عقل ،ایمان اور اسلام

خدا کا تصور ہر دین و مذہب میں پایا جاتا ہے۔ خدا کا انکار کرنا بھی خود اپنے اند ر ایک عقیدہ ہے۔ مذہبی فکر رکھنے والوں میں اس تصور کی کچھ زیادہ ہی اہمیت ہے ۔ اتنی اہمیت کہ وہ خدا ، ایمان اور انکے مذہب سے جڑی کسی بھی بات پر عقلی دلائل کے ساتھ سوال کرنے اور اختلاف کرنے کو حرام و کفر سمجھتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اسلامی سمجھا جاتا ہے اسلیے اسلام کے تقاضوں کے مطابق اللہ پر ایمان رکھنا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔
کچھ دنوں پہلے ایک معتبر و معظم مسلم شخصیت سے اس بات کو لیکر مباحثہ آرائی ہوگئی کہ کیا ایمان عقل کا حصہ ہے ۔ وہ اس بات کے انکاری تھے۔ میں اس بات پر یقین رکھنے والوں میں سے ہوں کہ ایمان عقل کا حصہ ہے ۔البتہ ایمان لانے کے بعد جذباتیت آجائے ،وہ الگ بات ہے۔ لیکن ایمان خود عقل کا حصہ ہے۔

میں خود ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوا تو اسلیے مسلمان ہوں ۔ اگر ہندو کے گھر پیدا ہوتا تو شاید کسی مورتی کے آگے ہاتھ جوڑتا ۔ کسی عیسائی کے گھر پیدا ہوتا تو عیسیٰؑ کو اللہ کا بیٹا مانتا ۔ نیز کسی بھی مذہب میں پیدا ہوتا تو اسی کی تعلیمات کے مطابق جذباتی طور پر زندگی گذارنے پرآمادہ ہوتا۔ حالانکہ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا ماننا ہے کہ ہر انسان دینِ حق یعنی اسلام کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن پھر یہاں بات آتی ہے کہ دینِ حق تو میرے لیے اسلام ہے کیونکہ میں مسلمان ہوں ۔ ایسے ہی دوسری ادیان و مذاہب لے لیے ان کے دین و مذہب حق و سچ ہیں ، باقی باطل۔ کیونکہ بقول، ایمان تو جذبات کا حصہ ہے۔ پھر آخر دینِ حق کا کیسے پتا چلے؟

ایمان کو جذبات کا حصہ سمجھ کر ہر بات کے آگے ہم "فُل سٹاپ”ہمیشہ سے لگاتے آئے ہیں۔ مگر یہاں بات رکتی نہیں ہے بلکہ ایک سوالیہ نشان کے ساتھ الحاد کو جِلا بخشتی ہے۔ حالانکہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے اور کہلوانے والے حضرات جن کا اس بات پر مصمم ایمان ہے کہ ایمان جذبات کا حصہ ہے عقل کا نہیں تو انھیں چاہیئے کہ کم از کم اسلامی تعلیمات کا ہی مطالعہ کریں ۔

قرآن جو ایک اسلامی آسمانی کتاب ہے جس پر تمام مسلمانوں کا ایمان ہونا ، خود ایمان کا حصہ ہے ، اس کے برعکس بات کرتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ سبحانہ تعالیٰ صرف انسانوں اور ایمان والوں سے مخاطب ہے۔ کہیں کوئی بات سارے انسانوں کے لیے ہے اور کہیں کوئی بات صرف ایمان والوں کے لیے ۔ یعنی انسان میں ایمان والا ہونا اپنے اندر ایک یکسانیت رکھتا ہے۔قرآن میں پھر مزید غور کیا جائے تو اللہ عقل والوں کا تذکرہ بار بار دہراتا ہے کہ جس میں وہ اپنی تخلیق پر فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

"بے شک آسمان اور زمین کی پیدائش اور دن اور رات کا بدلنااور کشتی کہ دریا میں لوگوں کے فائدے کے لیے چلتی ہے اور وہ جو اللہ نے آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو جِلا دیا اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھلائے اور ہواؤں کی گردش اور وہ بادل کے آسمان و زمین کے بیچ میں حکم کا باندھا ہے ان سب میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں” (سورۃ البقرہ، آیت 164)

ہر مسلمان عقلمند ہو یہ ضروری نہیں ، اور نہ یہ ضروری ہے کہ ہر انسان عقلمندیا ایمان والا ہو۔ یعنی اللہ پاک نے عقلمند خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ہو اسے مشاہدے کرنے کی دعوت دی ہے۔ اگر مسلمان ہوگا تو اسکا ایمان اور پختہ ہوجائے گا اور اگر غیر مسلم ہوگا تو اس کو اللہ کے واحد معبود ہونے کے شواہد ملیں گے۔ حتیٰ کہ اللہ تو اپنی کتاب میں سوچنے کا حکم دیتا ہے اور صرف عقل والے ہی سوچتے اور ماننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اللہ کے نزدیک بھی جذبات سے ایمان لانے کی کوئی حیثیت نہیں۔

"یہ ایک کتاب ہے کہ ہم نے تمہاری طرف اتاری برکت والی تاکہ اسکی آیتوں کو سوچیں اور عقلمند نصیحت مانیں۔”(سورۃ ص، آیت 29)

تو اگر ہم ایمان کو عقل نہیں صرف جذبات کا حصہ سمجھتے ہیں تو ہم اللہ کے کلام کو کیسے مانتے ہیں۔ یہ بات ضروری ہے کہ پہلے عقل کی بنیادوں پر پر کھا جائے۔ ایک بار عقل میں بات آجائے تو پھر جذبات شروع ہوتے ہیں۔ اس بات پر مثال دی جاتی ہے کہ عشق ایک آفاقی جذبہ ہے جس میں عقل ماند پڑجاتی ہے۔ لیکن اگر حقیقی طور پر دیکھا جائے تو پہلے عشق میں بھی عقل کو بہلانا پڑجاتا ہے۔

” بے شک ان کی خبروں سے عقلمندوں کی آنکھیں کھلتی ہیں ، یہ کوئی بناوٹ کی بات نہیں لیکن اپنے اگلے کاموں کی تصدیق ہے اور ہر چیز کامفصل بیان اور ایمان والوں کے لیے ہدایت و رحمت” (سورۃ الیوسف، آیت 111)

اس آیت کے بعد بھی کوئی مجھے کسی امام کا واقعہ سنائے جو وضوکیے بغیر نماز پڑھانے پر عذاب نہ آنے کی وجہ سے عیسائی ہوگئے تھے ، تو انھیں سلام کرکے آگے بڑھنے کا حکم اللہ نے سورۃ الفرقان کی آیت 63 میں دیا ہے۔ جو عقل کا استعمال کیے بغیر ایمان کو ہدف کرتا ہے تو اس کے انجام سے اچھی امید رکھا مشکل ہے۔

عقل اپنا کام پہلے پورا کرتی ہے پھر محوِ تماشا بنتی ہے۔ عقل والوں سے تو رب تعالیٰ بھی بات کرنا پسند کرتا ہے۔ پورے قرآن میں اللہ نے مسلمان کو مخاطب نہیں کیا ۔ اگر کیا ہے تو صرف ایمان والوں کو۔ اس بات کا صرف اتنا مطلب ہے کہ ایمان والے وہ انسان ہیں جو عقل کی منزل کو طے کر آئے ہیں ۔ اللہ کے نزدیک بھی شاید ان مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں جو محض صرف اس لیے مسلمان ہیں کہ وہ کسی مسلمان گھر میں پیدا ہوئے یا کسی نام نحاد اسلامی جماعت کا حصہ ہیں ۔ عقل ایمان کا بنیادی جز ہے ۔ ایک بار بنیاد مضبوط قائم ہوجائے تو اس پر جذبات کی عمارت بہت اونچی اور مضبوط بنائی جاسکتی ہے۔

"بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے باہم بدلنے میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جو اللہ کی یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں۔” (سورۃ آلِ عمران، آیت 190-191)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے