”حریت” کا کاروباراورباتیں علی گیلانی کی

کچھ دن قبل آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چئیرمین سید علی گیلانی نے’’آزادکشمیر چیپٹر کے نمائندگان ‘‘ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ

’’کچھ لوگ یہاں سے مجاہد بن کر گئے تھے ، ان کو وہاں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے حریت کانفرنس نے ذمہ داریاں سونپی تھیں لیکن آج مجاہد بن کر جانے والے دفتروں میں بیٹھ کر مسئلہ کشمیر کے نام پر کاروبار اور نوکریاں کر رہے ہیں، تحریک کا کام کیا جائے اسے کاروبار نہ بنایا جائے‘‘

اس وقت رد عمل کے طور پر کچھ لوگ وہاں سے اٹھ کر جانے لگے جن کو زبردستی وہاں روکا گیا اور کسی نے تو جذبات میں آ کر’’ گو گیلانی گو‘‘ کے نعرے بھی لگائے اور اپنی قربانیاں بھی گنوائیں ، کچھ نے چپ سادھ لی تاہم کشمیری عوام کے چہرے کھل کھلا اٹھے ۔سید علی گیلانی کے اس خطاب کے بعد اسلام آباد میں مقیم کئی حریت نمائندو ں نے اس بات کا شدید برا ماناکہ سید علی گیلانی کو یہ بات کھلے عام نہیں کہنی چاہئیے تھی لیکن سب کا اتفاق ہے کہ سید علی گیلانی نے بالکل درست کہا۔

اب کوئی یہ بات تسلیم نہیں کر رہا کہ وہ مجاہد بن کر آیا تھا اور یہاں کاروبار کر رہا ہے نہ ہی سید علی گیلانی کے بیان کو کوئی جھٹلارہا ہے۔جو قارئین کیلئے یقیناًایک حیرت انگیز بات ہو گی۔ ’’اس وقت آل پارٹیز حریت کانفرنس آزاد کشمیر چیپٹر میں 35 سے زائد تنظیموں کے نمائندگان شامل ہیں ان میں سے چار پانچ سر کردہ رہنماؤں کے نمائندوں کے علاوہ باقی کونسی تنظیمیں ہیں اورکہاں کام کر رہی ہیں؟ یہ بھی ایک معمہ ہے۔ان تنظیموں کی تفصیل اس وقت معلوم ہوئی جب صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان نے حریت کانفرنس کے وفدسے ملاقات کی جس کے دوران جب تعارف ہونے لگا تو وہاں چالیس کے قریب موجود افراد نے اپنا تعارف کروایا اور ہر فرد نے خود کو ایک الگ تنظیم کا نمائندہ بتایا جس پر صدر آزاد کشمیر کا کہنا تھا کہ میں تو خود کو بہت باخبر سمجھتا تھا لیکن بہت بے خبر نکلا‘‘۔

حریت کانفرنس (آزاد کشمیر چیپٹڑ) کے کاروبار پر اکثریہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ 1990 میں جب متاثرین تحریک کی حیثیت سے یہ ہجرت کر کہ مظفرآباد اور اسلام آباد آئے تو ان کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں تھی تو قلیل عرصے میں انہی سے ایک مخصوص گروہ (کچھ درجن افراد) آج بڑی بڑی گاڑیوں اور کروڑوں کی جائیداد کے مالک کیسے بنا ؟جبکہ انہی حریت قائدین میں کچھ ایسے ہیں جو ابھی تک کرائے کے گھر میں رہتے ہیں۔

نوے کی دہائی میں کنٹرول لائن عبور کر کے آنے والے والوں میں سے درجن بھر افراد نے تحریک آزادی کو اپنا مستقل کاروبار اور پیشہ بنا لیا ہے اور جب یہ سوال اٹھایا جاتا ہے تو سب کو چپ کا روزہ لگ جاتا ہے اوران کو ہر وقت کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں ان کا ’’گزارہ الاؤنس‘‘ بند نہ ہو جائے کیونکہ پاکستان اور کشمیر میں ہزاروں لوگوں کے چولہے صرف مسئلہ کشمیر کی صنعت پر جلتے ہیں۔

مسئلہ کشمیر اور کشمیر یوں کی امداد کے نام پر ہر سال کروڑوں نہیں اربوں روپے کا چندہ جمع ہوتا ہے ،وہ کہاں جاتا ہے ؟کسی کے پاس کوئی حساب نہیں البتہ مظفر آباد، اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں شاندار کوٹھیاں دیکھ کر اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کیسے اور کہاں، کہاں چلائی جا رہی ہے۔

آج کئی بزنس مین ’’حریت نمائندے‘‘ بن کر قانون کی گرفت سے بچے ہوئے ہیں ورنہ ان کے کاروبار اور طریق کاروبار پر قانون نافذ کرنے والے ادارے کب سے حرکت میں آ چکے ہوتے۔

یہاں دو واقعات قارئین کی دلچسپی کیلئے بتارہا ہوں:

’’کچھ روز قبل ایک حریت نمائندے(جن کا کوئی کاروبار نہیں ہے)سے سوال کیا کہ آپ شاہانہ زندگی بسر کر رہ ہیں حالانکہ آپ کا کوئی کاروبار نہیں ہے اور آپ کا اعزازیہ بھی اتنا نہیں کہ آپ اتنی بڑی گاڑی رکھ سکیں اور اس کے اخراجات اور اس قدر شاہانہ انداز میں گزر بسر کرسکیں تو انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا ’’میرا تعلق عسکریت سے ہے اور میرے پاس کلاشنکوف ہے ، میں رات کو کلاشنکوف لے کر بینک جاتا ہوں اور اپنے وسائل بناتا ہوں‘‘

اسی طرح ایک صاحب بتاتے ہیں کہ پانچ سال قبل ان کی ڈھوک کشمیریاں میں موبائل ایزی لوڈ کی دکان تھی( اس وقت وہ کسی حریت کے نمائندے نہیں تھے )۔ تین سال پہلے ان کو حریت کے ایک گروپ کا نمائندہ مقرر کیا گیا ۔آج ان کااسلام آباد کے ایک پوش علاقے میں ایک کنال رقبے پر محیط گھر ہے اور اب وہ کروڑوں روپے کی جائیداد کے مالک ہیں۔

ایک اور حریت راہنما ہیں جن کا اسلام آباد میں اربوں کا کاروبار ہے . وہ 1982ء میں کشمیر سے آئے ، پاکستان میں موجود اپنے رشتہ داروں کے ہاں شادی کی اور اسلام آباد مقیم ہو گئے۔ تحریک سے ان کی کسی قسم کی کوئی وابستگی نہیں رہی تاہم جب آزاد کشمیر میں حریت کے نمائندے مقرر کئے گئے تو ان کو ایک نیا کام مل گیا اور خود کو حریت سے وابستہ کر لیا اور اب آر پار تجارت کے ایک بڑے تاجر اور حریت راہنما مانے جاتے ہیں۔

حریت رہنماؤں کے علاوہ بھی مسئلہ کشمیر کی صنعت خاصی وسیع ہے ۔ ایک تنظیم کا ذکر زبان زد عام ہے جو کالعدم بھی قرار دی جا چکی ہے لیکن کشمیر کے نام پر فنڈز لے کر اپنا نظام چلا رہی ہے اور اس تنظیم نے عید قربان پر حریت کانفرنس آزاد کشمیر چیپٹر کے ہر نمائندے کو قربانی کے جانور کی خریداری کیلئے نقد رقوم فراہم کی ہیں تاکہ تحریک آزادی کشمیر کو اجاگر کیا جا سکے۔

اس سے بڑھ کر حریت کانفرنس آزاد کشمیر کے نمائندوں کے کچھ مشترکہ کاروبار بھی ہیں جن پر تفصیلی روشنی آئندہ کالم میں‌ ڈالی جائے گی۔ حریت کانفرنس آزاد کشمیر کے نمائندوں پر سید علی گیلانی کی طرف سے سوالات اٹھائے جانے کے بعدعوام کی طرف سے بھی سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں . سب سے پہلے پوچھا جاتا ہے کہ اگر یہ حریت کانفرنس کا آزاد کشمیر چیپٹر ہے تو ان کے دفاتر مظفر آباد کے بجائے اسلام آباد کیوں ہیں؟

کئی حلقوں کی طرف سے یہ رائے بھی سامنے آئی ہے کہ سید علی گیلانی اور دیگر رہنماؤں کو آزاد کشمیر کیلئے اپنے نمائندے آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت سے لینے چاہئیں تاکہ آزاد کشمیر بھی براہ راست اس تحریک سے منسلک ہو سکے اور حقیقی بیس کیمپ کا کردار ادا کر سکے۔ جب ایک طرف آزادی کیلئے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہوں اور دوسری طرف اسی ظلم کو کاروبار بنا کر فروخت کیا جا رہا ہو تو قربانی دینے والوں کا غصہ بجا ہے ۔

اب وقت کی ضرورت ہے کہ اس طرف اور دنیا میں اس تحریک کے نمائندے ایسے ہوں جو اس مسئلہ کو صنعت کے طور استعمال نہ کریں۔

عوامی رائے کے مطابق آزاد کشمیر میں کئی ایسے سیاسی قد کاٹھ کے لوگ ہیں جو تحریک کو حقیقی طور پر اقوام عالم اورپاکستان کے گلی کوچوں تک پہنچا سکتے ہیں اور ایسے بہروپیوں سے جان چھڑائی جاسکتی جو مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کی مظلومیت کی آڑ میں کاروبار کر رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے