کیے لیکن یہ ناکافی تھے ون ویلروں پر مسلسل نظر رکھنے کی ضرورت ہے اس بار چودہ اگست سے قبل پنجاب حکومت ون ویلروں کے خلاف میدان میں آئی اور اس ناسور کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی پنجاب حکومت نے سڑکوں پر پولیس پرنٹ اور الیکٹرناک میڈیا کے ذریعے مہم کا آغاز کیا منچلوں پر پرچے کٹے کئی نوجوان جیلوں میں گے موٹر سائیکل ضبط کیے گے والدین کو تنبیہ کی گئی حالات کنٹرول میں دکھائی دیے ، کئی ون ویلر اپنی قیمتی جانوں کے ضائع ہونے اور اپنے خاندانوں کے دکھوں میں اضافہ کرنے سے بچ گے

چودہ اگست سے قبل ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ساری حکومت اسی کام پر لگی ہے اور آنے والے دنوں میں ایسے واقعات نہ ہونے کے برابر ہوں گے میں خود اس مہم سے متاثر ہو کر پنجاب حکومت کا شکریہ ادا کرنے والا تھا اور اگر کوئی اچھا کام کرے تو وہ شکریہ کے قابل ہی ہوتا ہے بے شک پنجاب حکومت کا یہ اقدام قابل تحسین تھالیکن پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے یوم آزادی کا دن گزرنے کے ساتھ ہی ون ویلروں کے خلاف حکومتی مہم کمزور پڑتی نظر آئی اور پھرچند دن گزرنے کے بعد اب یہ مہم مکمل طور پر ختم ہوتی نظر آ رہی ہے ا ور جیسے ہی حکومتی رٹ کمزور پڑی ون ویلر پھر سے میدان میں آ گے ہیں .

اس کھیل میں صرف ون ویلر کی جان کو ہی خطرہ نہیں ہوتا وہ اپنے کرتب دکھاتا کسی دوسرے کی جان بھی لے سکتا ہے اور کرتب بھی ایسے کہ ایسے کرتب دیکھ کر انسان کا دل دہل جاتا ہے کبھی وہ موٹر سائیکل کے اگلے پہیے کو اٹھاتے ہیں اور کبھی اس کہ ایک طرف لیٹ کر کرتب کرتے ہیں میں تو ان کو دیکھ کر اکثر سوچتا ہوں کہ ان بچوں کے والدین کہا ں پر ہیں وہ ان کو ایسا کرنے سے کیوں نہیں روکتے ان والدین نے اپنے بچوں کو اتنی بے مہار قسم کی آزادی کیوں دے رکھی ہے یہی وہ بات ہے جس پر سوچنے کی ضرورت ہے کیا صرف حکومت کا فرض ہے کہ وہ ون ویلروں کو روکنے کے لیے قانون سازی کرے یا پھر یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم سب اپنے ان فرائض کو پورا کریں جس میں ہم سے کوتاہی ہو رہی ہے اس کا نقصان ہمیں بھی ہو سکتا ہے

ہمیں اپنے گھروں محلوں اور گلیوں سے نکلنے والے ون ویلروں کو روکنا ہو گا مجھے یاد ہے کہ ہمارے والدین کس طرح ہم پرنظررکھتے تھے ہماری جرات نہین ہوتی تھی کہ ان کی اجازت کے بغیر موٹر سائیکل تو دور کی بات سائیکل کو بھی ہاتھ لگا لیں اب تو سڑکوں پر دس سے بارہ سال کے بچے گاڑیاں چلاتے اور کرتب کرتے دیکھائی دیتے ہیں . ان کے والدین بھی فخر کے ساتھ بتاتے ہیں اور جب یہ بچے حادثے کا شکار ہوتے ہیں تو الزام دوسروں پر لگاتے ہیں .

کئی بار ایسا ہوا کہ امیر زادوں کے بچوں نے معصوم جانوں کو سڑکوں پر روندا اس موقع پر نہ قانون حرکت میں آیا اور نہ ہی ان بگڑے ہوے رئیس زادوں کو اپنے کیے پر شرمندگی ہوئی، ون ویلروں کو سڑکوں پر آنے سے روکنے کے لیے سب سے پہلے والدین کو حکومت سے تعاون کرنے کی ضرورت ہے وہ اپنے بچوں کی خواہشات اور ضد کو پوری کرنے سے پہلے اس کے منفی اثرات کا بغور جائزہ لیں .

میرے خیال میں اگر والدین اس سلسلے میں اپنی ذمے داریوں کو پورا کریں تو اس جان لیوا مرض سے جان چھوٹ سکتی ہیں دوسری طرف حکومت کو ون ویلروں کے خلاف اپنی مہم کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے مجھے اکثر ٹریفک پولیس کی طرف سے اسٹریٹ لائٹ پولوں پر لگے اشتہارات کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے جن پر یہ تحریر لکھی ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں پر موٹر سائیکل چلانے پر پابندی ہے .

میرا حکومتی اداروں سے سوال ہے کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ اس عمر میں انسان کو مکمل شعور بھی آ جاتا کہ اس نے غلط کام کرنا ہے یا نہیں اور پھر ہمارے معاشرے میں تعلیم کی کمی کے باعث تو ایسا ممکن ہی نہیں عمر کے لحاظ سے بالغ ہونا اور شعوری طور پر بالغ ہونے میں بہت فرق ہے ون ویلروں کے کنٹرول کرنے کے لیے رینٹ اے موٹر سائیکل کے کاروبار کو بھی قانون کے دائرے میں لانے کی ضرورت ہے ، یہاں سے ون ویلروں کو آسانی سے موٹر سائیکل مل جاتی ہے اور بھر وہ شہر کی سڑکوں پر دندناتے اپنا شوق پورا کرتے ہیں لیکن میں پھر یہی کہوں گا کہ ون ویلروں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہمیں اپنے گھروں میں بچوں پر نظر رکھنی پڑے گی جب گھر سے ون ویلر بچہ نہیں نکل پائے گا تو ہماری شاھراہیں بھی محفوظ ہوں گی ۔۔۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے