"مناظر اسلام” کا گھناونا کردار

پاکستان کے مشہور نام نہاد مناظر اسلام کہلانے والے کا چہرہ

بڑےمفتی صاحب کے نام روزانہ ڈھیر سارے خطوط آتے تھے ، میری ذمہ داری تھی کہ ان خطوط میں سے اہم خطوط اور استفتائوں کو الگ کروں اور غیر اہم خطوط کی چھانٹی کروں ۔۔۔

وہ ایک دبیز لفافہ تھا ۔ میں نے اسے کھولا اور سرنامہ دیکھ کر ٹھٹک گیا ۔ کیونکہ یہ ایک تفصیلی خط تھا جو ایک بہت ہی معروف عالم دین کی اہلیہ اور تبلیغی جماعت کے ایک بہت بڑے بزرگ کی دختر کی جانب سے تحریر کیا گیا تھا ۔۔۔ میں نے اسے پڑھنا شروع کیا تو میرے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے اور میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی ہونے لگی ۔ میرے ہاتھوں میں تھوڑا سا ارتعاش ہونے لگا۔۔۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا ۔ میں سوچنے لگا شاید یہ کسی نے بہت ہی بے ہودہ اور ظالمانہ مذاق کیا ہے ، شاید ایسا سوچنا میرے اپنے لاشعورکی خواہش تھی ، کیونکہ جس معتبر عالم دین اور خطیب و مناظر کے بارے میں دوٹوک انداز میں انکشافات کئے گئے تھے ، میرا لاشعوراس سے فرار کی راہ تلاش کررہا تھا، وہ ان باتوں کی تکذیب کا خواہاں تھا ۔۔۔خط کے آخر میں محترم خاتون نے اپنا فون نمبر بھی دیا ہوا تھا اور مزید تحقیق احوال کیلئے رابطے کی درخواست کی تھی ، میں نے خط چپکے سے اپنے جیب میں منتقل کیا اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی ٹھان لی ۔۔۔۔۔

اگلے دن جمعہ تھا اور میں پوری طرح سے فارغ تھا . میں نے وہ خط نکالا اور دوبارہ پڑھا ، پھر ایک بار پڑھا ، خط میں حرمت مصاہرت کے حوالہ سے فتویٰ طلب کیا گیا تھا مگر میں مفتی صاحب کے سامنے یہ استفتا رکھنے اور ان کا جواب لینے سے قبل محترم خاتون سے خود مل کر سارا قصہ سننا چاہتا تھا ۔ وہ جہاں رہائش پذیر تھی اس کے قریب ہی میرے ایک دوست کا مدرسہ تھا میں نے اپنے دوست کو فون کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنے گھر یا مدرسہ میں پردے کے مناسب ماحول کے انتظام کے ساتھ اس خاتون سے ملاقات کا اہتمام کرالے ۔۔۔ دوست نے حامی بھری اور جمعہ کے بعد اس میٹنگ کو فائنل کرنے کی کال دیدی ۔۔۔میں اپنا موبائل پوری طرح چارج کرکے اور اپنی ڈائری لے کر بائیک پر بیٹھا اور اپنے دوست کے گھر پہنچ گیا۔۔۔محترم خاتون پہلے ہی تشریف لاچکی تھیں ، بیچ میں ایک پردہ لٹکاکر پردے کا انتظام کرلیا گیا تھا۔۔۔۔

میں نے پہنتچے ہی سلام کیا اور سلام کے بعد ان کے والد مرحوم کے ساتھ اپنی عقیدت اور ان سے استفادے کا حال بیان کیا اور انہیں تسلی دی کہ وہ پورے بسط اور اطمینان قلب کے ساتھ اپنا مسئلہ میرے سامنے بیان کرسکتی ہیں ۔۔۔۔کچھ دیر خاموشی چھائی رہی ، شاید خاتون اپنا حوصلہ مجتمع کررہی تھیں اور بکھرے خیالات کو کچھ ترتیب دینے کی کوشش کررہی تھیں ، مختصر وقفے کے بعد اس نے اپنا گلا کنگھارا اور گویا ہوئیں ۔۔۔۔۔۔

میں اپنے والد کی لاڈلی بیٹی تھیں ، میرے والد محترم مفتی زین العابدین رحمہ اللہ ، زندگی بھر اللہ کے راستے کی طرف لوگوں کو بلاتے رہے ، ان کے تبلیغی خطبے آج بھی پوری دنیا میں شوق سے سنے جاتے ہیں ۔میری تعلیم و تربیت میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔۔ جب سن بلوغ کو پہنچی تو انہوں نے میرا نکاح اپنے ہی مدرسے کے ایک مدرس مولاناسید انور علی شاہ کے ساتھ سادگی سے پڑھا دیا ۔۔۔ وہ ایک جید عالم دین اور اللہ کے ولی تھے ، ان کا تعلق بنوں سے تھا اور سادات خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ زندگی کے کتنے برس ہم نے اکھٹے گذارے اور انہوں نے مجھے کبھی کسی شکایت کا موقع نہیں دیا ۔ ہمارا کبھی گھر میں کوئی جھگڑا نہیں ہوا نہ کبھی کسی بات پر کوئی بڑا اختلاف پیدا ہوا۔ ان سے میرے پانچ بچے پیدا ہوئے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ،بائیس سال حیات مستعار کے گذرے اور پھر اس کے بعد فرشتہ اجل آپہنچا ، میرے خاوند کا انتقال ہوگیا ، میرے گلستان کو گویا نظر لگ گئی اور بادسموم نے میرا گلشن اجاڑ دیا ۔ اگر چہ بھائیوں کی پوری سپورٹ مجھے حاصل تھی اور مجھے دنیاوی اعتبار سے کوئی کمی نہیں تھی ، مگر شوہر ایک شجر سایہ دار ہوتا ہے ، وہ شجر نہ رہا اور ظالم دھوپ نے میرے گھر کے آنگن میں ہرے بھرے پھول کملا دیئے ۔۔۔۔۔ پھول جیسے بچوں کی یتیمی کا درد کیا ہوتا ہے یہ ایک ماں سے زیادہ کون جان سکتا ہے ۔

میں ماں سے زیادہ باپ بن کر اپنے بچوں کی پرورش کررہی تھی ، تنگ دستی کوئی نہیں تھی اور اپنے بھائیوں کا بھی بھرپور سپورٹ مجھے حاصل تھا ، کہ ایک دن سرگودھا کے ایک مولوی صاحب نکاح کا پیغام لے کر میرے گھر پہنچ گئے ۔۔میرے بھائیوں سے ملے اور اپنی جادو بیانی اور مصنوعی اخلاق سے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ مجھے اگر چہ مزید نکاح کی ضرورت نہیں مگر مجھے اسلام کی سنت زندہ کرنی ہے

[pullquote] کیونکہ پنجاب میں آئے روز یہ سنت مرنے لگی ہے اور لوگ بیوگان سے نکاح کو معیوب سمجھتے ہیں ایسے میں اگر میں ایک سنت زندہ کروں گا تو نہ صرف مجھے بلکہ آپ لوگوں کو بھی سو شہیدوں کا اجر ملے گا۔ [/pullquote]

مولوی صاحب معروف آدمی تھی اور اپنی چرب زبانی قادرالکلامی اور مناظرانہ صلاحیتیوں سے اپنا اچھا خاصہ حلقہ بنا چکے تھے ، سینکڑوں لوگ اس کی پرجوش تقریریں سننے آتے تھے اور جلسوں و مناظروں میں انہیں شوق سے بلایا جاتا تھا ، بھائیوں نے جواب دیا ہم اپنی بہن کی رائے معلوم کریں گے ، میرے پاس آئے اور مولانا کا مدعا بیان کیا کہ مقصود ان کا شادی سے حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ سے نسبت کا حصول بھی ہے ، احیا سنت رسول بھی اور یتمیوں کی کفالت کے ثواب کی تحصیل بھی …مگر عیب اس میں یہ ہے کہ مدرسہ کے نام پر چندہ خوری کے حوالہ سے بری شہرت کا حامل ہے.. مگر میرے کچھ رشتہ دار اس کی حمایت میں آگے بڑھے ..میری ذہن سازی کی .میں انکار نہ کرسکی آخر دلوں کے بھید خدا کے سوا کون جان سکتا ہے ، جب میں نے بڑے عالم دین کا ٹائٹل اس کے ساتھ لگا دیکھا تو سوچا شاید خدا کو مجھ پر رحم آگیا ہے اور اب میری زندگی میں روٹھی بہاریں پھر سے لوٹ آئیں گی ، میرے بچوں کو دست شفقت میسر آجائے گا اور وہ یتیمی کے درد سے قرار پاجائیں گے .

مجھے نہیں معلوم تھا کہ لباس خضر میں ملبوس میں کتنے بڑے فراڈیئے کے چنگل میں الجھنے والی ہوں اور کیسا ظالم درندہ مجھے اپنے دام فریب میں پھنسانے کیلئے اپنا جال بچھا چکا ہے ۔ شومئی قسمت میں نے نکاح کیلئے ہاں کردی ، اپریل کی پانچ تاریخ تھی اور سن تھا 2012 ، جب میں ایک بہروپیئے کے حبالہ عقد میں آگئی ۔۔۔

میں نے شرط یہ رکھی تھی کہ میں بدستور فیصل آباد میں اپنے ہی گھر میں قیام کروں گی اور اگر سرگودھا گئی بھی تو صرف خیرسگالی اور صلہ رحمی کے طور پر نہ کہ مستقل رہنے کیلئے ۔ انہیں کوئی اعتراض نہ تھا ، مہینہ میں ایک دو بار آنے ، کفالت کی ذمہ داری اٹھانے اور حقوق زوجیت اداکرنے کی اس نے حامی بھری ۔۔۔

شروع میں شاید مولوی صاحب میرے والد کی نسبت سے اپنے لئے مالی مفادات کے حصول کے خواہاں تھے ، میرے والد گرامی کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے متوسلین سے وہ رابطہ واسطہ بنانا چاہتے تھے اور مدرسے کے نام پر موٹا چندہ اس کا مطمع نظر تھا مگر مجھے معلوم نہیں تھا کہ موصوف کی روحانی بیماریاں صرف مال کے لالچ تک محدود نہیں ۔جب میرا نکاح ہورہا تھا، میری بڑی بیٹی کی شادی ہوچکی تھی ، دو چھوٹی تھیں ، ایک چودہ سال کی دوسری نو سال کی ۔۔۔۔

اس کی نیت کا فتور مجھ پر اس دن کھلا جب وہ مجھے سرگودھا اپنے گھر مدرسہ اور پہلی بیویوں سے ملانے لے جانے لگا۔۔۔ میرا بیٹا سولہ سترہ سال کا تھا ، گاڑی چلا سکتا تھا ، ڈرائیونگ سیٹ پر اسے بٹھایا مجھے کہنے لگا آپ آگے بیٹھ جائیں ، میں تو اپنی بچیوں کے ساتھ پیچھے بیٹھوں گا ، خدا نے مجھے کس نعمت سے نوازا ہے ۔۔۔۔ میری چھوٹی بیٹی تو سیٹ پر ہی سوگئی تھی ،

جب میں نے پیچھے دیکھا تو یہ میری بڑی بیٹی کے ساتھ چپک چپک کر اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کررہا تھا ، میں نےدیکھا ، میری بیٹی کے چہرے پر اذیت کے آثار تھے اور مولوی صاحب کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ ۔۔۔میں خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی ۔۔۔ گاڑی رکوائی اور بہانہ کرکے انہیں آگے بیٹھنے پر مجبور کیا ۔۔۔۔اس کے بعد اذیت کا یہ نہ ختم ہونے والا سفر شروع ہوگیا ۔

جب بھی گھر آتا حیلے بہانے سے بیٹیوں کے کمرے میں جھانکتا کبھی آئیس کریم کے بہانے کبھی کسی چیز کے بہانے انہیں باہر لے جانے کی کوشش کرتا ۔میں مزاحم ہوتی تو کبھی غصہ کرتا قسمیں کھاتا کہ میں انہیں باپ کا سچا پیار دینے کی کوشش کررہا ہوں اور تم خامخواہ شک کررہی ہو ۔ مگر مفتی صاحب آپ کو پتہ ہے اللہ نے عورت کو ایک اضافی حس سے نوازا ہے ، وہ مرد کی آنکھوں میں ہوس اور شہوت کی چمک محسوس کرلیتی ہے ۔

میں ایک کمزور عورت تھی اور وہ ایک طاقتور بھیڑیا ، وہ مجھے اپنی بیوی کی بجائے راستے کی دیوار سمجھنے لگا۔۔۔میرے لئے اس کے ہر انگ سے نفرت کے فوارے پھوٹتے ، بات بات پر گالیاں طعنے اور جھڑکیاں اس کا معمول بن گیا ۔۔۔۔ مگر میں بھی ہار ماننے کیلئے تیار نہیں تھی ۔ میں نے فیصلہ کرلیا تھا کچھ بھی ہوجائے اس درندے کو میں اپنی بچی سے کھیلنے نہیں دوں گا۔۔۔ ایک کمزور بے بس اور لاچار ماں بیٹی اور ایک ہوس زدہ بھیڑیئے کے درمیان یہ کھیل روز کا معمول بن گیا ۔۔۔ یہ حیلوں بہانوں سے میری بچیوں سے پیار کی کوشش کرتا. میں روکتی تو حدیثوں کے حوالے دیتا ، بنات رسول کے قصے سناتا ،

میں کہتی آپ کیلئے یہ جائز نہیں کہ آپ میری بچیون کا ماتھا چومو، انہیں مس کرو یہ آپ کی بچیاں نہیں ہیں مگر اس کے سر پر تو شیطان سوار رہتا تھا ۔۔۔صرف اسی پر بس نہیں کرتا تھا ، میں نے ایک غریب لڑکی ملازمہ رکھی ہوئی تھی گھر کے کام کاج کیلئے ، یہی کوئی دس سال کی ، یہ خبیث الفطرت انسان اسے بھی معاف نہیں کرتا تھا ، ایک دن میں بچوں سمیت باہر گئی تھی بھائیوں کے گھر واپس آئی تو یہ درندہ اس چھوٹی سی بچی کے ساتھ بھی غلط حرکات کا مرتب ہوچکا تھا ،

بچی نےمجھے سارا قصہ سنایا ، میرے دل پر آرے چلنے لگے ، مگر میں بے بس تھی کس سے اپنا دکھ بیان کرتی ، ۔۔۔۔یہ کہہ کر محترم خاتون نے اپنا موبائل پردے کی اوٹ سے میری طرف بڑھایا اور کہا یہ لیں آپ خود سن لیں یہ بچی کیا کہہ رہی ہے ۔۔۔

میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ خواتین کے سامنے یہ کلپ دیکھوں ، سو اپنے دوست کے ساتھ کمرے سے باہر نکل آیا ۔۔۔وہ بچی کہہ رہی تھی ۔۔۔بابا جی میرے پاس آیا۔۔۔مجھے گلے لگایا ۔۔۔میرا ماتھا چوما اس کے بعد میرا ہاتھ پکڑ کر ………………………………(وہ جملے ناقابل تحریر ہیں ، اس لئے حذف کر دیے گئے ، صاحب تحریر سے معذرت . ایڈیٹر ) کھیلو۔۔۔۔۔۔۔ میں یہ کلپ دیکھ کر کانپ کر رہ گیا ، ایک اتنا بڑا عالم دین اور ایسی شیطانی حرکتیں ۔۔۔زمین کیون نہیں پھٹتی اور آسمان کیوں نہیں گرتا۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلی بار جب میں سرگودھا میں اس کے گھر پہنچی تب مجھ پر آہستہ آہستہ اس کے اخلاقی دیوالیہ پن کے اسرار کھلنے لگے ، اس نے کہا تم بیٹھو میں تمہارے لئے چائے بنوا کر لاتا ہوں ، میں بیٹھی رہی، جب کافی وقت گذرگیا تو میں اٹھی اورکچن چلی گئی ، تنگ اور چھوٹا سا کچن تھا مولوی صیب بیج میں کھڑے ہیں اس کے مدرسے کی ایک جوان طالبہ ایک سائیڈ پر برتن دھورہی ہے دوسری چائے بنا رہی ہے اور تیسری سبزی کاٹ رہی ہے ، مولانا کبھی ایک سے مذاق کرتے ہیں کبھی دوسری کی چٹکی بھرتے ہیں ، میں نے گلا کھنگارا اور واپس کمرے کی طرف مڑی .

یہ میرے پیچھے چلے آئے ،،، میں نے کہا کیا آپ کو خدا کا خوف نہیں کیا ،،، مدرسے میں لوگوں نے جوان بچیاں اس لئے بیجھی ہیں کہ تم ان سے اپنے گھر کا کام لو اور پھر خود ان کے ساتھ گپ شپ لگاو،،، کیا تمہارے لئے شریعت نے نیا قانون نکالا ہے کیا تم پر ان سے پردہ کرنا واجب نہیں ،

وہ بے شرمی سے ہنسنے لگا نہیں نہیں ، میں تو ان کے باپ کی طرح ہوں ۔۔۔مدرسے میں کیا کچھ ہوتا رہا ، اگر دنیا کو پتہ چلے واللہ لوگ جاکر اس کا گھر اور مدرسہ دونوں جلادیں ، رات کو اس کی بیوی اٹھتی تھی کسی بھی لڑکی کو آواز دیتی ، دو تین گھنٹے یہ اسے اپنے خواب گاہ میں لے جاتا اور پھر اس کی بیوی اسے واپس مدرسہ میں چھوڑ آتی، لڑکیوں کو یہ مسئلے بیان کرتا استاد کی عظمت اور اس کی بات ماننے کے فضائل سناتا .. یوں انہیں اپنے شیشے میں اتارتا اور اپنے ہوس کا نشانہ بناتا، کتنی ہی معصوم لڑکیوں کی دامن عصمت اس کے ہاتھوں تار تار ہوئی۔

شریعت وہ مانتا کب تھا ، پہلی بیوی شریف عورت ہے اس نے مجھے بتایا جب اس نے یہ دوسری شادی کی جو اس کی دلالی کرتی ہے ،اور اسے مدرسہ کی ناظمہ اور معلمہ بنایا ہوا ہے. مجھے اور اسے دو سال تک ایک ہی کمرے میں ایک ہی بیڈ پر سلاتا رہا آخر مجھ سے برداشت نہ ہوا اور طریقے سے اپنا گھر الگ کرلیا ، مدرسے اور گھر کے صحن میں دروازہ تھا ، دو مدرسے تھے ایک لڑکوں کا ایک لڑکیوں کا ، کئی لڑکیوں سے میری بے تکلفی ہوگئی انہوں نے وہ وہ ہوشربا انکشافات کیئے یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے ، ایک میری اچھی دوست بن گئی اس نے بتایا جب بھی مولوی صاحب گھر ہوتے ہیں اس کی بیوی ان کیلئے ضرور کوئی نہ کوئی لڑکی مدرسے سے گھر بھیج دیتی ہے .

ایک رات ایک لڑکی کو لے گئے جب وہ واپس آئی رو رہی تھی ، گم صم ہوگئی ، چند روز بعد مولوی صاحب کی بیوی بیمار تھی اور مدرسے نہیں آسکتی تھی . مولوی صاحب خود اچانک اندر آگئے ادھر ادھر دیکھا اس وقت مدرسے میں بیس کے قریب لڑکیاں موجود تھیں ۔ اس نے اسی لڑکی کی طرف اشارہ کیا ، وہ چیخنے لگی اور ہم سب ایک دوسرے کےساتھ چپک کر بیٹھ گئی .

اگلی صبح جیسے ہی فجر کی آذان ہوئی اس لڑکی نے برقعہ پہنا اور نہ جانے کہاں غائب ہوگئی اس کے بعد اس کا کچھ پتہ نہیں چلا،لڑکیوں کے مدرسے کا نام اصلاح النسا رکھا تھا مگر یہاں لڑکیوں کی زندگیاں برباد کی جاتی ہیں ۔ مردان کا ایک نوجوان یہاں کام کرتا تھا ، اسکی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور اپنی بیوی کو اس نے مدرسہ میں داخل کروایا تھا ، ان دنوں ہوا یہ کہ مولوی صاحب کا چھوٹا بیٹا انتقال کرگیا ہم سب سرگودھا گئے ، بیٹے کا جنازہ گھر میں رکھا ہوا تھا اگلی صبح تدفین تھی ،سب اس گھر میں تھے وہ گھر خالی تھا مولوی صاحب دوسرے گھر گئے ،،اپنی بیوی سے کہا وہ مردان والی لڑکی بلالو ، وہ لڑکی گئی اس نے بعد میں مجھے قصہ بتایا ، کہ جب میں اندر گئی، چارپائی پر بیٹھ گئی مولوی صاحب غسل خانہ کے اندر تھے وہیں سے اپنی بیوی کو آواز دی تم جاو دروازہ بند کردو۔ میرا دل گھبرانے لگا .

مولوی صاحب غسل خانہ سے باہر آئے جیب سے پانچ سو روپے نکال کر مجھے دیئے کہ یہ رکھ لو ، میں نے کہا نہیں مجھے نہیں ہے ضرورت ، میں نے برقعہ پہنا ہوا تھا مولوی صاحب پیچھے سے آئے اچانک مجھے پکڑا اور میرا نقاب اتار دیا کہنے لگے اپنے پیر اور استاد سے کیا پردہ ، میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا میں نے کا بابا جی آپ کیا کررہے ہیں ایسا نہ کریں خدا کیلئے ، کہنے لگے فکر نہ کرو بس تھوڑا اداس ہوں تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو میرے ساتھ تھوڑا سا ٹائم گذارو گی تو میری اداسی ختم ہوجائے گی ، میں اس کا ارادہ سمجھ گئی ، میں نے کہا نہیں آپ مجھے جانے دیں اگر آپ مجھے جانے نہیں دیں گے میں یہ ساری بات کل اپنے خاوند کو بتاوں گی لیکن اگر تم مجھے کچھ نہیں کہو گے تو میں کسی کو بھی نہیں بتاوں گی اور تم میرے ساتھ زبردستی کروگے تو میں ابھی چیخنا شروع کردوں گی ۔۔۔ وہ تھوڑا سا گھبرایا، اپنی بیوی کو آواز دی کہ اسے لے جاو،

میں مدرسہ پہنچی میرے پاس موبائل تھا میں نے خاوند کو فون کیا اس نے کہا، کیا ہوا ؟ اس ٹائم کیوں فون کررہی ہے؟ میں نے کہا ابھی آجاو مجھے اس جہنم سے نکالو ۔ وہ آیا مجھے لے گیا ، یہ واقعہ اس نے بعد میں فون پر مجھے بتایا .

سوچئے درندگی کی انتہا نہیں کہ بیٹے کی لاش گھر میں پڑی ہے اور مولوی صاحب عیاشی اور خباثت کے چکروں میں پڑے ہیں۔۔۔قسم باللہ کوئی بھی یقین نہیں کرسکتا مگر جو میں نے دیکھا وہی بیان کیا .

بعد میں مولوی صاحب اس آدمی کے گاوں گئے اس کے پیروں پر اپنی پگڑی رکھ کر معافی مانگی کہ تم یہ بات نہیں پھیلائو، ورنہ مسلک بدنام ہوجائے گا،، مماتیوں کو ہمارے خلاف پروپیگنڈے کا موقع مل جائے گا ، غلطی ہر ایک سے ہوسکتی ہے تو مجھ سے بھی غلطی ہوگئی اور میں شیطان کے بہکاوے میں آگیا ، اصل میں اس لڑکے نے اسے دھمکی دی تھی کہ میں تمہیں چھوڑنے والا نہیں ، یہ خوف مولوی صاحب کو معافی مانگنے پر مجبور کرگیا ۔

میں نے سارے حالات کی خبر وفاق المدارس کے ناظم قاری محمد حنیف جالندھری صاحب کو دی تو انہوں نے کہا تم فکر نہ کرو ہم دو طالبات اپنے اس کے مدرسے میں بطور جاسوس داخل کریں گے وہ ہمیں سارے حالات کی خبر دیں گی تب ہم ان کے خلاف کوئی کاروائی کریں گے…اللہ کو علم ہے انہوں نے اس بارے میں کچھ کیا یا نہیں…

تصویریں نکالنے کا اسے بہت شوق تھا ، اس کا موبائل لڑکیوں کی تصویریوں سے بھرا رہتا تھا . لڑکیوں کے بے تحاشا نمبر تھے اس کے فون میں ، بے شرمی کی انتہا دیکھیں ہم ماں بچوں کے سامنے پرائی لڑکیوں کے نمبر ملا دیتا تھا اور ان سے گپ شپ لڑاتا تھا جب میں اعتراض کرتی تو کہتا پیر اور مرید میں کیا پردہ ،

اس کے سارے کرتوتوں میں اس کا شریک اس کا سکریٹری بھی تھا مدرسے کے قریب اس کو گھر لے کر دیا ہوا تھا ، کوئی پردہ نہیں تھا . پردہ ہوتا بھی کیوں جس لڑکی سے اپنے سیکرٹری کی شادی کرائی ہوئی تھی ، اسی سے تعلق تھا،،، پہلے خود شادی کا خواہاں تھا مگر پھر کسی وجہ سے اپنے سیکرٹری سے اسے بیاہ دیا ، جب ملتا سلام نہیں کرتا ،،، سیدھا گلے لگاتا وہ بھی اس بے غیرت خاوند کے سامنے ، داڑھی جس نے رکھی تھی اور مدرسہ اس نے بھی پڑھا تھا،،، نام عابد تھا مگر کرتوت شیطانوں کو بھی شرمادیں ،،

مولوی صاحب کے شوق صرف لڑکیوں تک محدود نہ تھے اللہ کی پناہ جب بھی موقع ملتا خوبصورت لڑکوں کو بھی نہیں چھوڑتا تھا، میں بیوی تھی اس کی ایسے قصے مجھ تک پہنچ ہی جایا کرتے تھے ، ایک قصہ تو کافی مشہور بھی ہوگیا تھا ، لیہ کسی جلسے میں گیا تھا وہاں چار نوجوان کم عمر لڑکے ملنے آئے ، مولوی صاحب انہیں اپنی بڑی پجارو گاڑی میں بٹھا کر نکل گیا ،،، شہر میں کسی جگہ اپنی گاڑی چھوڑی،،، رینٹ کی گاڑی لی اور شہر سے باہر ویرانے کی طرف چل پڑا ،،،،دو لڑکوں نے کسی کام کا بہانہ کرکے خود کو چھڑایا ، جو دو بچے تھے انہیں لے گیا،،، شام کا وقت تھا،،، رات ہورہی تھی جب خوب اندھیرا ہوا کہنے لگا میں نے کسی کیلئے ایک عمل کرنا ہے ،،، تم ساتھ دو گے ، روحوں کو حاضر کرنا ہے میں جو کہتا جاوں تم اسے طرح کرنا ، اندھیرے میں ان کے کپڑے اتروائے اور ان سے شیطانی عمل کرکے واپس پلٹا۔

قوم لوط والے عمل کے گواہ ان لوگوں سے بھی بااسانی مل جائیں گے جو جہادی ٹریننگ کے دوران اس کے ساتھ ہوتے تھے اور یہ وہاں بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا تھا ۔

تصویروں کی بات کررہی تھی نہ جانے کہاں نکل گئی ، وہ میری بھی بہت ساری فوٹوز نکالتا تھا میں منع کرتی تھی مگر یہ نہیں رکتا تھا ، بیوی کبھی کس حالت میں ہوتی ہے کبھی کس حالت میں ، وہ یہ نہیں دیکھتا تھا جھٹ سے موبائل سے تصویر لے لیتا تھا ، بعد میں مجھے پتہ چلا وہ یہ سب کس نیت سے کرتھا تھا ، میری بیٹی کی بھی بہت ساری فوٹوز لی تھیں اور پھر مجھے دکھائیں کہ یہ دیکھو تمہاری اور تمہاری بیٹی کی میرے ساتھ ہر طرح کی فوٹوز ہیں اگر تم میرے خلاف کسی کو کچھ بتاو گی تو میں یہ فوٹوز نیٹ پر ڈال کر تمہیں اور تمہاری بیٹی کو بدنام کردوں گا ،

جب پانی سر سے گذرا میں نے اپنے دیوبند کے تمام بڑے علما کو ایک تفصیلی استفتا لکھا کہ یہ شخص اس طرح اس طرح کرتا ہے. کیا میرا اس سے نکاح ٹو ٹ گیا ہے ، اس کو میرے اس خط کا علم ہو ا، پھر یہ سب سے ملا،،، سب کو بتایا کہ یہ میری بیوی کسی کے کہنے پر یہ سب کچھ کررہی ہے ،،،، مماتیوں سے اس نے بڑے پیسے لئے ہیں ،،،، یہ ہے وہ ہے آخر میں تو مجھ پر غلط الزامات لگانے تک سے باز نہیں آیا ، میں اپنا دکھ کسے بیان کرتی جن سے بھی بیان کیا سب نے یہی کہا بی بی صبر سے کام لو بات پھیلنے نہ پائے، پھیل گئی تو مسلک کی بدنامی ہوگی ،

میرے ابو کے ایک تعلق دار بڑے مولانا صاحب مدینہ منورہ میں رہتے ہیں ، انہیں بھی میں نے یہ سب کچھ بتایا ،،، جواب اس نے یہ دیا کہ یہ آپ کی غلط فہمی ہے میں نے ہر طرف سے پتہ کروالیا ہے یہ تو بہت اچھے آدمی ہیں ، میرا علم اپنے اوپر حضوری ہے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی اور بھگت رہی تھی اور وہ کہہ رہا تھا یہ افواہیں ہیں ،

میں اسے کیسے کہتی کہ آپ اپنے نام کے ساتھ اتنا بڑا شیخ لکھتے ہیں ،،، بڑے پیر بنے ہوئے ہیں مگر آپ دیکھ رہے ہیں،،، سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایک غلط بندے کو سپورٹ کررہے ہیں ، اس پیر صاحب سے جب مولوی صاحب کا تعلق بنا ،،، مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ جدہ میں یہ اس کیلئے ہزاروں لاکھوں ریال چندہ کرنے لگا ، پہلے اسے مرید بنایا اور جب دیکھا کہ بندہ اپنی لائن کا ہے تو سیدھا خلیفہ بنادیا ، اور جب میرے خط کی وجہ سے مولوی صاحب مشکوک ٹھہرے اور علما چوکنا ہوگئے تو اس کے سر پر دست شفقت رکھنے کیلئے یہ پیر صاحب ہر سال اس کے مدرسہ آنے لگے تاکہ لوگوں کے دلوں میں مولوی صاحب کی عزت بڑھے ، میرے والد نے ہماری یہی تربیت کی تھی کہ ہر جگہ شرعی پردے کا خیال رکھنا ہے مگر یہ پیر صاحب ان چیزوں کے قائل نہیں ، مریدنیوں کو پیار دیتے ہیں ان کے سر پر دست شفقت رکھتے ہیں ، کیا ایسا کوئی شخص پیری کے لائق ہوسکتا ہے جواپنی مریدنیوں سے پردہ نہ کرے ؟

پہلے تو مولوی صاحب نے میرے والد کے نام کو خوب استعمال کیا ، ہر جگہ ایسے لوگ ڈھونڈے جو میرے والد سے عقیدت کا رشتہ رکھتے تھے اور پھر ان سے خوب خوب چندہ کیا ، ایک بار ملائیشیا گئے اور خاص ان لوگوں کے پاس گئے جو میرے والد صاحب کے عقیدت مند تھے ،،، انہیں جاکر بتایا کہ میں مفتی صاحب کا داماد ہوں ،،،، انہوں نے اکرام کیا اور چندہ اکھٹا کرکے دیا ،،،، پھر ان سے کہنے لگا میرے لئے کسی جگہ اور مسجد کا انتظام کرو میں نے اپنی ایک بیوی یہاں رکھنی ہے اور میں ہر تین چار ماہ کے بعد چند دنوں کیلئے آیا کروں گا، انہوں نے کچھ وقت مانگا، اتفاق سے انہیں لوگوں میں سے کچھ لوگ جماعت میں ہمارے شہر آئے پھر ہمارے گھر آئے بھائیوں سے ملے اور جب انہیں ساری حقیقت بتائی گئی تو روتے ہوئے وہاں سے نکلے اور قسم کھائی کہ اب یہ بندہ وہاں قدم بھی نہیں رکھ سکے گا،

بھائی اس کا قتل کرکے دبئی مفرور ہوا،،، یہ اس کے گھر جانے لگا ،،، بیوی سے اس کے بغل گیر ہوتا اور وہ کہتی یہ مولوی تو میرا پتر بھی ہے اور یار بھی ۔توبہ توبہ کسی کو بھی نہیں چھوڑتا تھا۔۔جب یہ بات نکلی اور میں نے علما سے رابطہ کیا،،، ہر جگہ یہ پہچنتا انہیں قسمیں کھا کر یقین دلاتا کہ میں جھوٹ بول رہی ہیں اور قسمیں بھی کلما طلاق کے ساتھ ، جس کے دل میں اسلام اور شریعت کی روشنی ہوتی ہے کیا وہ اس طرح کی قسمیں کھا سکتا ہے ،

ان قسموں کی رو سے اس کی ایک بھی بیوی اس کے نکاح میں بچی نہیں ہے ۔ میں نے اپنے اس خط میں ایک لفظ بھی جھوٹ نہیں لکھا تھا میں کرتی بھی تو کیا کرتی کس کے پاس جاتی ، یا تو صبر کرکے یہ سب تماشا دیکھتی ،،،، اپنی بیٹی کو اس درندے کو سونپ دیتی اور چپ چاپ تماشا دیکھتی یا پھر خدا کے عذاب سے ڈرتی،،، علما سے رائے دریافت کرتی حرمت مصاہرت کے حکم پر عمل پیرا ہوتی ، میں آخر کیا کرتی ،

اب یہ ہر جگہ کہتا پھرتا ہے یہ سب مماتیوں کا کیا دھرا ہے واللہ باللہ تاللہ مجھے کسی نے بھی نہیں کہا کہ تم یہ خط لکھو یہ میرے ضمیر کی آواز تھی اور اللہ کی شریعت نے مجھے یہ حق دیا تھا کہ میں ایک ایسے کالے کرتوت والے انسان کے کرتوت ان علما کے علم میں لاتی تاکہ وہ اس کا سد باب کریں ورنہ یہ کتنی لڑکیوں کی زندگی برباد کرلے گا، کوئی بیوی اتنی طاقتور نہیں ہوتی کہ اپنے گھر میں کیمرے فٹ کرے اور اپنے خاوند کی ویڈیوز بنائے یا مدرسے کی لڑکیوں کے ساتھ یہ جو کچھ کرتا تھا اس کی ویڈیوز بنائے.

میں نے جو کچھ دیکھا ہے وہی بیان کیا ہے آپ کو اگر ثبوت کی تلاش ہے تو آج آپ اعلان کردیں کہ جن جن لوگوں کے ساتھ مولوی صاحب نے زیادتیاں کی ہیں وہ اس نمبر پر رابطہ کریں . انہیں تحفظ دیا جائے گا اور ان کے نام صیغہ راز میں رکھے جائیں گے . اللہ گواہ ہے بہت سارے لوگ حاضر ہوجائیں گے وہ غریب اور بے بس لوگ جن کی بچیوں کی زندگی اس درندے نے تباہ کی ،

یہ کہنا کہ یہ جھوٹ ہے اس پر میں اتنا کہوں گی جو لوگ بھی بغیر تحقیق کیئے مجھے جھوٹا کہہ رہے ہیں وہ ذرا مولوی صاحب کو اپنے گھر کی راہ دکھائیں اور پھر تماشا کریں کہ وہ آپ کی گھر کی عورتوں کے ساتھ کیا کرتا ہے ، کہنا آسان ہے بھگتنا مشکل ہے ، جن پر بیتی ہے ، وہ بے شک خاموش ہوں گے مگر ان کے سینوں میں بھی آتش فشاں دہک رہے ہوں گے،جب میرے یہ خطوط منظر عام پر آئے بہت سارے سارے لوگوں نے مجھے سے رابطہ کیا اور بتایا کہ اس درندے نے ان کی بہنوں ، بیٹیوں کے ساتھ بھی زیادتیاں کی تھیں ، میری باتوں کی تردید کرنے والے خدا کے غضب سے ڈریں میں نے وہی بیان کیا ہے جو میں نے دیکھا ہے جو میں نے محسوس کیا ہے خدا نہ کرے کہ آپ بھی کسی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہوں تب آپ کو پتہ چلے گا کہ اذیت کیا ہوتی ہے بے بسی کیا ہوتی ہے اور کس مپرسی کیا ہوتی ہے ۔کوئی ماں نہیں چاہتی کہ اس کی بچیاں بدنام ہوجائیں ، میں بھی نہیں چاہتی تھی ، اگر میں یہ باتیں ظاہر نہ کرتیں تو وہ درندہ میری بچی کی عصمت تار تار کردیتا ، ایک طرف بدنامی کا ڈر تھا اوردوسری طرف میری بچی کی عصمت دائو پر لگی ہوئی تھی ،میں یا تو بدنامی کا خطرہ مول لیتی یا پھر اپنی بچی کی عصمت دائو پر لگاتی۔

جو لوگ مجھے جھوٹا کہہ رہے ہیں وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اگر میری جگہ پر وہ ہوتے تو وہ کیا کرتے ؟مجھے کوئی مسرت نہیں ہورہی اپنے خاوند کے بارے میں ایسا کہتے ہوئے، ایک بیوی کا رشتہ اپنے خاوند سے ایسا نہیں ہوتا ، وہ ہر چیز برداشت کرتی ہے بھوک پیاس خوشی اور غمی وہ کبھی نہی چاہتی کہ اپنے خاوند کو بدنام کرے اس پر لوگوں کو جگ ہنسائی کا موقع دے مگر جب وہ ایسے حالات میں گرفتار ہوجائے کہ ایک طرف اس کی بچیوں کی عزت خطرے میں پڑ جائے دوسری طرف اس کا خاوند شریعت کو ایک مذاق بناکر اس کے ساتھ کھیلے تو مجھے بتائیں ایک دیندار عورت کیا کرے گی ؟ کیا وہ خدا کی شریعت کو دیوار پر پھینک کر اپنے ایسے خاوند کی ہر خواہش پوری کرے گی ؟

یہ خطوط پھیلنے کے بعد اس نے ہر حربہ آزمایا اس نے پنڈی کے ایک بڑے پیر اور شیخ جس کے نام کے ساتھ ہزاروی کا لاحقہ بھی آتا ہے اس کے بیٹے کو میرے پیچھے لگایا کہ تم اسے کسی طریقے سے ورغلائو تاکہ میں کل اسے جھوٹا ثابت کرسکوں کہ دیکھو اس کے تو بہت سارے مردوں کے ساتھ تعلقات تھے نعوذباللہ من ذالک ۔

اس پیر صاحب کا بیٹا خود بھی مفتی ہے مگر کند ہم جنس باہم جنس پرواز جو اس کے دوست ہوں گے وہ بھی اسی طرح ہوں گے اس نے لاکھ کوششیں کی اور میرے والد مرحوم مفتی زین العابدین رحمہ اللہ کے نسبت کے حوالے دیئے کہ تم اس مولوی سے جان چھڑائو، یہ تو ویسے بھی بڑا بدمعاش ہے میں آپ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں اور میں یہ سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں ، میں اس کو کیا بتاتی کہ مفتی صاحب کیا اب بھی میں تم لوگون کا اعتبار کروں گی ،

مجھے یقین ہے جو بھی اس کے مددگار ہیں وہ بھی اور یہ خود بھی اس دنیا میں بھی ذلیل و رسوا ہوگا اور آخرت میں بھی ذلت و ورسوائی اس کا مقدر بنے گی ، مجھے گلہ ہے اور شکوہ ہے اور بہت سخت شکوہ ہے میرے اپنے مسلک دیوبند کے بڑے بڑے علما سے جنہوں نے اسے روکنے کی بجائے ہمیشہ مجھے ہی صبر کی تلقین کی ، مجھے شکوہ ہے وفاق کے ناظم صاحب سے جس نے اس قسم کے مدارس کو بندکرنے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا ، مجھے سو فیصد یقین ہے وفاق والوں کے پاس ضرور اس قسم کی شکایتیں پہنچتی ہوں گی کہ بنات کے مدرسوں میں کیا کچھ ہوتا ہے ، پھر انہوں نے ایسے مدارس بند کرانے کیلئے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟

خدا کے دین کے ساتھ خدا کے دین کے نام پر کھلواڑ ہوتا رہا اور یہ گونگے شیطان بنے رہے ۔۔کیوں آخر کیوں ۔ کیا خدا کی شریعت سے انہیں اپنے مسلک کی عزت زیادہ عزیز تھی ؟ کیا ان معصوم بچیوں کی عزت اور عصمت کوئی معنی نہیں رکھتی جو اس جیسے درندوں کے ہاتھوں روز پامال ہوتی ہیں ، مجھے شکوہ ہے ان سادہ لوح دیندار لوگوں سے جو تحقیق نہیں کرتے اور جو بھی شکل خضر بنا کر پیری کا ڈھونگ رچا کر ان کے سامنے آتا ہے وہ انہیں سروں پر بٹھالیتے ہیں اور پھر ان ساری باتوں کو پر کاہ اہمیت نہیں دیتے جو ان جیسے دونمبر لوگوں کے بار میں بتائیں جاتی ہیں ، یہ جس پیر صاحب کا ذکر میں نے کیا ، اس کے بارے میں کچھ عرصہ قبل ایک کتابچہ بھی چھپا تھا اور اس میں اس کے سارے کرتوتوں کی تفصیل تھی مگر اس نے کمال عیاری سے وہ کتابچہ ہی غائب کروادیا ،ایسے لوگ ایک دوسرے کو تحفظ دیتے ہیں تاکہ لوگوں کا اعتماد ان پر قائم رہے ، میں نے یہ ساڑے تین سال کس جہنم میں گذارے ، میں روز جیتی رہی اور روز مرتی رہی ، جو مجھ پر بیتی خدا کسی مسلمان پر نہ بتائے ،

جو کچھ میں نے آپ سے بیان کیا یہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں جو میں نے دیکھا جو میں نے محسوس کیا، میں جانتی ہوں میں اپنے مجرم کو شاید دنیاکی کسی عدالت میں نہیں گھسیٹ سکوں نہ ہی ہماری عدالتی نظام سے مجھے اس بارے میں کوئی ریلیف ملنے کی امید ہے مجھے انتظار ہے اس دن کا جس دن ایک ایسی عدالت لگنے والی ہے جہاں کوئی بے انصافی نہیں ہوگی اور کوئی ظالم بچ نہیں سکے گا جہاں مظلوم سروخرو اور ظالم سارے خدا کی پکڑ میں آکر بلبلا رہے ہوں گے بس مجھے اسی دن کا انتظار ہے ۔۔۔۔

اتنا کہنے کے بعد ان کی آواز رندھ گئی اور میری آنکھوں سے آنسو نکل ، میں نے اپنے آنسو صاف کئے اور بوجھل دل کے ساتھ وہاں سے نکل آیا.

[pullquote]نوٹ
[/pullquote]

مفتی ریحان صاحب کی اس تحریر کے جواب میں اگر وفاق المدارس کی اتنظامیہ ، الیاس گھمن صاحب یا کوئی اور جواب دینا چاہیے تو آئی بی سی اردو کے صفحات حاضر ہیں .

مفتی ریحان صاحب نے مولانا سلیم اللہ خان اور مولانا محمد احمد لدھیانوی سمیت کئی علماء کے خط بھی بھیجے ہیں جنہوں نے الیاس گھمن سے اعلان لا تعلقی کیا ہے .اس کے ساتھ دس سے زائد آڈیوز ، ویڈیوز بھی موجود ہیں . مذکورہ خاتون کی جانب سے مکتب دیوبند کے علماء کو لکھا گیا خط بھی آئی بی سی اردو کے پاس موجود ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے