مولانا عبدالعزیز سے ملاقات اور چند معروضات

عید الاضحٰی سے چند روز قبل لال مسجد کے خطیب اور جامعہ حفصہ کے روح رواں مولانا عبدالعزیز سے جامعہ حفصہ میں ملاقات ہوئی، اس ملاقات کا اہتمام ڈان اخبار کے سینیئر صحافی قلب علی نے کیا، جو خود لاپتہ افراد کے حوالے سے معلومات اور موقف لینا چاہتے تھے۔ سات ستمبر کو ہم دونوں جامعہ حفصہ پہنچے، تاہم وہاں ایک مولانا صاحب نے یہ کہہ کر ہمیں بھگا دیا کہ ہم میڈیا سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ ہم مزید کسی مسئلے میں الجھنا نہیں چاہتے، مولانا احتشام نے آپ لوگوں کو بلاکر زیادتی کی ہے، لہذا آپ جا سکتے ہیں۔ یوں قلب علی اور میں جامعہ حفصہ سے پارلیمنٹ کی طرف چلے گئے۔ ابھی پارلیمنٹ کے کیفے میں پہچنے ہی تھے کہ مولانا احتشام کا فون آیا کہ اگر آپ لوگ قریب ہیں تو مولانا عبدالعزیز سے ملاقات ہوسکتی ہے، قلب علی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا پروگرام ہے، مل لیتے ہیں، میں نے اثبات میں سر ہلا دیا اور یوں 20 منٹ بعد ہم جامعہ حفصہ پہنچ گئے، جہاں مولانا احتشام ہمارے انتظار میں کھڑے تھے۔ مولانا ہمیں ایک کمرے میں لے گئے، جہاں کچھ دیر بعد مولانا عبدالعزیز صاحب بھی تشریف لے آئے۔

مولانا عبدالعزیز نے سلام دعا کی اور آنے کا مقصد پوچھا۔ اس پر قلب علی نے موضوع پر آتے ہوئے کہا کہ مولانا ابھی اگست کا مہینہ ختم ہوگیا ہے اور عدالتوں میں سالانہ تعطیلات بھی ختم ہونے والی ہیں، اس لحاظ سے مسنگ پرسنز کے کیسز دوبارہ لگ رہے ہیں، اس بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ خیر اس موضوع پر مولانا عبدالعزیز نے انہیں تمام تفصیلات فراہم کیں، اس دوران مولانا کی جانب سے خالص دودھ اور سیب کے ساتھ ہماری تواضع بھی کی گئی۔ بحث جاری تھی کہ میں نے بھی چند سوالات پوچھ لئے۔ استفسار کیا کہ مولانا کیا وجہ ہے کہ آپ کا شمار بھی ان علماء میں ہوتا ہے جو تکفیر کے قائل ہیں، علماء دیوبند کی بڑی تعداد اس مسئلہ پر آپ کے موقف کی تائید نہیں کرتی۔ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں، کیا ایک مسلمان ریاست میں یہ مناسب طرز عمل ہے؟ اس پر مولانا نے کہا کہ یہ انتہائی حساس مسئلہ ہے، اس پر بات نہ کی جائے تو بہتر ہے، میں نے کہا کہ مولانا آپ تو اس کا اظہار ایک ٹاک شو میں کرچکے ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ممکن ہے کہ اس ٹاک شو کے بعض مندرجات کی ایڈٹنگ کی گئی ہو، اس لئے آپ کا مکمل موقف سمجھنا چاہتا ہوں۔

مولانا عبدالعزیز نے کہا کہ شیعہ حضرات حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کو مسلمان نہیں سمجھتے ہیں، اسی لئے میں اس چیز کا قائل ہوں۔ دوسرا آپ نے جس ٹاک شو کا حوالہ دیا ہے تو میں یہ بتا دوں کہ اس ٹاک شو میں مجھے نہیں بتایا گیا تھا کہ دوسری طرف خانم طیبہ بخاری ہیں، اگر ان کا پتہ چل جاتا تو میں اس ٹاک شو میں شریک نہ ہوتا۔ اس پر عرض کیا کہ جناب اہل تشیع کے تمام صاحب سند علماء ایسے کسی موقف کی حمایت نہیں کرتے۔ وہ کبھی یہ نہیں کہتے کہ یہ تینوں شخصیات مسلمان نہیں تھیں۔ یہ رائے آپ نے کہاں سے بنا لی ہے۔ شیعہ کے رہبر اعلٰی آیت اللہ خامنہ ای نے تو باقاعدہ اس پر فتویٰ بھی دیدیا ہے اور امہات المومنین کی توہین کے عمل کو حرام قرار دیدیا ہے، اس کا تو آپ لوگ خیر مقدم کرتے، پھر یہ عمل کیوں؟ مولانا نے کہا کہ اس پر بےتحاشا ویڈیوز یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر پڑی ہیں۔ میں نے کہا کہ جناب چند جاہل لوگ جو کسی کے ایجنٹ بھی ہوسکتے ہیں، جو تفرقہ چاہتے ہوں اور اہل تشیع کے لبادے میں موجود ہوں، ان کی باتوں پر آپ کیسے ایک پورے مکتب کی تکفیر کرسکتے ہیں، کیا آپ کی نگاہ میں وہ لوگ بھی کافر ہیں، جو تینوں محترم شخصیات کو مسلمان سمجھتے ہیں؟ اس پر مولانا عبدالعزیز نے جواب دیا کہ نہیں، وہ کلی طور پر اس کے قائل نہیں ہیں، جو ان تینوں شخصیات کو مسلمان سمجھتے ہیں، میں انہیں مسلمان ہی سمجھتا ہوں، میں ان کی تکفیر کا قائل نہیں ہوں۔

غازی فورس اور آپریشن ضرب عضب پر مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ غازی فورس کوئی وجود نہیں رکھتی، ممکن ہے کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے واقعہ کے بعد کچھ لوگوں نے انتقاماً کچھ ایسے اقدامات کئے ہوں، لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ نے جو بھی عدالتی سسٹم بنایا ہوا ہے، خواہ اب وہ فوجی عدالتیں ہی کیوں نہ ہوں، ان میں ملزمان کو پیش تو کریں، ان پر الزام ثابت کرکے پھر پھانسیاں دیں، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پولیس مقابلہ ظاہر کرکے لوگوں کا مار دیا جائے۔ اس وقت آپ دیکھیں کہ ریاست پاکستان سے کوئی بھی خوش نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اہل تشیع اور ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں کے ساتھ بھی زیادتی ہو رہی ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ پہلے لوگ خوش تھے کہ دیوبندی مر رہے ہیں، لیکن اب سب کی باری لگی ہوئی ہے۔ سچ پوچھیں تو مجھے ریاست خانہ جنگی کی طرف جاتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ کا جو بھی سسٹم ہے، کم از کم اس کے مطابق تو سزائیں دیں اور عمل کریں۔ ماورائے عدالت کام کیوں انجام دیتے ہیں۔؟

مولانا عبدالعزیز نے ہمیں اپنا پرنٹنگ پریس بھی دکھایا، جہاں مختلف موضوعات پر لیٹریچر چھپتا ہے، ایک ٹیم جو مسلسل اس پر کام کرتی ہے۔ سبزیوں اور پھلوں کے فائدے سے لیکر مختلف دینی موضوعات پر کتابیں اور بروشرز پرنٹ کئے جاتے ہیں۔ مولانا عبدالعزیز نے آخر میں اس پرنٹنگ پریس پر چھپنے والی چند کتابیں بھی ہمیں گفٹ کیں۔ ملاقات کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ اگر مختلف مکاتب فکر کے علماء ایک دوسرے کی طرف آئیں، اپنے نظریات پر مشتمل کتابیں اور لیٹریچر کا تبادلہ کریں اور طرفین کی جانب سے بغیر تعصب کے علمی انداز میں ایک دوسرے کو سمجھیں تو بہت سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اگر بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے مولانا تکفیر کے قائل ہیں، ان غلط فہمیوں کو دور کیا جانا چاہیے، خود شیعہ علماء کو اپنے آپ کو اس حد تک محدود نہیں کرنا چاہیے کہ معاشرے میں غلط فہمیاں جنم لیں اور اس کا ازالہ بھی نہ ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملی یکجہتی کونسل پاکستان اس حوالے سے ایک بہترین پلیٹ فارم ہے، جس کے ذریعے سے ان مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

اگر ملی یکجہتی کونسل یہ بیڑا اٹھائے کہ تمام مکاتب فکر کے علماء ان جگہوں پر جائیں، جہاں یہ مسائل درپیش ہیں اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کریں تو میرے خیال میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بہت بہتر کیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ تکفیرت کو ختم کرنا چاہتے ہیں، انہیں یہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ حتٰی مولانا محمد احمد لدھیانوی کو بھی ٹیبل پر یٹھانا ہوگا۔ اگر کچھ لوگ ان کوششوں کے باوجود بھی تکفیر کرتے ہیں تو پھر ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے ہی انہیں ملت اسلامیہ سے جدا کر دینا چاہیئے، کیونکہ پھر ثابت ہو جائے گا کہ یہ عناصر کسی ایجنڈے پر گامزن ہیں۔ راقم نے اس موضوع پر شیعہ علماء کونسل کے رہنما علامہ عارف واحدی سے بھی بات کی تھی کہ مولانا احمد لدھیانوی کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر علامہ ساجد نقوی صاحب یہ یقین دہانی کرا دیں کہ تشیع کی طرف سے اصحاب رسول کی تکفیر اور توہین نہیں ہوگی تو ان کی جماعت شیعوں کو کافر کہنا چھوڑ دے گی۔ لہذا ملت اسلامیہ کے وسیع تر مفاد میں یہ اقدام کریں، تاکہ تکفیر جیسی لعنت سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے۔ اس پر جو علامہ عارف واحدی نے کہا کہ انہیں فریق مخالف پر اعتبار نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ وہ کسی بھی ملاقات کو غلط رنگ دینا شروع کر دیں۔

خیر میری دیوبند علماء سے التجا ہوگی کہ وہ اس اعتماد کو بحال کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ اسی موضوع پر ہی میری مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس سے بھی بات ہوئی، اس پر انہوں نے کہا تھا کہ اگر علامہ ساجد نقوی صاحب یہ اقدام کرتے ہیں تو ہم انہیں مکمل سپورٹ کریں گے۔ اگر کوئی بھی فرد ہماری کوششوں سے غلط کام سے باز آ جاتا ہے تو ہمیں یہ کوششیں جاری رکھنی چاہیئے۔ میری تمام مکاتب فکر کے علماء سے التجا ہوگی کہ خدارا بہت کشت و خون ہوچکا، اب اس وطن کو امن کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ کیا وجہ ہے کہ مسیحیت میں بھی بےپناہ فرقے ہیں، لیکن وہاں ایک دوسرے کی تکفیر اور مارا ماری نہیں ہے، اسی طرح ہندوں کو ہی دیکھ لیں، ان میں کئی فرقے موجود ہیں، لیکن کبھی نہیں سنا کہ انہوں نے ایک دوسرے کے قتل کا فتویٰ دیا ہو یا مارا ہو۔ اسی طرح یہودیوں کے کئی فرقے ہیں، لیکن کبھی خبر نہیں پڑھی کہ کسی یہودی نے مخالف سوچ والے کو قتل کر ڈالا ہو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جن کا قرآن کہہ رہا ہے کہ تفرقے میں مت پڑو، لیکن وہ قوم تفرقے کی گہرائیوں کو چھو رہی ہے۔ وہ اسلام جو ایک انسان کے قتل کو تمام انسانوں کا قتل قرار دیتا ہے، وہاں آج جنگ و جدل جاری ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے