حج اور سیلفیاں

بڑی حیرت کا سامنا کرنا پڑا ہے مجھے۔۔ میں نے کئی اسلامی کتب چھان ماریں ہیں مگر حج کے ارکان میں، عازم حج کے فرائض میں یا حج کی شرائط میں ایک انتہائی اہم کام تحریر کرنا سب بھول گئے۔

کمال لوگ تھے یہ کتابیں تحریر کرنے والے۔۔ بھلا بتائیے حج کے ارکان پانچ بیان کیے گئے ہیں ۔ان میں پہلا احرام، دوسرا سعی، تیسرا عرفات میں رکنا، چوتھا طواف اور پانچواں ہے بال چھوٹے کروانا۔۔ یعنی جو سب سے اہم رکن ہے وہ کسی نے لکھا ہی نہیں یعنی ۔۔ گھر سے روانہ ہوتے وقت، مدینة الحجاج میں قیام، جہاز میں سوار ہوتے ، مکہ میں لینڈنگ کے بعد، عرفات اور مزدلفہ میں ہر جگہ ، حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت، طواف کرتے ہوئے، شیطان کو کنکریاں مارتے۔۔ ہر جگہ ہر وقت سب سے پہلے سیلفی اتارنے کا اہم فرض تو کہیں کسی عالم نے بیان ہی نہیں کیا۔

حالانکہ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر آپ نے حج کیا اور ہر موقع پر سیلفی نہ بنائی تو مکمل ثواب نہ مل پائے گا۔۔ جیسے آپ حج اللہ پاک کی خوشنودی کے لیے نہیں بلکہ فیس بک فرینڈز کے لیے کرنے جا رہے ہیں۔

کہاں گئیں وہ باتیں جب گئے وقتوں میں حاجی صاحبان واپس آ کر کہانی بیان کیا کرتے تو کافی وقت گزرنے کے باوجود مکہ و مدینہ میں گزارے لمحات بیان کرتے ہوئے ان کی آنکھیں نم ہو جایا کرتی تھیں۔ غالباً وہ بہت حساس لوگ تھے یا اب بہت زیادہ بے حس لوگ ہیں، پہلے پہل جاتے ہوئے فرمائشیں ہوا کرتی تھیں وہاں سے تسبیح اور جائے نماز لانا، آب زم زم لانا نہ بھولنا۔۔ لیکن اب غالباً کوئی بھی رشتے دار ہو ایسی کوئی فرمائش نہیں کرتا بس حج سیلفیوں کو دیکھ کر ثواب کے طور پر لائک کیے جاتے ہیں۔ اب تو لوگ خانہ کعبہ سے بذریعہ فیس بک لائیو بھی ہو جاتے ہیں، کئی دوست واٹس ایپ کے مختلف گروپوں میں دوستوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔

حج پر گئے ہوں مگر ہر دوست کی سالگرہ پر فیس بک پر پیغام بھی پہنچانا ضروری ہوتا ہے،ایک حاجی صاحب کا پیغام فیس بک پر موصول ہوا جس میں انہوں نے استدعا کی تھی کہ ان کو فلو کی شکایت ہے اس لیے دوست احباب ان کے لیے دعا کریں، اس سٹیٹس پر ان کو ریکارڈ پانچ سو کے قریب لائیکس ملے اور جہاں ہر دوست نے گیٹ ویل سون کا میسج بھیجا وہاں ان سے دعاؤں میں یاد رکھنے کی اپیل بھی کی، حد ہے ۔۔ جو شخص خود فلو کا شکار ہے اس سے دعا کی اپیل کرنا تو مجھے خود غرضی سی محسوس ہوئی۔۔ ویسے ایک دوست کا لطیفہ بھی یاد آ گیا جو حج پر گیا اور بیمار پڑ گیا تو اس نے دوست کو فون کر کے کہا یار میری طبیعت کچھ خراب ہے ذرا داتا صاحب جا کر میرے لیے دعا کر آنا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے میرے والد مرحوم جناب انوار فیروز بطور صحافی۔۔جنرل ضیاء الحق کے ساتھ دورہ ترکی پر گئے ، ترکی میں انہوں نے مدینہ منورہ میں حضور پاک ﷺکے میزبان حضرت ایوب انصاری  کے مزار پر حاضری دی، نامور نعت خواں قاری وحید ظفر قاسمی بھی ان کے ہمراہ تھے، ابو جی بتاتے تھے واپسی پر قاری وحید ظفر قاسمی صاحب نے پوچھا انوار بھائی ، آپ نے روضہ میزبان رسول پر کیا دعا مانگی؟

کہنے لگے میں نے بتایا کہ میں نے دعا کی ہے کہ یا اللہ۔۔ تو نے میزبان رسول کی زیارت نصیب کر دی ہے، روضہ رسول کی زیارت بھی نصیب ہو جائے ۔۔

کہنے لگے قاری صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے کہا میں نے بھی یہی دعا مانگی ہے۔ خیر دونوں حضرات جب واپس ہوٹل پہنچے تو جنرل ضیا الحق کے پریس سیکرٹری بریگیڈئیر صدیق سالک نے انہیں خوشخبری سنائی کہ جنرل صاحب کو سعودی فرمانروا نے واپسی پر سعودی عرب میں رکنے کی دعوت دی ہے اس لیے ہم سیدھا سعودیہ جا رہے ہیں۔

نم آنکھوں کے ساتھ ابو جی بتاتے تھے کہ ہم نے جب طیارہ سے باہر قدم رکھا تو پھر کسی چیز کا ہوش نہیں رہا، آنکھوں سے جو پانی برسنا شروع ہوا تو کچھ دکھائی نہیں دیا، آنکھ کھلی تو ہم روضہ رسول میں تھے جہاں کے دروازے وفد کے لیے کھول دیئے گئے تھے اور ہم نے وہاں نوافل ادا کیے۔ عمرہ بھی کیا ۔۔ لیکن کہتے تھے آنکھ میں ایسی جھڑی لگی تھی جو تھمتی ہی نہ تھی۔

آج کے حج و عمرہ کے حوالہ سے کہا جاسکتا ہے کہ سیلفیوں کی ایسی جھڑی لگی جو تھمی نہیں اور اب حاجی صاحب ائیرپورٹ سے سیدھا واپس آ کر جہاں بھابڑہ بازار سے آب زم زم کی بوتلیں خریدتا ہے، وہیں وہ اپنے حج کی تصاویر موبائل فون سے فوری لیپ ٹاپ میں بھی فوری منتقل کرتا ہے کیونکہ اتنی ساری وڈیوز اور تصاویر سے موبائل میں میموری ختم ہو جاتی ہے۔۔ڈیٹا ٹرانسفر کرنے سے ایک تو فون کی میموری بحال ہو جاتی ہے دوسرا تصویریں محفوظ بھی ہو جاتی ہیں۔

ایک اور بھی رواج جو حج یا عمرہ کے حوالہ سے بہت فروغ پا رہا ہے کہ ایک بار جو حج یا عمرہ کر کے واپس آ جائے بس پھر ہر سال وہاں ضرور جانا ہوتا ہے، ہر سال جو لوگ حج پر جاتے ہیں ان کے لیے ہمارا دوست اختر علی خان کہتا ہے ، حاجی وہ ہوتا ہے جو اللہ کی رضا کے لیے حج کرتا ہے جبکہ دوسری اور تیسری بار حج کرنے والے وہ ہوتے ہیں جنہیں اپنے پہلے حج پر یقین نہیں ہوتا۔۔ بہر حال یہ توبندہ کا اپنے اللہ کے ساتھ معاملہ ہے مگر ایک اور معاملہ ہے جو انتہائی سنگین ہے۔

ایک دوست نے بتایا ہے ، اب معلوم نہیں درست ہے یا غلط۔۔ دروغ بر گردن راوی۔۔۔ کہتا ہے اپنے ممنون حسین صاحب ۔۔ جی ہاں وہی والے ممنون صاحب جوہر سال کوئی دو تین مواقع پر اپنی زیارت پاکستانی قوم کو کرواتے ہیں یاپھر ہر بم دھماکہ پر جن کی تعزیت سب سے پہلے ٹی وی چینلز کو موصول ہوتی ہے ، وہ صدر ممنون حسین صاحب ایک مرتبہ پھر مفت حج پر چلے گئے ہیں، کہتے ہیں سعودی عرب والے انہیں جانے نہیں دے رہے تھے کیونکہ وہاں مفت حج کرنے والوں کو پانچ سال انتظار کرنا پڑتا ہے مگر صدر صاحب کو ابھی مفت حج کیے تین سال ہی ہوئے ہیں۔ اس لیے بڑی مشکلوں سے وزارت خارجہ نے یہ معاملہ حل کروایا اور پھر پی آئی اے نے بھی مفت ٹکٹ دیا کیونکہ اپنے صدر صاحب غریب آدمی ہیں اس لیے جہاں باقی سب مفت ہو رہا ہو وہاں ایک ٹکٹ کا کیا مسئلہ۔۔

دیکھتے ہیں اب اپنے صدر صاحب کی سیلفیاں کب سوشل میڈیا کی زینت بنتی ہیں کیونکہ یہ وہ واحد صدر ہیں جو اہم ملاقاتوں میں بھی اپنا موبائل فون جیب میں رکھ کر بیٹھتے ہیں اور ہماری طرح زوجہ کے پوچھنے پر آہستہ سے کہتے ہیں مہمان آئے ہیں بس تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔۔

چلیں اب میں بھی لکھنا بند کروں، میرے بھی کئی دوست حج پر گئے ہوئے ہیں ان سے میں نے چیٹنگ کرنی ہے ان کے سٹیٹس پڑھ کر لائیک بھی کرنے ہیں اور کمنٹس بھی دینے ہیں ورنہ پھر وہ لوگ میرے لیے آب زم زم اور عجوہ کھجور نہیں لائیں گے۔اور اگر آب زم زم نہیں آیا تو میں کیسے فیس بک پر اپنا سٹیٹس لگاؤں گا۔۔ آب زم زم پیتے ہوئے ۔۔ عجوہ کھجور منہ میں ڈالتے ہوئے سیلفی بنانے کا اپنا ہی مزا ہے۔ ویسے حج پر گئے دوستوں میری کھجوریں اور آب زم زم یاد رکھناورنہ اگلی مرتبہ تمہارے فیس بک پوسٹس پر لائیک نہیں دوں گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے