” کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے”

اگر اس کی جگہ میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا تم سے پہلے امتیں اس لیے ہلاک ہوئی کہ جب طاقتور جرم کرتا اسے چھوڑ دیا جاتا اور کمزور پکڑ میں آ جاتا . یہ وہ تاریخی الفاظ ہیں جو اللہ کے آخری نبی اکرم ۖنے ایک سفارشی کو کہے قصہ کچھ یوں تھا کہ عرب کے ایک معزز قبیلے کی خاتون چوری کے جرم میں پکڑی گئی جرم ثابت ہو گیا . اللہ کے نبی نے اپنا فیصلہ سنایا تو معززین کا ایک گروہ اللہ کے نبی کے دربار میں سفارش لے کر پہنچ گیا کہ عورت کو معاف کر دیا جائے محسن انسانیت کے دربار سے طاقتوروں اور کمزوروں کے فیصلے علحیدہ علحیدہ نہیں ہوتے تھے بلکہ قانون کی نظر میں سب برابر تھے ۔

سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار کی ڈرامائی گرفتاری اور رہائی نے ثابت کر دیا کہ پاکستان میں کمزور اور طاقتور کے لیے علحیدہ علحیدہ قانون ہیں ۔خواجہ اظہار کی گرفتاری پر میاں نواز شریف کا ان ایکشن ہونا اور سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ کے اقدامات سے طاقتوروں کہ یہ پیغام ملا کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں ۔مسلم لیگ ن کے رہنما سردار یعقوب ناصر کا یہ بیان کہ اس ملک میں غریب امیر کی خدمت کے لیے پیدا ہوتا ہے ۔میاں نواز شریف اپنی تقریر کا آغاز اللہ کے فضل وکرم سے کرتے ہیں ۔

اللہ تعالی اور خلفائے راشدین کا ورد کرنے والے حکمرانوں کو معلوم ہونا چائیے کہ ان کی عزت بڑے بڑے شاہی محلات میں رہنے سے نہیں بلکہ قوم کی خدمت کرنے سے بڑھی ہے ۔ہمارے حکمران تو شاہی محلات سے باہر نہیں نکلتے پولیس کاکام امن وامان اور شہریوں کی جان و مال کا تحفظ ہے مگر حکمرانوں نے اسے اپنی حفاظت پر لگا دیا ہے ۔حکمران جب اپنی جان کی حفاظت کو ترجیع دینے لگیں تو وہ ملک و قوم کی آبرو کی حفاظت کے قابل نہیںرہتے ۔لوگوں سے ملنا تو دور اپنے محلات کی دیواریں اتنی بلند کر دی کہ غریب آدمی سر اٹھا کہ دیکھتا ہے تو اس کی پگڑی زمین پر گر جاتی ہے ۔حضرت علی ایک یہودی کے مقدمے میں عدالت میں پیش ہوئے اپنی صفائی دی اور بری الذمہ ہوئے ۔

پانامہ کیس میں اپوزیشن رہنما عمران خان نے سیدھے سادے چار سوال حکمرانوں سے پوچھے ان سوالات میں کوئی راکٹ سائنس نہیں جس کا جواب میاں نواز شریف نہ دے سکتے ہوں ۔

وہ اگرصاف کردار کے مالک ہیں توعمران خان کے4سوالوں کے جوابات دیں اس کے منہ پرزوردارتھپڑماریں۔ان کے جوابات سے تحریک انصاف کے منہ پرایسی کالک ملی جائے گی کہ اعلیٰ سے اعلیٰ کوالٹی کے صابن سے بھی صاف نہیں ہوگی۔یہاں پر دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی ہے ۔

یہ کہتے ہیںکہ ہم1930سے کاروبار کررہے ہیں اور جدی پشتی امیر ہیں انہیں یادرکھناچاہیے کہ اموی خلیفہ حضرت عمربن عبدالعزیز کی خلیفہ بننے سے پہلے سالانہ آمدن پچاس ہزار اشرفیاں تھیں امیرالمومنین بنے تو آمدن دوسواشرفی رہ گئی۔ خلیفہ بننے سے قبل دوہزاردرہم کاجوڑازیب تن کرتے تھے خلیفہ بنے تو پانچ درہم کے لباس پراکتفاء کیا۔ ان کے انتقال پر قیصرروم نے تبصرہ کیا تھا کہ کوئی راہب دنیا چھوڑدے تو کوئی تعجب نہیں حیرت اس پر ہے کہ جس کے قدموں میں دولت دنیابھچی تھی اس نے فقیرانہ زندگی بسرکی۔

میاں نوازشریف گورنر جیلانی اورضیاء الحق کی برکات سے سب سے پہلے پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے ، جیسے جیسے وہ سیاست میں ترقی کرتے گئے۔ حیرت انگیزان کاکاروباربھی ترقی کرتا گیا۔قوم مفلوک الحال ہوتی گئی اوریہ امیرہوتے گئے۔ دوچارشوگرملزکے مالکان آج جنوبی ایشیاء کے سب سے بڑے بزنس ایمپائر کے مالک ہیں۔ ان کی دولت کاتخمینہ ایک اندازے کے مطابق1.4بلین ڈالر”شریف” ہے۔شریف برادران چین اورامریکہ کاوظیفہ پڑھتے ہوئے نہیں تھکتے۔ انہیں خبر ہونی چاہیے کہ جس وقت ماوزئے تنگ نے منصب اقتدار سنبھالا اس وقت چین غربت وافلاس کامارا پسماندہ ملک تھا جس کی وسیع وعریض آبادی کازیادہ ترحصہ ناخواندہ کسانوں اور مزدوروں پرمشتمل تھا۔

مائو نے نہ صرف سیاسی اورمعاشی بلکہ سماجی سطح پر بھی انقلاب لانے میں کامیاب رہے انہوں نے افیون کھانے کی عادی قوم کو دنیا کی باوقارقوموں کی صف میں کھڑاکیا۔انہیں یہ بھی خبرہونی چاہیے کہ کلنٹن،بش یاباراک اوبامہ امریکہ کاطرہ امتیاز نہیں بلکہ امریکہ کو طاقتور جارج واشگنٹن نے بنایا امریکی قوم نے اسے تاحیات صدربننے کی پیشکش کی مگروہ تیسری بار صدربننے پرآمادہ نہ ہوا اور اپنی آخری عمر کاشتکاری کرتے ہوئے گزاردی مگر ہمارے ہاں سیاست سے کنارہ کشی دنیا سے جانے کے بعد ہی ممکن ہے جب کہ ہمارے ہاں کنگال آتے ہیں اورمال دارہوکرجاتے ہیں۔پھر دعوے کرتے ہیں کہ ہم ملک و قوم کی خدمت کرتے ہیں کچھ شرم ہوتی ہے،کچھ حیا ہوتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے