رُوح ، کائنات اور موسیقی

معاصر سائنس نے کائنات کے ایسے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے کہ ہر ایک حیران ہے ۔ آج ہم جس کائنات اور دنیا کو دیکھ رہے ہیں وہ اس کائنات سے مختلف ہے جس کے بارے میں ہمیں کلاسیکل فزکس نے بتایا تھا ۔ آج کی کائنات بے جان مادے کا ڈھیر اور آوارہ گرد سیاروں کا صحرا نہیں بلکہ سانس لیتا آفاقی ترنم کہا ہے ۔ایک دھن ہے ۔ ایک نغمہ ہے ۔ ایک ترانہ ہے ۔
آئیں کائنات کی اس نئی تصویر کو غور سے دیکھیں۔۔بلکہ سنیں ۔ اور اس میں تال در تال دھڑکتے ترنم پر رقص کریں ۔

کائنات کی موجودہ تصویر ایک سریلی کائنات کی تصویر ہے ۔ جس میں ہر مظہر مرتعش ہے اور اس کا انحصار vibrations کی فی سیکنڈ تعداد پر ہے ۔ اس دھن میں زیادہ تر دھیما سُر لگا ہے ۔ کائنات انتہا وں سے بچتی ہے ۔ دھیما سُر کائنات میں توازن اور ترنم قائم رکھتا ہے ۔

اس کائنات کا ساز سنیں تو ۔ لگتا ہے ہمارے نغموں کی بنیاد بننے والے ساتوں کے ساتوں سُر کائنات کی ازلی دھن سے کشید کئے گئے ہیں ۔ ان سات سُرو ں میں پانچواں سُر دو تین ، چوتھا سُر تین چار کے ماترے سے لگا ہے اور یہی سُر کائنات کو سنبھالے ہوئے ہیں ۔ جوہر میں الیکٹرانز کی رفتار کا تناسب 12سے 6اور 4سے 3ہے ۔ علم ِ موسیقی اور ِ جمالیات کے ماہرین اسے مترنم اور کومل سروں کا سنگم کہتے ہیں ۔ کائنات کی مدھر دھن انہی سُروں سے ترتیب دی گئی ہے ۔

کوانٹم فزکس کی تصویر کو غور سے دیکھیں تو لگتا ہے کہ کائنات، قلب ِ انسانی ، حیات اور کائنات میں موجود چھوٹے سے چھوٹا زرہ آفاقی تال پر دھمال ڈال رہا ہے۔

ناچتی ، گاتی اور گنگناتی کائنات کی یہ تصویر سائنس نے آج دیکھی ہے لیکن انسان نے اسے موسیقی کے اسرار و رموز کی مدد سے نہ جانے کب سے بے نقاب کردیا تھا ۔ کیونکہ حقیقت اورجمالیاتی شعور ہم جنس ہیں ۔ حقیقت حسن ہے اور شعور عشق ۔ ذوقِ جمال کی جمالیاتی زقند یہ راز آلات سے پہلے پا سکتی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ صوفی سُر اور آواز کو حقیقت کشائی کا بلند ترین وسیلہ قرار دیتے رہے ہیں ۔مثال کے طور پر مغرب کو تصوف سے روشناس کرانے والے صوفی بزرگ حضرت عنایت خان ؒ اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں ۔

جو کوئی موسیقی کا علم رکھتا ہے وہ اس کائنات کے گہرے رازوں سے واقف ہے ۔ میری موسیقی میری فکر ہے اور میری فکر میرا جذبہ ۔ میں حقیقت کے سمندر میں جتنا گہرا ڈوبتا ہوں ۔اتنی ہی خوبصورت دُھنوں کے موتی لے کر ابھرتا ہوں ۔ میری موسیقی دوسروں کو محظوظ اور مسحور کرنے سے قبل مجھے وجد میں لے آتی ہے ۔ موسیقی کا مول دنیا کی دولت نہیں چکا سکتی ۔ ”

موسیقی اپنے ہونے کی دلیل خود آپ ہے ۔حقیقت کی طرح موسیقی بھی وجود رکھنے کے لئے وجود کی بھی محتاج نہیں ہے ۔ یہ شعور اور ہمارے ذوقِ جمال سے مخاطب ہوتی ہے کیونکہ یہ خود شعور اور حسن کا حصہ ہے ۔حسن جب سنائی دینے لگے تو موسیقی بن جاتا ہے ۔ دکھائی دینے لگے تو رنگ ہوجاتا ہے ۔ موسیقی کی زبان میں حسن و شعور اپنے ہونے کی گواہی خود دیتا ہے ۔

حضرت عنایت خان ؒ فرماتے ہیں ۔

” موسیقی اور رنگ حقیقت میں ایک ہیں ۔ رنگ سُر اور سُر رنگ ہے ۔ جب موسیقی رنگوں کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے تو دکھائی دینے لگتی ہے ۔ جب رنگ موسیقی کا روپ دھارتا تو سنائی دینے لگتا ہے’’ ۔

ہم رنگوں اور موسیقی کا تجربہ فطرت کے حسن میں کرتے ہیں ۔ دیکھیں ! پرندے گا رہے ہیں ۔ ناچ رہے ہیں ۔ پتوں کی سرسراہٹ میں ترنم ہے ۔ موسیقی ہے ۔ توازن ہے ۔ حسن ہے ۔ آفاقی ساز مسلسل بج رہا ہے اور درخت جھوم رہے ہیں ۔ کیف و مستی کا اظہار کر رہے ہیں۔ فطرت کثافتوں سے پاک ہے ۔ ہمیں مختلف رنگوں کا ترنم ”سنا ئی” صاف دے رہا ہے اور ہر زردہ تھیا تھیا ناچ رہا ہے ۔ اپنے اندر کی آواز سنیں ۔ ہمارے حواس ہم پر ہم آہنگی اور توازن کا راز فاش کر رہے ہیں۔

حضرت عنایت خان کہتے ہیں :

”موسیقی کائنات کی ہم آہنگی کا مختصر پیمانہ ہے ۔کائنات کی ساری لطافتوں کو صرف موسیقی کے ترازو میں ہی تولا جاسکتا ہے ۔ کائنات کا سُریلا پن زندگی کا دوسرا نام ہے ۔اور موسیقی ترتیب دینے والی اور ذوق رکھنے والی نابغۂ روزگار ہستیاں دراصل حقیقت کی تلاش مطلق ہم آہنگی کی تلاش کے روپ میں کرتی ہیں ’’۔

کوانٹم فزکس ہمیں یہی بتارہی ہے ۔ مادہ ”ہونے ” کے لئے اپنا رجحان یا امکان ظاہر کرتا ہے ۔ اور یہ ہر سطح پر مخصوص مقداروں کے ساتھ منسلک رہتا ہے جو لہروں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں ۔ یہ لہریں اُن ریاضیاتی اشکال کی مانند ہیں جو گٹار کے تانت ، سُر یا موجی طول کو ظاہر کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں ۔

عصری طبیعات کائنات کو موسیقی کا مجازی ظہور قرار دے رہی ہے ۔ اس کے نزدیک کائنات کی بنیادی اکائی ستار کے تنے ہوئے تار کی مانند ہے جس پر کوئی مشاق موسیقار مسلسل اپنی انگلی چلا رہا ہے ۔ کائناتی ستار کے یہ تار ایک پروٹان سے سو بلین گنا چھوٹے ہیں ! تمام بنیادی قوتیں ، فطرت کے تمام زرات قدرت کے اس ستار کی باریک تاروں سے پیدا ہونے والی موسیقی کے ارتعاش ، یعنی vibrations کے سوا کچھ نہیں ۔

حضرت عنایت خانؒ فرماتے ہیں ۔

انسان کائنات کا حصہ بلکہ صغریٰ ہے۔ایک چھوٹی کائنات ۔ بڑی کائنات کی طرح سانس لیتی کائنات ۔ انسان کی نبض اور دل کی دھڑکن کائنات کے ترنم سے ہم آہنگ بھی بھی ہوسکتے ہیں اور بے ربط بھی ۔یاد رہے کہ انسان کی دھڑکن کا مذہب ترنم اور سانس کا ردھم ہے ۔ اُس کی صحت اور بیماری ، اُس کی خوشی اور غم ۔۔اُس کی زندگی میں ردھم یا اس کی عدم موجودگی کا پتہ دیتا ہے ”۔

اس کا مطب ہے انسان کی خوشی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ زندگی کے بنیادی سُروں سے ہم آہنگ ہے ۔ اور اُس کا غم اس با ت کا ثبوت ہے کہ یہ سُر اس سے روٹھ گیا ہے۔ اب وہ کائنات کے ساتھ قدم ملا کر نہیں چل رہا ۔ کیونکہ کائنات ایک نغمہ ہے ۔ایک ترانہ ہے ۔ کائنات میں ہر فرد ایک سُر ایک ساز ہے ۔ انسان کو خوشی اُس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ کائنات کے اس نغمے کو سب کے ساتھ مل کر گاتا ہے ۔ جب اس کی تال کائنات کے زرے زرے کی تال سے مل جاتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے