پاکستان اور ایران، دشمن نہیں دوست

میاں صاحب کی نیویارک میں ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات غالبا ان کے حالیہ دورہ امریکہ کا اہم ترین لمحہ تھا۔ یہ ملاقات پاک ایران تعلقات کے متعلق ہمارے ہاں کچھ لگے بندھے اور مضبوط روایتی بیانیوں کے خلاف ایک سبق ہے۔ روایتی دفاعی بیانیے کے مطابق پاکستان اور ایران قریب قریب دشمن ریاستیں ہیں اور یہ کہ ایران ہمیشہ بھارت سے تعاون کر کے خطے میں پاکستان کے خلاف بھارت اور افغان اتحاد میں شامل رہتا ہے۔

حالیہ عرصہ میں کچھ ’’وجوہات‘‘ نے پاکستان میں ان ایران دشمن آرا کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ ان وجوہات میں سر فہرست پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی ایران کے متعلق وہی سوچ ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ ایران بلوچستان میں کشیدگی اور دہشت گردی میں ملوث اور بھارت کا معاون ہے۔ یہ بیانیہ جناب حسن روحانی کے دورہ پاکستان کے موقع پر انتہائی غیر سفارتی انداز میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سامنے لایا گیا جس پر سفارتی حلقوں میں پاکستان کی نہ صرف سبکی ہوئی بلکہ یہ پاکستان اور ایران کی قربت میں ایک بڑی رکاوٹ بنی۔ دوسرا سبب ہمارے ہاں خارجہ پالیسی اور معاشی ایکٹیویٹی کے نیم حکیم قسم کے ماہرین کی جانب سے یہ رٹ لگائے رکھنا ہے کہ ایران نے چاہ بہار بندرگاہ کے حوالے سے بھارت سے معاہدہ کر کئے گوادر اور سی پیک کے خلاف ایک عظیم بھارتی منصوبے میں کھلی شرکت کا اظہار کیا ہے۔ ایک اور وجہ مشرق وسطی میں جاری عرب ایران کشیدگی ہے۔ یہ سمجھنا یقینا مشکل نہیں کہ پاکستان میں ایران سے متعلق سیکورٹی خدشات ابھارنے کے پیچھے کون سی لابیز اور ادارے کارفرما ہوتے ہیں۔

گوادر اور چاہ بہار کا آپسی مقابلہ کرنا ایک غیر ضروری کھیل ہے۔ چاہ بہار ابھی تک محض ایک خواب اور وعدہ ہے اورگوادر ایک جیتی جاگتی حقیقت۔ پڑھنے والوں سے گذارش ہے کہ گوادر اور چاہ بہار کے موازنے پر غیر جانبدار بین الاقوامی مبصرین کے مضامین دیکھیے اور پھر اس پر رائے قائم کیجیے۔ ایرانی سرکاری اہلکار بارہا پاکستان کو یہ یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ چاہ بہار ہر گز گوادر کا دشمن نہیں بنے گا۔ پاکستان میں متعین ایرانی سفیر نے متعدد دفعہ کہا ہے کہ چاہ بہار بندرگاہ معاہدہ اب تک نامکمل ہے اور ہماری خواہش ہے کہ پاکستان اور چین دونوں اس معاہدے کا حصہ بنیں۔ حالیہ ملاقات میں جناب حسن روحانی کا پاک بھارت جنگ کے ماحول میں واضح الفاظ میں پاکستان کو یہی یقین دہانی کرانا نہایت معنی خیز ہے۔ ایرانی صدر جناب حسن روحانی نے پاکستان کی حفاظت کو ایران کی حفاظت کہا، سی پیک کا حصہ بننے میں دلچسپی کا اظہار کیا اور گوادر اور چاہ بہار کو دوست بندرگاہیں قرار دیا۔ یہ تمام باتیں اس امر کی جانب اشارہ ہیں کہ ایران خطے میں کسی پاکستان مخالف اتحاد کا حصہ نہ بننا چاہتا ہے نہ بنے گا بلکہ وہ ترجیحا پاکستان کے ساتھ معاشی تعلقات میں دلچسپی رکھتا ہے۔

یہاں پڑھنے والوں کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ایران نے 2014 سے گوادر بندرگاہ پر چار ارب ڈالرز کی ایرانی سرمایہ کاری سے ایک پلانٹ بنانے کی تجویز دے رکھی ہے جس کی یومیہ کیپیسٹی چار لاکھ بیرل تیل ہوگی۔ ایران خود گوادر کے فروغ میں دلچسپی رکھتا ہے اسے گوادر کے دشمن کے طور پر پینٹ کرنے میں ہمارا کوئی فائدہ نہیں۔ اس حقیقت اور جناب حسن روحانی کی حالیہ یقین دہانیوں کے تناظر میں ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بلوچستان میں کشیدگی کا ایران کو نقصان تو ہو سکتا ہے فائدہ کچھ خاص نہیں۔ بلوچستان میں کشیدگی کا اثر ایرانی بلوچستان میں لامحالہ پڑے گا اور جدید ایران جو اپنی فوجی اور ملائی اسٹیبشمنٹ سے آزاد ہو کر معاشی ترقی چاہتا ہے اس طرح کے بے مقصد ایڈونچرز کا رسک نہیں لے گا۔ سرے سے یہ تصور ہی شدید محل نظر ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی مکمل طور پر بیرونی ہاتھوں کا تیار کردہ معجون ہے۔ کلبھوشن یادیو کا ذکریقینا یہاں ضرور ہو گا۔ فقط اتنا عرض ہے کہ ایرانی اخبارات پر ایک نظر ڈالتے رہا کیجیے۔ ایران میں بھی کئی پاکستانی پاسپورٹ والے دہشت گرد پکڑے جاتے ہیں۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ میاں صاحب ایران کے دورے پر ہوں اور سپاہ پاسداران انقلاب کا نمائندہ ٹویٹ کرے کہ میاں صاحب ان دہشت گردوں کا حساب دیں۔ لہذا ایک جاسوس پکڑ کر ایران کو پاکستان کا دشمن قرار دینا ہے تو دنیا میں کوئی ملک دوسرے ملک کا دوست نہیں رہے گا۔

پاکستان کے لیے وقت ہے کہ اپنی خارجہ پالیسی میں ایک بڑا شفٹ لے اور ایران کو دوستانہ نظروں سے دیکھے۔ چار پڑوسیوں میں کم از کم دو سے تعلقات کی نوعیت دوستانہ ہونی چاہیے۔ ہمیں ایرانی اشاروں کو سمجھنا چاہیے، ایران پاکستان کے ساتھ وسیع المدتی معاشی اتحاد کے لیے بے تاب ہے اور ہمارے ہاں پاپولر بیانیہ اب بھی وہی ہے کہ ’’ایران ہمارا دشمن ہے‘‘۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں پاکستان کی جس واضح الفاظ میں حمایت ایران کی جانب سے آئی ہے، کوئی اور مثال ہو تو سامنے لائیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے