مقتول بھی میں اور قاتل بھی میں !

خدارا کوئی تو سمجھائے کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟؟

مہمند ایجنسی کی تحصیل انبار کے علاقے پائی خان کلی کی ایک کچی مسجد میں اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتے ہی ایک زوردار دھماکہ ہوتا ہے اور پلک جھپکتے میں چھتیس گھرانوں کی امیدیں خاک وخون میں نہلاجاتیں ہیں۔پائی خان کلی کی مسجد میں جو لوگ جمع تھے وہ بھی اُسی خدابزرگ وبرتر کی بڑھائی اور عبادت کے لئے آئے تھے اور وہ جس نے اللہ اکبر کی صدا کے ساتھ خود کو بارودی مواد سے اُڑا لیا وہ بھی اُسی خدا کی راہ میں جان قربان کرنے آیاتھا(یہ الگ بات کہ دوسرے جہان پہنچ کر اُسے اندازہ ہوا ہوگا کہ کتنا بڑا گناہ کر بیٹھا ہے جس کی مغفرت تاقیامت کسی صورت ممکن نہیں )۔میرے وطن اور خصوصا میرے بدقسمت صوبے میں یہ نہ تو پہلا دھماکہ تھا اور نہ ہی کسی مسجد میں جمعے کی نماز پڑھتے ہوئے پہلی بار بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا یا گیا۔اسی طرح کے سینکڑوں واقعات ہیں جس میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے ۔ہزاروں دیگر زخمی اور تمام عمر کے لئے معذور ہوئے(ہر بار جب بھی کسی دھماکے کی آوازسنائی دی تو اس کے ساتھ اللہ اکبر کی صدا بھی سنائی دینا لازمی ٹھہرا گویا مقتول بھی میں اور قاتل بھی میں۔گولی بھی میری ،بندوق بھی میرا اور چھلنی ہونے والا سینہ بھی میرا اپنا) مگر آج تک ارباب اختیار نے کوئی بھی بات واثوق سے نہیں کہی کہ یہ ہو کیا رہا ہے ؟؟؟ کون کر رہاہے یا کروا رہا ہے ؟؟؟ زیادہ سے زیادہ غیر ملکی ایجنسوں خصوصا بھارتی ایجنسی را ، امریکن سی آئی اے اور اسرائیلی موساد پر الزام دھر دیا جاتا ہے(آج کل اس میں افغان انٹلیجنس ایجنسی کا اضافہ ہوگیا ہے) مگر ثبوت آج تک عوام کے سامنے نہیں لایا گیا ۔ اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ نقصان ہم پختونوں کا ہورہاہے بلکہ اب تو دہشت گردوں نے ایک طرح سے اپنا طریقہ کار بدل لیا ہے اور تعلیم یافتہ پختونوں کو ختم کرنے کا جیسے تہیہ کرلیا ہے ۔

گزشتہ چند مہینوں میں ہوئے واقعات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات باآسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ اب دہشت گرد ہر اُس جگہ کو نشانہ بنا رہے ہیں جہاں میرے اعلی تعلیم یافتہ بھائی موجود ہوں یا تعلیم حاصل کر نے کے لئے سرگرداں ہوں ۔آرمی پبلک سکول پشاور سے پہلے بھی کئی سکولوں اور مدرسوں کو نشانہ بنا یا گیا تاہم آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد تو جیسے دہشت گردوں کو ایک نیا اور آسان ہدف ہاتھ آگیا(اے پی ایس پر حملہ پورے ملک کے لئے کسی زلزلے سے کم نہ تھا) جس میں نقصان بھی زیادہ ہوتا ہے اور جس کے اثرات بھی تادیر زندہ رہتے ہیں۔ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر حملہ ، بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر ایڈوکیٹ بلال انورکاسی شہید کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد سول ہسپتال کوئٹہ میں خودکش دھماکہ(جس میں 75سے زائد وکلاء شہید ہوئے ،زیادہ تعداد ہائی کورٹ وکلاء کی تھی ) ،مردان کچہری گیٹ پر خودکش حملہ،تین وکلاء اور دو پولیس اہلکار وں سمیت نو افراد شہید ہوئے(یہاں بھی خودکش بمبار کا نشانہ بار روم تھا تاہم پولیس اہلکار کی بہادری کی وجہ سے خودکش بمبار نے خود کو برآمد ے میں بلاسٹ کیااور اگر خدانخواستہ وہ بار روم میں داخل ہو جاتا تو سانحہ کوئٹہ جیسا ایک اور عظیم سانحہ رونما ہوچکا ہوتا کیونکہ اُس وقت بار روم میں مردان بار ایسوسی ایشن کی جنرل باڈی کا اجلاس جاری تھا جس میں کم سے کم بھی 70,80وکلاء شریک تھے )۔ دہشت گردی کے یہ تما م واقعات ثابت کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کی پیاس عام پختون کے خون سے نہیں بجھی(بازاروں اور مارکیٹوں میں دہشت گردی اور بم دھماکوں میں ہزاروں کی تعداد میں میرے پختون بھائی لقمہ اجل بنے ) اوراب دہشتگرد چن چن کر اُن مقامات کو نشانہ بنا رہے ہیں جہاں اعلی تعلیم یافتہ پختون دماغ موجود ہوں ۔

پشتو کی ایک کہاوت ہے (مڑھم زہ شم اور پڑ ھم زہ شم )اگر دیکھا جائے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں خیبر پختونخوا اور پختون قوم نے دیں ہیں ۔ہزاروں شہید ،ہزاروں زخمی اور معذور ہوئے ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں اپنا گھر بار چھوڑ کر دربدر ہونے پر مجبور ہوئے تاہم آج تک کسی نے ملک سے علیحدگی کی بات نہیں کی (وہ عوامی نیشنل پارٹی جو کبھی آزاد پشتونستان کا نعرہ لگایا کرتی تھی اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتی تھی تاہم اپنے مشر اسفندیار ولی خان پر خودکش حملے اور بشیر احمدبلور سمیت کئی کارکنان کی شہادت برداشت کر گئی لیکن کبھی ملک سے علیحدہ ہونے کی بات نہیں کی )۔اتنی قربانیوں اور مملکت خداداد پاکستان سے بے لوث محبت کے باوجودبھی اگر کسی ڈرامے ، فلم یا کارٹون میں دہشت گرد دکھانا مقصود ہو تو اُس کا حلیہ ہوبہوہم پختونوں جیسا دکھایا جا تا ہے جیسے تمام پختون دہشت گرد اور سارے کا سارا خیبرپختونخوادہشت گردی کا مرکز ہو۔(خصوصا جب پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے ایسا کیا جاتا ہے تو دکھ اور بھی جان لیوا ہوتا ہے )

چند معصوم سے سوال ذہن کو الجھائے رکھتے ہیں ۔کیاپنجابی طالبان کا وجود نہیں ؟؟؟ کیا بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند وں کی موجودگی کسی سے ڈھکی چھپی ہے ؟؟کیا کراچی میں متحدہ سمیت دیگرکالعدم تنظیموں کے دہشت گرد بھی شلوار قمیص ہی زیب تن کرتے ہیں ؟؟؟کیا کراچی کے سانحہ صفورا کے مجرموں کا تعلق بھی خیبرپختونخوا سے تھا ؟؟کیا میرے پیارے وطن کے پالیسی سازوں نے ایک منٹ کے لئے بھی سوچا ہے کہ وہ باقاعدگی سے جو اقدامات اٹھا رہے ہیں آخر میں اس کا خمیازہ کس کو بھگتنا پڑے گا؟؟ کیا ہماری انٹلی جنشیا نے سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا(بنگالیوں کو بھی ہماری اسٹیبلشمنٹ دوسرے درجے کاشہری سمجھتی تھی )

خدا را! بس کردو اب تو ہمت جواب دینے لگی ہے کب تک ہم پختون اپنے بھائی،بیٹوں کے جنازے بھی اٹھاتے رہیں گے اور دہشت گرد ہونے کے طعنے بھی سنتے رہیں گے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے