کشمیر وزیراعظم نواز شریف کا مسئلہ نہیں

پاک بھارت جنگی جنون دونوں جانب کی حکومتوں کے داخلی تضادات ہیں ۔پاکستان کی حکومت پر ایک جانب تو کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات ہیں ۔ پانامہ لیکس کی تحقیقات کا شور ہے ۔ دوسری جانب حکومت عوام سے کیے گئے انتخابی وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی ہے۔ کاروباری اور تاجر پیشہ حکمران سیاست اور حکومت منڈی اور اسٹاک ایکسچینج جیسی کرتے ہیں۔ جنگی جنون کو ہوا دیکر حکمران اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ پاک بھارت جنگی جنون دونوں جانب کے حکمرانوں کیلئے سود مند ثابت ہوتا ہے۔ یہاں تک مسلہ کشمیر کی بات ہے۔ یو این میں ٹھوس اور موثر موقف پیش کرنے یا پاکستانی وزیر اعظم کی جذباتی تقریر سے مسلہ حل نہیں ہو سکتا ہے ۔

قبل ازیں پاکستان کے ہر سربراہ مملکت بہتر سے بہتر انداز میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں کشمیر پر موقف پیش کرتے آئے ہیں اور یقین ہے کہ آئندہ بھی کرتے رہیں گے ۔تنازع کشمیر پر پاکستان بھی سیاست کا کھیل کھیلا جاتا ہے اور بھارت میں بھارت تنازع کشمیر کو سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔دونوں جانب الیکشن میں فتح حاصل کرنے کا سوال ہو یا گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سہارا دینا مقصود ہو ۔ تنازع کشمیر کا تڑکا کارگر ثابت ہوتاہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے بھی محض تڑکا ہی لگایا ہے کہ شاید پانامہ لیکس جیسی بلا سے جان چھوٹ جائے اور کشمیر ایشو سرخرو کردے ۔ ورنہ کشمیر کمیٹی کی فعالیت سے سب واقف ہیں۔ ویسے بھی کشمیر وزیر اعظم نوازشریف کا مسلہ نہیں ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کا مسلہ پانامہ لیکس ہے اور پانامہ لیکس کے خلاف احتجاجی تحریک ہے۔

اقوام متحدہ میں وزیراعظم نواز شریف کا خطاب جاری تھا کہ نواز حکومت کی جانب سے پروپیگنڈا کے لئے حاصل کردہ میڈیا سروسز کے ایک مشہور صحافی اور اینکر پرسن حامد میر بھارت کی جانب سے پاکستان پر محدود سٹرائیک کی خبر دے رہے تھے اور پھر اسی خبر ساز نے بھارتی ٹی وی کو یہ خبر بھی دی کہ اسلام آباد میں جنگی طیارے پرواز کر رہے ہیں۔ جنگی جنون ایک اس طریقے سے فضا پیدا کرنا ایک جانب تو صحافتی بدیانتی ہے اور دوسری جانب امن ،عوام اور ملک دشمنی بھی ہے کہ حکمرانوں کے آلہ کار بن کر حکومتی ناکامیوں کو جنگی جنون کے پچھے چھپانا اور عوام کے اصل مسائل کو نظر انداز کرکے اشتعال انگیزی اور جذباتیت پیدا کرنا نہ تو صحافت ہے اور نہ ہی کیسی مسلہ کے حل کی جانب مناسب پیش رفت ہے۔

حکمرانوں کے پروپیگنڈہ پارٹنر کی جانب سے ٹی وی پروگراموں میں بار بار یہ سوال اٹھانا کہ حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک کے لئے مناسب وقت نہیں ہے اور عمران خان کو رائے ونڈ مارچ موخر کردینا چاہیے اس امر کی چغلی کھاتا ہے کہ حکومت کو مسلہ کشمیر سے زیادہ اپنی فکر ہے اور جنگی فضا بنانے کے لئے ایک بڑے میڈیا گروپ کی سروسز کا حصول بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے نہیں ہے بلکہ رائے ونڈ کی جانب بڑھتے ہوئے احتجاجیوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش ہے۔ میاں نواز شریف کو اپنی اور حکومت کی بقا عزیز ہے۔ اقوام متحدہ میں کشمیر کا مقدمہ اچھے طریقے سے پیش کرنا بہت ہی اچھا اقدام ہے ۔ میاں نواز شریف خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ مگر مسلہ کشمیر پر موثر موقف اپنانے کو پانامہ لیکس پر ہونے والے احتجاج کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش نے میاں نواز شریف کی تمام تر نیک نیتی کو مشکوک بنا دیا ہے۔

حکومت اور مسلم لیگ ن کے پروپیگنڈہ سیل نے حاصل کردہ نیک نامی کو میاں نواز شریف کے وطن پہنچنے سے پہلے ہی مٹی مٹی کردیا ہے۔ رائے ونڈ مارچ میں جس نے شریک نہیں ہونا تھا اب وہ بھی شرکت کر رہے ہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا میاں نواز شریف اقوام متحدہ میں اپنے خطاب سے قبل اپنے اوپر لگنے والے الزامات سے بریت حاصل کر لیتے اور ایک سچے اور کھرے لیڈر کی طرح دبنگ لہجے میں دنیا سے مخاطب ہوتے تو آج پاکستان سمیت مقبوضہ کشمیر ،بھارت میں صوتحال مختلف ہوتی ۔بے شک پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کی طرح کشمیر کیلئے ہزار سال جنگ لڑنے کا نعرہ مستانہ لگا کر وطن واپسی کرتے ، پھر دیکھتے کہ پاکستان کے جذباتی عوام ائیرپورٹ پر استقبال کیلئے امڈ آتے اور سر آنکھوں پر بیٹھاتے ، افسوس ہے ، افسوس ہے کے ہر بات پیسے سے نہیں بنتی اور نہ ہی نفع و نقصان کے اصولوں کے ذریعے عوام کے دل جیتے جا سکتے ہیں ۔

جناب وزیر اعظم حقیقت ہے کہ پیسے سے بڑے بڑے میڈیا گروپ ہمنوا بنائے جاسکتے ہیں مگر سچائی کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ یہ سچ ہے کہ حکومت کیلئے مسلہ کشمیر اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ جس قدر حکومت کو اپنے مفادات عزیز ہیں اور اپنی بقا کی فکر ہے۔ کشمیر وزیر اعظم کا مسلہ نہیں ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے