اب بھی امید رکھیں بہار کی؟

مجھے ابھی بھی کوئی امید تھی۔۔ کچھ بہتر ہو سکتا ہے، شاید کچھ اچھا ہو ہی جائے۔۔ لیکن اس ایک شخص نے بہت تنگ کیا ہے، بہت مایوس کر دیا ہے۔۔ اب یہ طے ہے کہ اس بھائی سے کسی اچھے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔۔

ہم نے سوچا تھا۔۔ یہ جسٹس وجیہ الدین جیسے پاک صاف جج کے ساتھ مل کر چل رہا ہے کچھ اچھا ہو سکتا ہے۔۔ لیکن وہ بھی اب پارٹی کے لیے اور پارٹی ان کے لیے مرحوم ہو چکی۔۔ ہم نے سوچا تھا مخدوم جاوید ہاشمی جیسا اچھا صاف ستھرا سیاستدان ان کے ساتھ جا ملا ہے تو پارٹی کا مستقبل تابنا ک ہو گا۔۔ مگر باغی نے جب دیکھا کہ پارٹی کی ڈوریاں کہیں اور سے ہل رہی ہیں تو اس نے اپنے آپ کو پارٹی سے دور کر لیا۔۔ پھر یوتھیوں نے باغی کو داغی قرار دے دیا۔

مجھے امید تھی کہ کپتان کی آنکھوں سے جہانگیر خان ترین اور علیم خان کی باندھی ہوئی سیاہ پٹی اتر جائے گی، دوسروں کی کرپشن کے علاوہ عمران جیسے شفاف انسان کو اپنے ان دو ساتھیوں کی کرپشن بھی نظر آنا شروع ہو گی اور اڈا پلاٹ میں لگائے گئے سٹیج پر وہ اپنے کارکنوں سے کہے گا ان دونوں کرپٹ افراد کو یہاں سے بھگا دو۔۔ انہیں بھی جاتی امرا چھوڑ آؤ کیونکہ یہ بھی کرپٹ ہیں اور وہ بھی کرپٹ۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

۔

مجھے امید تھی عمران کبھی مصلحت کا شکار ہو کر ایم کیو ایم کے ساتھ ہاتھ نہیں ملائے گا لیکن کراچی میں اپنا پہلا جلسہ کرنے کے لیے اس نے ہاتھ ملایا، ڈاکٹر عارف علوی نے ایم کیو ایم کے ساتھ رابطہ رکھا اس کی آڈیو ریکارڈنگ کی تردید بھی پی ٹی آئی نے نہیں کی۔۔ اس جلسے میں مجھے امید تھی کپتان اپنی کارکن زہرہ آپی کے قاتلوں کو سخت الفاظ سے پکارے گا مگر امیدیں ٹوٹ گئی تھیں۔۔

مجھے یہ امید تھی عمران اپنی پارٹی میں کسی لوٹے کو شامل نہیں کرے گا لیکن اس کی پوری جماعت ایک ڈرائی کلیننگ کا ادارہ بن گئی ہے جہاں ہر کرپٹ سیاستدان پی ٹی آئی کا دوپٹہ گلے میں ڈال کر صاف شفاف ہو کہتا ہے صاف چلی شفاف چلی تحریک انصاف چلی۔۔اب تو وہاں ہر طرف لوٹے ہی لوٹے دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے مشکل وقت میں پارٹی چلائی آج وہ بہت پیچھے رہ گئے ہیں، اس حوالہ سے امیدیں بھی دم توڑتی دکھائی دیتی ہیں۔۔

پھرامید تھی کہ اس زرداری ۔ جس کو کرپشن کا شہنشاہ کہتے زبان نہیں تھکتی تھی اس کا ساتھ کبھی نہیں دیں گے۔۔ لیکن اس کی پارٹی سے بھی ہاتھ ملا لیا، دلیل یہ کہ نواز شریف بھی ایسا کرتا رہا ہے ۔۔ پھر آپ میں اور ان میں کیا فرق رہ گیا، کچھ امید مزید ٹوٹی۔۔

مجھے اب بھی امید تھی۔۔ کہ شاید کسی روز عمران خان کو سمجھ آ جائے اور وہ شیخ رشید احمد کو کہہ دے کہ بھائی آج سے چودہ سال پہلے جو میرا موقف تھا تمہارے بارے میں وہ درست تھا، تمہیں میں اپنا چپراسی بھی نہ رکھوں ۔۔ اس لیے سٹیج سے اتر جاؤ۔۔ لیکن کمال ہے شیخ رشید احمد نے رائے ونڈ احتجاج میں خطاب کرتے ہوئے کہا یہاں کے شرکا اگر پیشاب کردیں تو جاتی امرا میں سیلاب آ جائے گا۔واہ کیا خوب زبان کا استعمال ہے، شیخ صاحب کے منہ میں یہ لفظ کتنا جچ رہا تھا ۔

ایسی زبان استعمال کرتے ہوئے چلو اپنے شیخ صاحب کو شرم نہیں آئی کیونکہ وہ کبھی گھر میں رہے ہی نہیں، شادی شدہ نہیں رہے ۔۔۔ لیکن اپنے عمران خان صاحب تو اس حوالہ سے بہت زیادہ تجربہ کار ہیں، وہ ہی کچھ شیخو کو سمجھا دیتے مگر انہوں نے بھی کافی ریکارڈ توڑنے تھے۔ تقریر شروع کی تو وزیر اعظم نواز شریف کو صاحب کہہ کر بلاتے رہے، مریم نواز بھی مریم بی بی رہی۔۔ لیکن اچانک زبان جو پٹری پر چڑھی تو پھر تمام فاصلے مٹ گئے اور پھر بقول شاعر۔۔ آپ سے پھر تم ہوئے پھر تو کا عنواں ہو گئے۔۔

اپنے ہم منصب یعنی اپوزیشن پارٹی کے سربراہان کو کہنے لگے میں تم سے کوئی رشتہ لینے تھوڑا ہی جا رہا تھا لاہور میں۔۔ یہ بات انہوں نے دوسری بار منہ سے نکالی حالانکہ شرفاء میں اسے بہت معیوب جانا جاتا ہے لیکن ان سے پوچھیں گے تو وہ بھی سوال کرسکتے ہیں کہ نوازے کا ساتھ دینے والے شرفاء کیسے ہو سکتے ہیں؟۔۔ سوال میں دم بھی ہے کیونکہ ان کا شاید اصول ہے کہ جو انہیں ووٹ دے گا صرف وہ شریف ، ایماندار اور صحیح العقل ہیں باقی سب بدمعاش، بے ایمان اور پاگل ہیں۔

کوئی بتائے ان کو۔۔ جناب آپ جس عمر میں رشتے کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں ہمارے خاندان اور محلے کے بزرگ اس زمانے میں بچوں کوتلاوت قرآن پاک اور نماز کی افادیت سمجھا رہے ہوتے ہیں۔۔ میرے ایک دوست کا عمران کے لیے مفت مشورہ ہے ، بہتر ہو گا آپ اپنے لیے رشتے کے بجائے کتبے تلاش کرنا شروع کریں۔۔ اب یہ نہ پوچھئے گا کس کے کتبے؟آپ کوئی کاکے نہیں ہیں یہ بھی نہ سمجھ پائیں کتبے اس عمر میں کس چیز کے ڈھونڈے جاتے ہیں۔

بہرحال۔۔ امیدیں دم توڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔ وجہ کوئی اور نہیں، صلاحیتوں کا فقدان ہے، اچھا سیاستدان وہ ہوتا ہے جو غلط موقع پر درست فیصلہ کر کے صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے، یہاں اس لیڈر شپ کا فقدان ہے۔۔ یہاں احتجاج کے پہلے مرحلہ میں ہی دھرنا کا اعلان ہوتا ہے، دھرنا ایک سو چھبیس روز تک جاری رہا، بے نتیجہ ختم ہوا۔ پھر بھی امید تھی۔۔ کسی روز عمران کو احساس ہو گا کہ حکومت کو ان ہتھکنڈوں سے ختم کرنے کی روایت جو ایک بار چل پڑی تو پھر آپ کی حکومت بھی ایسے ہی گرا دیں گے گرانے والے۔۔ وقت کا انتظار کریں، جہاں آپ کو حکومت کرنے کا موقع ملا ہے وہاں مثالی کام کر کے دکھائیں، لوگوں کے مسائل حل کریں لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔

پھر بھی امید تھی ۔۔ عمران۔۔ اس مرتبہ جاتی امراء پہنچ کر یہ اعلان کر سکتا ہے کہ ملکی حالات کے پیش نظر میں نواز شریف کے خلاف نہیں بھارتی فوج اور مودی سرکار کے خلاف احتجاج کروں گا۔۔ اوئے نواز شریف کہنے والے سے امید تھی وہ اوئے مودی کا نعرہ لگائے گا۔۔ لیکن کان ترس گئے، مودی کے حوالہ سے بات بھی کی تو اپنی ملاقات کا تذکرہ کیا، یہ بھی بتایا کہ مودی گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کر چکا ہے پھر بھی انہیں امید تھی کہ وہ وزیر اعظم بن کر سدھر جائے گا لیکن امیدیں ٹوٹ گئیں۔۔ عمران درست کہتا ہے ۔۔مودی سے ان کی امیدیں بھی بالکل اسی طرح ٹوٹیں جس طرح ہماری عمران کے ساتھ وابستہ تمام امیدیں ٹوٹ گئیں۔کیا اب بھی شاعری پر اعتبار کرتے ہوئے امید بہار رکھیں یا خاموشی سے پرانی تنخواہ پر کام کرتے رہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے