خواتین کی وراثت

مہینوں بعدکی اس ملاقات میں ہمیشہ چہکنے والی فائزہ آج بجھی بجھی دکھائی دے رہی تھی۔ میں نےپریکٹیکل لائف میں داخل ہونے کے ساتھ ہی کامیابیوں کو اس کے قدم چومتے دیکھا۔جس منزل کی جستجو میں نکلی۔۔۔منزل خود گویا اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ لیکن منزل پر پہنچ کر کچھ نہ پانے اور سب کچھ کھونے کا احساس آج فائزہ کی باتوں سے عیاں تھا۔۔۔۔ اس کےدل ہلکا کرنے پر میں سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ ایک گھر جو نہ صرف عورت کا خواب ہوتا ہے بلکہ اس کےتحفط کا ضامن بھی ہے،۔ عورت اس حسین خواب کی تعبیر میں اپنے آپ کو گھلا دیتی ہے ۔ اور بینش نے تو ذاتی کمائی سے اس تعبیر کو خریدا تھا ۔۔۔۔ لیکن یہ کیا ، بے حد چاہنے والا شوہر بھی کبھی اس تعبیر کی روہ میں دیوار بن جاتا ہے۔ ؟

یہ اور اسی طرح کے ان گنت خیلات نے میری سوچوں کو جکڑ لیا ۔۔۔۔۔فائزہ نے اپنی کمائی سے اپنا گھر خریدا ، لیکن اس کےخوابوں کا یہ محل اسکے اپنے نام پر ٹرانسفر نہ ہو سکا تھا ۔

اپنے نام سے گھرلینے پربینش کے شوہر کا پہلا اعتراض تھا کہ ” کاغذی کاروائی کے لیے میں اپنی بیوی کو عدالت کے چکرنہیں لگوا سکتا۔” ۔۔۔ فائزہ کو آج بھی وہ جملے یاد ہیں جو اسکے خاوند نے کہے تھے "میرا تمھارا کچھ نہیں ہوتا،ہمارا ہوتا ہے۔ویسے بھی یہ تو بچوں کا ہوگا۔۔ کیا تم کو مجھ پر بھروسہ نہیں؟”

ایسے جذباتی حملوں اورضد کا کوئی پڑھی لکھی ، پروفیشنل عورت بھی شاید مقابلہ نہ کر سکتی ہےاورنہ ہی جیت سکتی ہے۔۔۔۔ اور فائزہ بھی ہار گئی ۔۔۔سالوں کی نوکری سے جمع پونجی سےخریدا گیا گھر معاشرے میں مرد کی حاکمیت کی نذر ہو گیا ۔ اور اپنی ازدواجی زندگی کی مضبوطی کیلئے جو پلان بینش نے بنایا تھا ۔ کسی انہونی کی صورت میں بینش اس سے ہاتھ دھو بیٹھے گی ۔اور اپنی ہی خریدی گئی خوشیوں کی وارث نہیں بن سکتی ۔۔۔۔۔ فائزہ معاشرے سے پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ کسی کی محنت کی کمائی اپنے نام کرنے کا حق اس معاشرے نے مرد کو کیوں دیا ہے ؟ اور عورت کو اتنا بے بس کیوں کیا ہے کہ وہ اپنی جمع پونجی کو اپنی ملکیت تصور نہیں کر سکتی ؟

فائزہ کے پڑوس ہی میں سحر کا گھر واقع تھا ۔۔۔ سحرکو بھی ماں باپ کے مرنے کے بعد سے اپنے میکے(بھائیوں کے گھر) آنے کی اجازت نہیں کہ کہیں وہ بھائیوں سےجائدادمیں حصہ نہ مانگ لے بلکہ اس کواکثر والدین کے گھراور دکانوں کے حصےسے دستبردارہونے کیلئے دھمکا یا جاتا ہے ۔

عورت کا وراثت میں کم ہی حصہ رکھا گیا ہےکیونکہ ایک طرف باپ اوردوسری طرف شوہر۔۔۔ دونوں ہی طرف سےاسکو حصہ ملتا ہے۔ مگرافسوس یہ تھوڑا حصہ بھی کہیں تو باپ کے بعدبھائی بہنوں کو دینے سے کتراتے ہیں اورکہیں شوہر کےگھروالے اس کے بعدبیوہ کو اسکے جائز حصے سے محروم رکھتے ہیں۔کبھی ڈرا دھمکا کر عورت سے اسکا حصہ چھین لیا جاتا ہے اورکبھی اپنی مجبوریاں گنوا کر عورت کا حصہ بھائی یا خاوند اپنے نام کرا لیتے ہیں۔یہاں پرسگی ماں بھی بیٹے کا ساتھ دیتی نظر آتی ہےکہ سہاراتو بیٹا ہی ہے، اسکو کیسے ناراض کرے۔

یہ حالات ان پڑھ خواتین کے نہیں ۔ان کو تو اپنے حقوق کی ٹھیک جانکاری ہی نہیں ۔ مگراس معاشرے میں رہنے والی ان خواتین کے ہیں جو انجنیئر ، ڈاکٹر ہیں ، یا ایم بی اے کیا ہوا ہے ۔۔۔۔جنہیں اپنے حقوق کی آگاہی کا مکمل ادراک ہے ۔یہ حالات پڑھے لکھے طبقے کی ان عورتیں کے ہیں جہاں عورت کو آگاہی اورشعور کے راستے پر چلا کر پھر ان کو کے حقوق غضب کیے جاتے ہیں۔ ان کوتحفظ اورچھوٹے چھوٹے خوابوںکو پانے کے لیے بھی رشتوں اوررویوں کے پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر کسی قدم پروہ اپنے ورثے سے دستبردار نہیں ہوتیں توپاداش میں ذلت اورریجیکشن کے جہنم کی گہرائیوں میں دکھیل دی جاتی ہیں ۔

اگر خوش قسمتی سےخاوند نے اپنے کچھ یا مکمل اثاثے بیوی کے نام کیے بھی ہوں ، توخاوند کے بعدوہ ان کی مالک اس وقت تک ہوتی ہے جب تک اس کا دوسرا نکاح نہ ہو۔جہاں عورت نے دوسرا نکاح کرنا چاہا ، مرحوم شوہر کے گھروالوں کے ساتھ ساتھ اپنے میکے سے بھی دباو بڑھ جاتا ہے کہ وہ یہ اثاثے واپس لوٹا دے۔پھرکوئی لڑکی بیوہ/ مطلعقہ ہو کراپنے والدین یا بھائی کے گھر آجائے تو اپنا حصہ گھروالوں کے نام کر کےمعاشرے میں اپنے تحفط کی قیمت چکاتی ہے۔

کیا شادی سے پہلے کمائی جانے والی رقم پر فائزہ کا اتنا حق نہیں کہ وہ کچھ خواب اپنے لیے خرید لے، اپنے محفوظ مستقبل کے لیےیہ بچت استعمال کرلے۔ یہ وہ بے بسی اور گھٹن ہے جس کا ادراک اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔

صاف بات ہے والدین کوکسی ایک اولاد سے زیادہ پیار ہوتا ہے، جہاں دو یا زائد بیویاں ہوں وہاں بھی ایک طرف جھکاؤ زیادہ ہوتا ہے۔۔۔ ایسے میں بحیثیت انسان بہت امکان ہے کہ ہم اولاد،شریکِ حیات یا والدین کی حق تلفی کر جائیں، سو وراثت کی تقسیم کا حق اللہ نے خالصتاً اپنے ہاتھ میں رکھا۔۔۔۔۔الحمد اللہ ، پاکستان کے قانون مین بھی اسکی مکمل پاسداری کی گئی ۔۔۔مگرجس قانون میں ردو بدل کا اختیاراللہ ہی نہیں دیا ، اسے ہم نےبہت سکون و اطمینان کے ساتھ موڑ لیا اور ڈھٹائی کے ساتھ جمے ہوئے بھی ہیں۔متوسط اور اعلیٰ طبقےمیں تو عورت کو اس طرح کے دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔۔۔ مگراشرافیہ میں جائداد کی محبت نے ۔۔۔قران سے نکاح (نعوذ باللہ) ، چھوٹے لڑکوں سے جوان لڑکیوں کے نکاح کرنا یا نکاح نہ کرنا اور قتل جیسے فساد ات کو جنم دیا ہے۔

اس دنیا میں رہ جانے والی جائداد کیا اتنی اہم ہے کہ ہم اپنی بہنوں بیٹیوں اوربیویوں کا حق مار کر بخوشی اپنے لیے جہنم خرید لیتے ہیں۔یہ کیسا سودا ہے انسان کا اپنے رشتوں سے اور اپنے رب سے۔ ۔۔؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے