فرقہ واریت ور ریاستی ناکامی ؟

محرم کا مہینہ ہمیں تاریخ اسلام کے دواہم واقعات کی یاددلاتا ہے۔ یکم محرم کو امیر المومنین سیدنا عمر فاروق ؓ کی شہادت اور دس محرم کو نواسہ رسول سیدنا حسینؓ کی اپنے قافلے کے ہمراہ شہادت۔ یہ تاریخ اسلام کے دو اہم واقعات ہیں، جنہیں کسی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پہلے واقعے سے اسلام کو مٹانے کے لیے فارسی سازش کا آغاز ہوا جبکہ دوسرے واقعے نے اس سازش کا بھانڈا پھوڑ کر اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناکام بنادیا۔ سیدناعمر فاروقؓاور سیدنا حسین ؓ دونوں قیامت کی صبح تک مسلمانوں کے لیے مشعل راہ رہیں گے۔ محرم کا مہینہ ان اسلامی مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں شریعت مقدسہ نے حر مت کے مہینے قرار دے کر ان کا احترام ملحوظ رکھنے کی سخت تاکید کی ہے لیکن اسی مہینے میں جو صو رتحال سامنے آتی ہے وہ اس کی حرمت و تقد یس کے با لکل بر عکس ہے۔ ہر جگہ لا اینڈ آرڈر کے مسائل، مین شا ہر اہوں کا بند ہو نا، چوکوں، چوراہوں، گلیوں، شہروں، قصبوں بلکہ ہر ہر جگہ رکا وٹوں، پو لیس، آرمی، رینجر ز کی بہتات کی وجہ سے خو ف و ہراس کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ملکی معیشت کا پہیہ جام اور کا روباری زندگی مفلو ج ہوکر رہ جاتا ہے۔

پاک بھارت کشمکش کی وجہ سے آنے والا محرم مزید خوف ناک نظر آرہا ہے۔ بھارت امریکا کے اشارے پر عالمی طاقت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ امریکا اور برطانیہ اس کے مدد گار ہیں کیونکہ انہیں چین کا گھیراو بھی مقصود اور مشرق وسطی میں اسرائیلی غلبے کی آرزوبھی۔ ایک ناجائز ریاست کی پشت پر پورا مغرب کھڑا ہے اور دوسری طرف عالم اسلام ہے جو سعودیہ کے حق بجانب ہونے کے باوجود بھی اس کا کھل کر ہم نوا نہیں بن پارہا۔ امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت اور دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے اس کے اثرورسوخ سے خائف ہے۔ نئے عالمی نظام میں اسے ایک ایسے طاقت ور ملک کی ضرورت ہے جس کے ذریعے وہ اس خطے کو اپنی مرضی کے مطابق جب چاہے آگ اور خون میں نہلادے مگر پاکستان کی موجودگی میں ایسا ممکن نہیں ہے، اس لیے ہر پاکستانی کو پاکستان کی سلامتی اور اس کے تحفظ کی کوشش پہلے کی نسبت زیادہ کرنی چاہیے۔ بھارت کی بی جے پی حکومت جس احمقانہ جذباتیت کا مظاہرہ کررہی ہے، اس کا سبب جہاں امریکی اشارے ہیں، وہیں اپنے ووٹروں کے سامنے سرخرو ہونے کی کوشش بھی ہے۔دوسری طرف ایسے نازک موقع پر ملک کے اندر کچھ عناصر ہمیشہ کی طرح فرقہ واریت کی آگ دہکانے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ فسادی گروہ جب بھی فسادات کے درپے ہوتے ہیں تو انہیں ہمیشہ بعض ایسے مقامی افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے مذموم مقاصد کی تکمیل میں معاون ثابت ہوں۔ ایسے افرادپر نظر رکھنا اور انہیں ایسی سرگرمیوں سے روکنا جہاں ریاست کی ذمہ داری ہے، وہیں عام شہریوں کی نسبت فرقہ وارانہ تنظیموں کے ارکان کی زیادہ ذمہ داری ہے، کیونکہ کل کو یہ الزام انہی کے سر آنا ہے۔

فرقہ واریت کے خاتمے اور فرقہ وارانہ فسادات سے بچاو کے لیے اب ریاست کو بھی سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے بعد امید تھی کہ فرقہ وارانہ مسائل حل ہوں گے مگر تاحال ایسا کچھ نہیں ہوسکا۔ ریاست نے کچھ فرقہ پرست دہشت گردوں کو ”ٹھکانے“لگا کرسمجھا کہ شاید فرقہ واریت ختم ہوگئی ہے مگر ایسا نہیں ہوا۔ لوگوں کو قتل کردینا دفع وقتی کی عارضی حکمت عملی تو ہوسکتی ہے مگر کل وقتی منصوبے کے لیے ضروری ہے کہ زمینی حقائق کا ادراک کیا جائے اور اس مسئلے کا سنجیدہ حل نکالا جائے۔ فرقہ واریت کے مسئلے کے حل کے لیے آج تک پاکستان میں بڑی سطح کی پانچ کوششیں ہوئی ہیں۔1991ءمیں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی سربراہی میں، 1995ءمیں”ملی یکجہتی کونسل“ کے ذریعے، 1997ءمیں سپریم کورٹ کے زریعے، 1998ءمیں”متحدہ علماءبورڈ پنجاب“ اور 2004ءمیں وزارت داخلہ کی”کرائسس مینجمنٹ سیل“ کے ذریعے۔ مختلف تحقیقی اداروںاور جامعات کی طرف سے ہونے والی کوششیں الگ ہیں۔ ان پانچ بڑی کوششوں میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، گورنراور وفاقی وزیر داخلہ جیسے لوگوں کی دلچسپی رہی ہے اور مسئلے کے حل کے لیے ایک، دو نہیں درجنوں اجلاس منعقد ہوئے ہیں مگر مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اس سے یہ بات تو کم از کم سمجھ میں آجانی چاہیے کہ پاکستان میں کچھ ایسی طاقتیں بھی موجود ہیں جو اس مسئلے کو باقی رکھنا چاہتی ہیں۔ سول و ملٹری بیوروکریسی کی عدم دلچسپی بھی اس مسئلے کی بقاکی ایک بڑی وجہ ہے۔ ریاست کے تمام اداروں اور سول و عسکری قیادت کو اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھنا چاہیے اور اس کے حل کے لیے” لانگ ٹرم“اقدامات کرنے چاہئیں ورنہ خدانخواستہ پھر کوئی حادثہ ہوگا اور پھر ایک دوسرے سے امن کی بھیک مانگ رہے ہوں گے۔

ضرورت یہ ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان کی معتبراور مسلمہ دینی شخصیات اور دینی جماعتوںکو ایک جگہ جمع کیاجائے، انہیں ملکی سلامتی کے لیے متحد کرنا چاہیے، ان سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں منبرومحراب کی آواز کو موثر بنائیں۔ اختلاف ایک حقیقی چیز ہے جس کا خاتمہ ممکن ہے نہ ہی اس سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے۔ اختلاف کو قبول کرکے تفرقہ اور تحزب سے بچنا ضروری ہے۔ خرابی اس وقت ہوتی ہے جب ہم اس اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے کے خلاف پارٹی بن کرسامنے آتے ہیں، ایک دوسرے کو لعن طعن کرتے ہیں اور بعض اوقات قتل وقتال تک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس سب کچھ کو پھر مذہب کی حمایت سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ مذہب کا اس غلو اور زیادتی سے کوئی تعلق ہوتا ہے نہ کوئی مذہب ایسے اعمال کی اجازت دیتا ہے۔ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس فساد کے خاتمے کے لیے ایک ضابطہ اخلاق مرتب کرے جس پر عمل کرنا بلاتفریق سب پر لازمی ہو۔ اس ضابطہ اخلاق کی رو سے

تمام مقدس شخصیات کی تکفیر، توہین اور تنقیص کو جرم قرار دیا جائے، جس کی سزاکم ازکم موت یا عمر قید متعین کی جائے۔

کسی کو کافر قرار دینا، کسی گروہ کے افراد کو واجب القتل قرار دینا یا تکفیر کے نعرے لگانابھی جرم قرار دیے جائیں۔

ایسی ہر تقریر وتحریر پر پابندی لگائی جائے جو کسی کی دل آزاری یا اشتعال کاسبب بن سکتی ہو۔

تمام مسالک کے اکابر کا احترام لازمی قرار دیا جائے۔

جلسوں اور جلوسوں کے لیے بھی ایک الگ سے ضابطہ اخلاق بنایا جائے اور ان کی حدود متعین کی جائیں۔

تمام جلسوں، جلوسوں، مساجد اور عبادت گاہوں میں ہر قسم کے اسلحہ کی نمائش پر پابندی لگائی جائے۔

ریاستی سطح پر علماءکے تعاون سے ایک ایسا بورڈ تشکیل دے جس کی تصدیق کے بغیر کوئی بھی مذہبی لٹریچر شائع کرنا جرم ہو۔

ہر مسلک کے جید اور مسلمہ علماءپر مشتمل ایک بورڈ تشکیل دیا جائے جو ہنگامی صورت حال اور دیگر مسلکی تنازعات میں مصالحتی کمیشن کا کردار ادا کرے۔

ایسے ضابطہ ہائے اخلاق پہلے سے موجود ہیں، مگر ان پر عملدرآمد کروانے میں ریاست ہمیشہ ناکام رہی ہے۔ ان پر عملدرآمد کروانے سے مقامی سطح پر پیدا ہونے والے مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔ بیرون ملک سے مسلط کی جانے والی دہشت گردی کا مقابلہ نسبتاً آسان ہوجائے گا۔ پاکستان میں موجود تمام مسلم مکاتب فکر اور دیگر تمام مذاہب کی قیادت اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ فرقہ وارانہ تعصب کی بنیاد پر فسادات پھیلانے والے لوگ اسلام اور پاکستان سے مخلص نہیں ہیں۔ اس سوچ کو عوامی سطح پر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ضرورت ہے کہ اپنی سوچ، اپنی رائے، اپنی انا اور اپنی جماعت سے بالاترہوکر اسلام اور پاکستان کو سربلند کیا جائے۔ ایک دوسرے کے عقائد و نظریات کا احترام کیا جائے۔ ایک دوسرے کے مقدسات کو محترم مانا جائے اور کسی کی دل آزاری سے بہرصورت بچاجائے۔ فرقہ واریت کے تعصب سے نکلنے والی گولی اور بھڑکنے والی آگ کا کوئی مسلک اور کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اگرہم سب مل کر اس آگ پر قابو پالیں تو یہ ہم سب کے حق میں بہتر ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے