ہاتھ گھل جاتے ہیں پھر کوزہ گری آتی ہے

مائنس ون کا فارمولا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اول روز سے رائج ہے. غلام محمد بوگرا کے دور سے لیکر آج تک ایسٹیبلیشمنٹ نے اپنے ہی تراشے ہوئے بتوں کو گرانے کیلئے اسی فارمولے کا سہارا لیاِِ یہ فارمولا نہ تو فاطمہ جناح کو زیر کرنے پایا اور نہ ہی شیخ مجیب کو مشرقی پاکستان کی علحدگی سے روکنے پایاِ اس فارمولے کے تحت نہ تو بھٹو کو سیاسی طور پر ختم کیا جا سکا اور نہ ہی بی بی کو ِ اسی فارمولے کے تحت باچا خان اور اکبر بگٹی کی سیاسی سوچ بھی ختم نہ کی جا سکی. یہ فارمولا نہ تو زرداری کو سیاسی طور پر ختم کرنے پایا اور نہ ہی نواز شریف کو اس سے فرق پڑاِ لیکن نہ جانے کیوں وطن عزیز کی ایسٹیبلیشمنٹ آج بھی اسی ناکام فارمولے کو بار بار آزمانے پر بضد دکھائ دیتی ہے.

اگر ملکی سیاسی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ملکی سیاست میں دو سیاسی رہنماوں یا خاندانوں کی گہری چھاپ اور گرفت دکھائ دیتی ہے.بھٹو خاندان اور شریف خاندانِ ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی بت بھی اسٹیبلیشمنٹ کے بت خانے میں تراشا گیا اور نواز شریف کے بت کو تراشنے والے ہاتھ بھی ائسٹیبلیشمنٹ کے تھے. ان دونوں بتوں کو صناعی دینے اور سیاسی دھڑکنیں عطا کرنے کے بعد جب بت سازوں کو یہ ادراک ہوا کہ اب یہ بت صنم خانے کے خدا بنے جاتے ہیں تو بت سازوں نے دونوں بتوں کو پاش پاش کر دیاِ بھٹو کے بت کو توڑنے کیلئے اصغر خان اور پی این اے تحریک کا سہارا لیا گیا اور بالآخر اس کو پاش پاش کر دیا گیاِ لیکن بھٹو کا بت گرنے سے پہلے اتنے پجاری پیدا کر گیا کہ آج بھی اس کو پوجنے والے موجود ہیں اور اس کی سیاسی جماعت کو اس کے جانے کے بعد تین دفعہ مرکز میں وزارت عظمی تک بھی پہنچا چکے. دوسری جانب نواز شریف کے سیاسی بت کو تیار کرتے وقت کوزہ گروں نے ہلکی مٹی اور پتھر کا استعمال کیا تا کہ یہ بت بھی بھٹو کی طرح درد سر نہ بن جائے.لیکن نواز شریف اپنے سیاسی ان داتاوں کی سوچ سے زیادہ تیز اور معاملہ فہم نکلا.بھٹو کی طرح جب اسے بھی پاش پاش کرنے کی کوشش کی گئ تو اس نے وقتی طور پر جھک کر صنم خانے سے روپوشی اختیار کی. روپوشی کے دوران اسے ادراک ہوا کہ صنم خانے میں بت تراشوں کو بت بنانے اور تباہ کرنے کے اس کھیل سے روک کر. اور پجاریوں کو شعبدہ بازیوں سے متاثر کر کے ہی مستقل طور پر بت خانے کا تسلط اپنے پاس رکھا جا سکتا پے.

اس نے مناسب وقت کا انتظار کیا اور صنم خانے کے پہلے بت تراش کو ایک چھوٹے سے بت کے زریعے وکلا تحریک کے سہارے شکست دیکر اس کی آمریت کا باب بند کر دیا. بت تراشوں کیلئے یہ صورتحال یکسر نئی اور حیرت انگیز تھی کہ وہ پمیشہ سے ملکی سیاست میں بت تراشتے اور گراتے آئے تھے لیکن کبھی کسی بت نے ان پر جوابی وار کر کے خود ان میں سے ایک کو ہی اپنے ہی بنائے ہوئے صنم ْخانے سے باہر نہیں نکالا تھا. خیر بت تراش اس سیاسی حملے کے بعد اپنے آپ کو بچانے. اور ایک نیا بت تراشنے میں مصروف ہو گئے اور اس دوران نواز شریف نے صنم خانے کے چھوٹے چھوٹے بتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے صنم خانے میں دوبارہ سے سیاسی ناخدا کا منصب سنبھال کیا. کوزہ گر اور بت تراش اس دوران ایک اور بت تیار کر کے اسے بت خانے میں لے آئے لیکن اب کی بار پجاریوں نے بت سازوں کے اس کھیل کو پہچان لیا اور نئے بت کو سیاسی دھڑکنیں دینے سے انکار کر دیا. بت تراشوں نے اس بت کو مصنوعی سیاسی تنفس پر زندہ رکھا اور الیکٹرانک جوگیوں کے سہارے اسے ناخدا بنانے پر مصر رہے. کہ نواز شریف کے بت کو گرانے کیلئے اس نئے سیاسی بت پر بے حد محنت اور کاریگری کی گئ تھی اور نعاز شریف کا سیاسی بت خود بت تراشوں اور مجسمہ سازوں کیلئے ایک مستقل خطرہ تھاِ کیونکہ بت تراشوں سے بہتر بھلا کون یہ جان سکتا ہے کہ جن بتوں کو ہاتھوں سے تراشا جاتا ہے وہ بت خود ان ہاتھوں کی کاریگری سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں .

بت تراشوں کو یہ ادراک ہو چکا کہ نواز شریف کا بت سیاسی صنم خانے میں اب نہ تو ڈھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی گرایا جا سکتا ہے.چنانچہ بت تراشوں نے ایک آخری داو استعمال کرنے کا سوچا. یہ وہی داو ہے جس کو آزما کر نواز شریف نے بت تراشوں کو شکست دے کر صنم خانے میں دوبارہ انٹری دی تھی. بت تراش اب نواز شریف کے بت اور اپنے ایک اور بت جو مصنوعی سیاسی تنفس پر زندہ ہے دونوں کو پاش پوش کرناچاہتے ہیںِ تا کہ ایک نیا بت تراش کے پجاریوں کے سامنے لایا جائے. مصنوعی تنفس پر کھڑے بت کو جانے نہ جانے سے کوئ فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس دن بت تراشوں نے سیاسی وینٹیلیٹر اتارا اس کا خاتمہ خود بخود ہو جائے گا. لیکن نواز شریف جانتا ہے کہ بت تراشوں کے ترکش میں اب جو "تیر” ہے وہ کارگر نہیں رہا. آپ نواز شریف کے بت کو پوجتے ہوں یا کسی اور سیاسی بت کو ,لیکن بہر حال آپ کو یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ملکی سیاسی صنم خانے میں نواز شریف وہ واحد بت ہے جو نہ صرف بت تراشوں کے کھیل کو پہچان گیا بللکہ ان میں سے ایک کو پچھاڑ بھی دیا. بت تراش جانتے ہیں کہ سیاسی صنم کدے میں اگلی باری بھی انہی کے تراشے ہوئے باغی بت کی ہے اور اگلی باری میں وہ بت ان ہاتھوں کو مزید بت بنانے سے روکنے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے .یہ وہ صورتحال ہے جو بت تراشوں کو ہر چند قبول نہیں. لیکن قباحت یہ ہے کہ پجاری نواز شریف کے بت کی صنم خانے میں اب بھی پرستش کرتے ہیں . بت تراش سیاسی صنم خانے کو ڈھا بھی نہیں سکتے کہ ایسا کرنے کی صورت میں بڑے بت ساز انعام و اکرام کی بارشیں ختم کر دیں گے اور بت سازوں کو بت بنانے اور دوبارہ سے ایک نیا سیاسی صنم کدہ تعمیر کرنے کیلئے نہ تو وسائل مہیا ہوں گے اور نہ ہی معاونت. بہرحال بت تراش صنم خانے کو ہی ڈھا دیتے ہیں یا نواز شرئف کا بت ان بت تراشوں کو .اس کا فیصلہ یقینا مستقبل قریب میں ہو جائے گا. لیکن ایک بات تو طے ہے کہ صنم کدے کا یہ سیاسی بت سیاسی صنم کدے کو ساتھ لے کر ہی پاش پاش ہو سکتا ہے اور شاید بہت سے بت تراشوں کو بھی. شاید بت تراشوں کو نواز شریف کا بت تراشتے ہوئے اس بات کا فہم نہیں تھا کہ نواز شریف ایک دن خود کوزہ گر بن جائے گا اور پھر خود چھوٹے چھوٹے بت تراش کر خود بت سازی کے اس کھیل میں اپنا حصہ مانگے گا.

بات شروع ہوئی تھی مائنس ون فارمولے سے جو کبھی بھی کامیاب نہیں ہوا اسی لیے شاید اب مائنس فور کے فارمولے پر عمل کیا جا رہا ہے لیکن فارمولا چاہے مائنس ون ہو یا مائنس فور اس میں بنیادی خامی یہ ہے کہ یہ فارمولا ریاضی کی منطق اور علم پر تو بالکل صیح لاگو ہوتا ہے لیکن سیاست پر نہیں. میدان سیاست کی لاجک ریاضی کے پلس مائنس کے فارمولوں سے نابلد بھی ہے اور مختلف بھی. بہرحال نواز شریف نے ایک بت سے بت تراش یا کوزہ گر بننے کا مرحلہ تین دہایوں میں طے کیا ہے جسے دیکھ کر عباس تابش صاحب کا شعر یاد آتا ہے کہ ” اس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی..ہاتھ گھل جاتے ہیں پھر کوزہ گری آتی ہے ” ِ اب سیاسی بت سے سیاسی کوزہ گر بننے والے نواز شریف کو کم سے کم سیاسی بتوں کے ذریعے نہیں گرایا جا سکتاِ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے