ہندو مذہب اور رسومات کے بارے میں غلط فہمیاں

پاکستان میں ہندو صرف 2 فیصد سے کم ہیں۔ اس لئے بہت سارے لوگوں نے ان کے بارے میں صرف سنا ہی ہوتا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ہندو بُت پرست ہیں۔ یہ لوگ لاکھوں دیوی اور دیوتاوں کو پوجتے ہیں۔ گائے کی پوجا کرتے ہیں۔ پر کیا ہم ہندو بھی ایسا مانتے ہیں؟

ہندو مذہب غالباً دنیا کا قدیم ترین مذہب ہے۔ مسیحت اور اسلام کے بعد ہندو دھرم دنیا کا تیسرا بڑا مذہب ہے۔ رگ وید اندازاً 4000 سال پرانے ہیں جو ہندو دھرم کا سب سے پرانا اور سب سے مقدس صحیفہ سمجھا جاتا ہے۔

ہندو مت میں کئی رسومات صرف مذہبی حیثیت ہی نہیں بلکہ معاشرتی حیثیت کی بھی حامل ہوتی ہیں۔ ان رسوم کا مقصد زندگی اور رہن سہن کے بارے میں درست راہنمائی فراہم کرنا ہے۔

ہندو دھرم کے ماننے والے ایک بڑی طاقت یعنی ایشور کو مانتے ہیں۔ اس ایک ہستی تک رسائی کے کئی طریقے ہیں اور ان کو ہم دیوی دیوتاوں کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ یعنی اُس ایشور سے رابطہ کرنے کے مختلف طریقے کار ہیں۔

کوئی بھی ہندو یہ بات نہیں مانتا کہ وہ بُت پرست ہے۔ ان مورتیوں میں ہندو بھگوان ایشور کا روپ دیکھتے ہیں۔ اس طرح سے ہمارے دھیان لگانے اور عبادت کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔

کافی لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ ہم گائے کی پوجا کرتے ہیں۔ دوسرے مذاہب کی طرح، ہندو دھرم پُر امن معاشرہ چاہتا ہے۔ ہمارا مذہب ہمیں سمجھاتا ہے کہ کسی جانور کو مارنا ایسا ہی ہے جیسے کسی انسان کو مارنا ہے۔

ہمارا یقین ہے کہ ہر جاندار، چرند اور پرند میں آتما ہوتی ہے اور یہ سب جاندار مخلوقات ہمارے لیے قابلِ احترام ہیں۔ اسی طرح، گائے کا احترام ہم اس لیے کرتے ہیں کہ دُودھ دینے کے علاوہ اس کے اور بھی فائدے ہیں۔ اس وجہ سے ہم اس کا گُوشت نہیں کھاتے۔ ہم ان کی پُوجا نہیں کرتے بلکہ ان کو عزت و احترام کےساتھ دیکھتے ہیں۔

ہندو دھرم گوشت نہ کھانے کی مکمل پابندی نہیں لگاتا کیونکہ ایسے کئی ہندو ہیں جو گوشت کھاتے ہیں۔ مگر ہندو دھرم اس بات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ گوشت نہ کھایا جاۓ تاکہ جانوروں کو تکلیف نہ دی جاۓ بلکہ سبزی اور دالیں وغیرہ کھائی جائیں۔

ہندوں کو یہ بھی طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ درخت اورپودوں کی پُوجا کرتے ہیں، خاص طور پر پیپل کے درخت کی۔ یہ درخت نہ کوئی پھل دیتا ہے اور نہ ہی اس کی لکڑ کسی استعمال میں آتی ہے لیکن یہ درخت بھاری مقدار میں آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ اسی لئے شری کرشنا، مہاتما گوتم بدھ اور دوسرے سادھو سنتھ اس درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کے عبادت کرتے تھے۔

اس کے علاوہ پیپل کا درخت آئرویدک علاج میں بہت مفید ہے۔ اس کے پتے خون کی بیماریوں، خون کی کمی، اندھا پن، ملیریا، زکام، دمہ، کھانسی اور سر درد کے لیے مفید ہے۔

اسی طرح تُلسی کو مذہبی طور پر ایک بڑا مقام حاصل ہے کیونکہ یہ بھی میڈیکل پوائنٹ آف ویو سے کافی فائدہ مند اور اینٹی بائیوٹک ہے۔ اسی وجہ سے پُرانے دور سے لیکر اب تک اس کو گھروں میں رکھا جاتا ہے اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی موجودگی سے سانپ گھر میں داخل نہیں ہوتے۔

لہذا یہ تاثر بلکل غلط ہے کہ ہم پیپل اور تُلسی کی پُوجا کرتے ہیں۔ ہم ان کے فوائد اور خوبیوں کی وجہ سے ان کو سراہتے اور پوتر سمجتے ہیں۔ اسی وجہ سے ھم ان کے قریب پوجا کرتے ہیں۔

ہندو دھرم انسانوں کو چار طبقات میں تقسیم کرتا ہے: 1۔ برھمن، 2۔ کشتریہ، 3۔ ویش اور 4۔ شودر۔ برہمن اُسی طرح سے استاد ہیں جیسے کہ پادری یا عالم۔ کشتریہ کا کام حکمت چلانا ہے۔ ویش مویشی، زراعت ، فنکار اور کاروبار کا کام کرتے ہیں۔ شودر مزدور اور خدمتگار ہیں۔

کوئی بھی کام کسی سے برتر نہیں۔ یہ تقسیم صرف تنظیمی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لئے کیا گیا تھا۔ حالانکہ قدیم دور میں یہ چار طبقے گاڑی کے چار پہیوں کی مانند تھے اور یہ چاروں طبقے سماج کی بہتری انتہائی ضروری بھی مانے جاتے تھے۔

اپنی ذھانت اور قابلیت کی بنیاد پر آج کل لوگوں کے پس منظر ان کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ذات کا نظم ہندو دھرم میں پیدائش سے منسلک ہے۔ ہمارے اوتار بھگوان رام کے بارے ایک مشہور کہاوت ہے۔ شرئی رام نے کبھی بھی اونچ اور نیچ کو کبھی ترجیح نہیں دی اور کسی سے تفریق اور نفرت نہیں کی تھی۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عورت جس کا نام شابری تھا اور وہ ایک نچلی ذات سے تعلق رکھتی تھی، اس نے اوتار رام کو کھانے کے لیے بیر پیش کیے۔

شابری ہر بیر کو آدھا چکھ کر دیتی تاکہ شری رام کو صرف میٹھے بیر دیے جائیں۔ اس پر ان کے بھائی لچھمن نے منع کیا کہ بھائی آپ یہ بیر نہ کھائیں کیونکہ یہ اس نچلی ذات کی عورت چکھ کر دے رہی ہے۔

بھائی کے منع کرنے کے باوجود اُوتار شری رام نے وہ سارے بیر کھائے اور اس عورت کے پیار اور خلوص کی تعریف کی۔ اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذات پات کا رواج ہمارے مذہب میں نہیں ہے لیکن کچھ لوگوں کے ذہن کی پیداوار ہے۔

ہندو مذہب کبھی بھی ذات کے نظام پر یقین نہیں رکھتا۔ ہندو ہونے کے ناطہ سے مجھے اچھا نہیں لگتا جب کوئی مجھ سے میری ذات پوچھتا ہے۔ میرے والدین نے کبھی ذات پات کی تلقین نہیں کی۔ انہوں نے بچپن ہی سے یہ سوچ دی کہ ہم سب برابر ہیں اور سب کو برابری کا حق دیا جانا چاہیے۔

ہر مذہب اچھا مذہب ہے اور تلقین کرتا ہے کہ ہم سیدھی راہ پہ چلیں۔ ہندو مذہب انسانیت، امن اور برابری کو فروغ دیتا ہے۔ ہندو مذہب کرما کے فلسفے پہ یقین رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس زندگی میں اچھے کام کرینگے تو اگلے جنم میں اس کا اچھا پھل ملے گا۔ ہندو مذہب یہ کبھی نہیں کہتا کہ ہم دنیاوی خواہشات میں گم ہوجائیں بلکہ ہمیں سبق سکھاتا ہے کہ سادہی راہ پر چل کر سچی ، حقیقی اور خوشحال زندگی بسر کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے