طاہرالقادری اور شوگر مافیا

حال ہی میں علامہ طاہرالقادری نے بڑی شدومد کے ساتھ حکمرانوں کے خلاف پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ حکمران شریف خاندان کی شوگر ملوں میں بھارتی ملازمت کر رہے ہیں لہٰذا اس بنا پر وزیر اعظم ملک کے لئے سیکورٹی رسک ہیں۔

پاکستانی سیاست میں کبھی اسلام خطرے میں ہے۔قومی مفادات پر سمجھوتا ہو چکا ہے۔جمہوریت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔اس طرح کے بیانات تواتر سے دہرائے جاتے ہیں۔لیکن کبھی ہماری سیاسی جماعتوں نے عوام کو یہ بتانا گوارا نہیں کیا کہ چند لوگوں نے ہماری معشیت کو کیسے یرغمال بنایا ہوا ہے۔منڈی کو کیسے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ضروری اشیائے خوردو نوش کی قلت پیدا کر کے مصنوعی بحران کیسے پیدا کئے جاتے ہیں۔اور چند طاقتور مافیا اشیاء کی قیمتیں کیسے مقرر کرتی ہیں۔

سیاسی جماعتوں کو تو رہنے دیجئے کیونکہ یہ سیاسی جماعت میں موجود شوگر مافیا پارٹی کا پیغام عوام میں پہنچانے کے لئے وسائل مہیا کرتا ہے۔
ہمارے آزاد میڈیا اور معاشیات کے پروفیسروں نے بھی اس گٹھ جوڑ کو ایکسپوز کرنا گوارا نہ کیا۔

حکومت جہانگیر ترین پر قرضے معاف کرانے اور سبسڈی کے نام پر کروڑوں روپیہ وصول کرنے کے الزامات لگا رہی ہے تو دوسری جانب جہانگیر ترین وضاحتی بیان میں یہ فرما رہے ہیں کہ مذکورہ شوگر مل ان کے کزن جنرل (ر) اختر عبدالرحمان کے بیٹے ہمایوں اختر کی ہے جو اس وقت مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ راہنماء ہیں۔

جنرل ایوب خان کے دور اقتدار میں ڈاکٹر محبوب الحق نے اپنی معاشی تحقیق میں یہ ثابت کیا کہ ریاستی وسائل کی بندر بانٹ کے ذریعے آج بائیس خاندان مکمل دولت کے80فیصد حصے پر قابض ہیں۔جبکہ مشرقی پاکستان کے عوام مزید غریب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

ء میں پاکستان نے اتنی ہی ترقی کی ہے کہ آج یہ شوگر مافیا پچاس بااثر سیاسی خاندانوں پر مشتمل ہے جس کی نمائندگی ہر سیاسی جماعت2016
میں ہے ان کی رشتہ داریاں مختلف سیاسی جماعتوں پر محیط ہیں۔

جہانگیر ترین پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود کے بہنوئی ہیں۔مخدوم احمد محمود یوسف رضا گیلانی کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ہمایوں اختر جہانگیر ترین کے بھی کزن ہیں۔شوگر مل ایسوسی ایشن کے سابق صدر ذکا اشرف پیپلز پارٹی کے راہنماء ہیں اُن کی بہن اور بہنوئی مسلم لیگ کے سینیٹر چوہدری جعفر اقبال بھی ہیں۔تحریک انصاف کے رکن اسمبلی شفقت محمود ان کے کزن ہیں۔

شوگر مافیا پر مشتمل با اثر سیاسی خاندان جب اقتدار کے ذریعے سیاسی طاقت حاصل کر لیتے ہیں تو ایک با اثر لابی وجود میں آتی ہے جس کے ذریعے کسانوں کا استحصال ہوتا ہے۔

گنے کی خریداری اُدھار پر کی جاتی ہے اور یوں شوگر مل مالکان مہینوں اور سال کسانوں کامعاشی قتل عام کرتے ہیں ۔

حال ہی میں صرف حسیب وقاص شوگر مل مظفر گڑھ کے سات سو سے زائد زمینداروں کے گنے کی قیمت کے واجب الادا چالیس کروڑ روپے کی رقم دینے سے منحرف ہو گئی۔سات سو سے زائد کسانوں نے مظاہرہ کیا لیکن یہ خبر ہمارے آزاد میڈیا میں جگہ نہ پاسکی۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر عدیل ملک کی تحقیق کے مطابق ان میں سے بیشتر شوگر ملیں کپاس کی کاشت کے علاقوں مین قائم کی گئیں ہماری زرعی صنعتی معشیت کا انحصار کپاس کی پیداوار پر ہوتا ہے۔اور یوں غیر ملکی زرمبادلہ کے حصول کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے لیکن شوگر ملوں کے قیام کے بعد ان زرعی علاقوں میں کپاس کی کاشت کم ہو گئی ۔

ڈاکٹر عدیل ملک کی تحقیق کے مطابق گنے کی کاشت اور چینی بننے کے عمل اور منڈی میں اس کی تجارت کا سارا عمل معاشی سے زیادہ سیاسی ہے۔یہ سارا عمل معاشیات کے راہنما اصولوں یعنی مسابقت کی فضا آزادا ور انصاف پر مبنی تجارت پر مشتمل نہیں بلکہ سرکاری اثرو رسوخ مصنوعی بحران کا جنم لینا اور ریاستی سرپرستی کے ذریعے منافع خوری پر مشتمل ہے۔

گزشتہ سال رمضان میں "دی نیوز”کے معروف تحقیقاتی رپورٹر احمد نورانی نے خبر دی کہ یوٹیلیٹی سٹور نے رمضان پیکج کے نام پر پچاس ہزار میٹرک ٹن چینی مہنگے نرخوں پر خریدی اور یوں سبسڈی کے نام پر ٹیکس دہندگان کا اربوں روپیہ شوگر مل مالکان کو ادا کیا گیا۔خبر کے مطابق خوش نصیب شوگر ملوں میں حکمران شریف خاندان اور تحریک انصاف کے راہنما جہانگیر ترین کی ملیں شامل ہیں۔

2008ء میں پنجاب میں کپاس کی پیداوار کو بڑھانے کی غرض سے نئی شوگر ملوں کے قیام پر پابندی لگا دی گئی لیکن اس کے باوجود شوگر ملوں کے قیام کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ شریف خاندان کی ملکیتی چوہدری شوگر مل گوجرہ سے رحیم یار کان منتقل کی جا رہی ہے۔لیکن یہ سب کچھ ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کیونکر قوم کو بتائیں گے کیونکہ اُن کا مقصد حب الوطنی اور غداری کے جزبات ابھارنا ہے شوگر مافیا کے چہرے سے نقاب اتارنا نہیں۔
اس صورتحال میں میرے عزیز دوست مرزا امتیاز کا شعر یاد آیا۔

حکمراں ہی جب تاجر ہوں گے
عوام مولی گاجر ہوں گے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے