نائن الیون”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستمبر کی گیارہ تاریخ یا نائن الیون دنیا کے کسی ملک کسی شہری کو کبھی نہیں بھول سکتی ، بلکہ ہرسال زخم پھر سے تازہ ہوجاتا ہے، جب جب نائن الیون پر لکھنے کے لیے قلم اٹھاتے ہیں تو لفظ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، قلم لکھنے کو تیار نہیں ہوتا۔
گزشتہ سال نائن الیون آئی تھی جمعہ کو، دل انجانے خوف سے مضطرب تھا،نماز جمعہ میں بخشش و مغفرت کی دعائیں بڑھ گئیں، روتے ہوئے کب آنکھ لگی معلوم نہیں ہوالیکن گھبراہٹ سے جلد ہی شعوری دنیا میں واپس آگئے۔
تمام کاموں سے فراغت کے بعد فیس بک پر آئے تو قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کا واقعہ پڑھا،
ایک عظیم لیڈر سگنل کھلنے کے انتظار میں مکھیوں کے درمیان آخری سانسیں لے رہا تھا، اور ایک خاتون سرہانے بیٹھے دوپٹے سے ہوا جھل رہی تھیں ،یہ تھا 1948 جب۔۔۔ نائن الیون نے پاکستان سمیت کئی عالمی رہنماوں کو رنجیدہ کردیا تھا۔
نائن الیون۔۔۔۔یہ لفظ بار بار گونجتا رہا، تاریخ کے اوراق سے گرد ہٹائی ۔۔۔
سن 2001 میں دو طیاروں نے دنیا کے سب سے بڑے تجارتی مرکز کو ملیا میٹ کردیا،،،110 منزلہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر امریکا کے دو ٹاورز42 منٹ کے اندر زمین بوس ہوچکے تھے، آگ ، دھوان ، ملبہ ، خون اور آہ وبکا ۔۔۔۔ 3 ہزار افراد یک دم موت کی نیند سو چکے تھے، ہزاروں زخمی تھے۔ ،ایک بار پھرعالمی برادری نوحہ کناں تھی اور ہر آنکھ نم ۔۔
2012 میں ایک اور نائن الیون ہوا۔۔۔ جب کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاون کی گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگ گئی، بھاگ نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا، فیکٹری بہت تنگ اور گھٹن والی تھی ، اور تمام دروازوں پر تالے ، کھڑکیاں، روشن دان نہ ہونے کے برابر۔۔
آگ بھڑکتی رہی ، فیکٹری کے اندر لوگ مدد کو پکارتےرہے ، فیکٹری کے باہرلوگ اپنی مدد آپ کے تحت پانی بجھانے کی کوشش کرتے رہے ، فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آئیں ،پانی برسایا لیکن ناکافی تھا، سنارکل بھی آن پہنچی لیکن اتنی بڑی فیکٹری سے لوگوں کے انخلاء کے لیے ایک اسنارکل کیا کرتی۔۔ فیکٹری میں پانی بھر گیا ، بوائلر پھٹ گیا،
گرمی بڑھتی گئی ، آگ بھڑکتی رہی ، پانی اُبلنے لگا، دھواں بھرنے لگا،،،
ایک قیامت کا سا منظر تھا، کچھ لوگ ایک کھڑکی سے نکلنے کی کوشش کررہے تھے ، تپش کے باعث پگھل کر گرنے لگے، کٹ کر مرنے لگے ، دم گھٹنے سے مرنے لگے، پانی میں ابل گئے، آگ سے جھلس گئے،
آہ ۔۔۔۔ آہ ۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔
کسی نے آج تک وہ دروازہ نہ کھولا، آگ لگنے کی اور بڑھنے کی وجہ معلوم نہ ہوسکی ، شام کو لگنے والی آگ اگلی صبح تک سب کچھ نگل گئی ،،، 300 کے قریب افراد جان سے گئے۔
نائن الیون کے سارے واقعات ایک بعد ایک آنکھوں کے سامنے تیرگئے،
دل افسردہ ہوتا گیا، خون کے آنسو روتا گیا، دماغ گن ہوگیا۔
ٹی وی کا رُخ کیا، عصر اور مغرب ملنے لگے۔۔سورج ڈوبنے لگا،
اک خبر نے دل دہلا دیا، سعودی عرب میں گردوغبار کے شدید طوفان نےسب کچھ گڑبڑادیا، دیو ہیکل اشیا اور انسان سوکھے پتوں اور کاغذکی طرح اڑنےلگے، انتہائی تیز بارش شروع ہوگئی،ہاتھ کو ہاتھ سوجھائی نہ دیا، آنکھ کو کچھ نظر نہ آیا، مسجد الحرام میں موجود عازمین حج کی عبادت میں خلل ڈلنے لگا،
یک دم بجلی چمکی اور ایک بھاری بھرکم کرین ہوا میں لہرانے لگی، اور چشم زدن میں حرم کا دلان سے ہوتی ہوئی، تعمیراتی دیوار سے ٹکرائی، پھر صفاو مروہ کی طرف جانے والی جگہ کو نقصان پہنچایا اورگری دروازہ کعبہ کے سامنے، مقام ابراہیم کے بالکل عقب میں،،، جہاں طواف مکمل کرنے کے بعد دو نفل پڑھنے اور آب زم زم پینے کا بے انتہا ثواب ہے ، اور باقی حرم کے نسبت وہاں سب سے زیادہ رش ہوتا ہے
ہر طرف خون بکھر گیا، کٹے لاشے نظر آنے لگے ، خوشی،عبادت اور سکون کے لمحات چیخ و پکار، آہ و بکا میں بدل گئے، لوگ اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے لگے،مدد کو پکارنے لگے۔
یہ تھا وہ واقعہ ۔۔۔ جو ایک اور نائن الیون بننے جارہا تھا،
110 کے قریب عازمین حج ۔۔ شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئے ، 250 زخمی ہوئے، جنھیں اسپتالوں میں سہولیات فراہم کی جانے لگیں،
اور ہر طرف سعودی حکومت کی ناقص کارگردگی پر سوال اٹھنے لگے، میڈیااور سوشل میڈیا پر تصاویر، ویڈیو اور تبصروں کی بھرمار ہوگئی، جس کے منہ میں جو آیا اس نے کہا،
کسی نے شہادت اور ناگہانی موت پر سوال دراز کیا تو کسی نے حرم میں ناحق خون بہنے پرکانوں کو ہاتھ لگایا،
اب اس سب پر افسوس کریں یا رشک ۔۔۔ سمجھ سے بالا تر ہے۔
سنتے آئے ہیں ، جو عمرہ و حج کی نیت سے گھرسے نکلے اور راستے میں انتقال کرجائے ،،، روزِ قیامت تک اس کے لیے حج و عمرے کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے ،، بالکل اسی طرح جیسے جو علم کی تلاش اور حلال رزق کی تلاش میں گھر سے نکلے اور موت آلے، تو وہ شہید ہے ،،

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے