قومی وملکی مفاداور آزاد خارجہ پالیسی

قومی یا ملکی مفاد اور خارجہ پالیسی در اصل ایک قوم کا مقصد عزم اور ہدف ہوتا ہے، چاہےوہ مفادات و عزائم معاشی، اقتصادی ،فوجی یا ثقافتی ہو ۔ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ملکی مفاد قومی مفادات ،قومی مقاصد کا اظہار ہے اور اسے قومی امنگوں کے مطابق ڈھالنا ہوتا ہے ۔ملکی داخلی ضروریات اور عالمی سیاست میں بیرونی تبدیلیوں کے مطابق وقت کے ساتھ ایک خود مختار ریاست اپنی خارجہ پالیسیوں میں تبدیلی لاتی رہتی ہیں ۔ تاکہ ملکی وقومی مفادات کا حصول ممکن ہوسکیں۔اور خارجہ پالیسی از سر نو مرتب ہوکر دیگر اقوام اور ملکوں کو ملکی مفاد اورخارجہ پالیسی کا علی الاعلان اظہار کیا جاسکیں ۔ پاکستان کے قومی مفاد کو ہمیشہ بیرونی طاقتوں کی طرف سے متاثر کیا گیا ہے۔

ایک ملک اپنی بقاء کے حصول کے لئے قومی سلامتی، اقتصادی خوشحالی اوردیگر مفادات کے حصول کے لئے اہداف مقرر کرتے ہوئے اس کے لئے پیش بندی کرتے ہیں ۔مملکت پاکستان کو اپنے قومی مفاد اور خارجہ پالیسی ملک کی اقتصادی ومعاشی ترقی سے منسلک کرنا ضروری ہے۔اور قومی مفاد کی حصول کی خاطر عملیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود انحصاری پر توجہ دینی چاہئے۔ہر قسم کے بیرونی دباؤ سے بچنے کے لئے اندرونی اصلاحات حاصل کرنے کی صلاحیت حاصل کرنی چاہئے ۔

بین الاقوامی تنہائی سے بچنے کیخاطر اقوام متحدہ ، او ائی سی ،سارک ممالک ،عالمی عدالت برائے انصاف اور دیگر اقوام کیساتھ ملکی مفاد کو سامنے رکھ کر تعلقات استوار کرنی چاہئے تاکہ دوسرے ممالک کے نقصان رسانی سے بچا جاسکیں اور اپنی قیمتی وسائل کی تحفظ اور ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا جاسکیں۔

ملکی مفاد کے سامنے دوسرے ملک کی کوئی حیثیت یا قیمت نہیں ہوتی ہے اگر کسی چیز کی قیمت اورحیثیت ہے تو وہ خالص طور پر ملکی و قومی مفاد ہوتی ہے بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ملکی مفاد کے سامنے غیرملکی دوستی و دشمنی بھی کوئی شئے اور معنی نہیں رکھتی ہیں۔

پاکستان کی بنیادی اہداف و عزائم اور مقاصد ملکی مفادات کے آئینہ دار ہے لیکن اس میں بھی دیگر بڑے ملکوں کے ریشہ دوانیوں اور پروپیگنڈوں سے اکثر اوقات تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ۔یوں ہر گزرتے لمحے میں ملکی مفادات کے حصول کے لئے اس کی سمت متعین کیئے جاتے ر ہے ہیں ۔گویا ملکی مفاد میں بعض اوقات کٹھن مراحل بھی آتے ہیں لیکن مقاصد اور مفادات ہر روز تبدیل نہیں ہوتی ہے اس لئے ملکی سالمیت اور اہداف کو مقرر کیا جاتا ہے اور وہ انتہائی دوررس نتائج کی حامل ہوتی ہیں۔

ملکی مفاد میں غلط سمت جانا خودکشی کی مترادف ہوتا ہے ۔ ایک ملک کے لئے سب سے مقدم اسکی ملکی مفاد ہو تا ہے۔ اسطرح پاکستان بھی ملکی مفاد کیخاطر دنیا کو واضح پیغام دینا چاہتا ہے جس میں میں سرفہرست ملکی مفادات جس کی مثال یہ ہے کہ پاکستان کشمیر کی حق خود ارادیت کی لئے کوشش کرتا ہوا اور کشمیر کے عوام کےحق رائے دہی اقوام متحدہ کے قراردادوں کیمطابق آزادی دلانے کے حق میں ہے حالیہ کشیدگی کی بنیادی وجوہ کشمیر میں ’’ اڑی فوجی کیمپ حملہ ‘‘ ہے جس میں بھارت کے 18فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ جس کی کی الزام پاکستان حکومت پر ڈال دی گئی، پاکستان نے ان واقعات کے بروقت تردید کردی ہیں ، میڈیا پر بھارت کے حکمرانوں اور فوجیوں نے اشتعال انگیز بیانات دئیے ، پارلیمنٹ میں بحثیں ہوئی اور اس کی نتیجے میں بھارت پاکستان کی مشرقی بارڈر پر جھڑپے ہوئی جس سے دونوں ممالک میں کافی ہلاکتیں وقوع پذیر ہوئی۔

بھارت کیطرف سے سرجیکل اسٹرائکس کی دھونس دھمکیاں دی گئی ہیں یہ سب واقعات اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ہوئے ہیں اس طرح پاکستان کے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں کشمیر کی حق خود اردیت اور اسصواب رائے کیلئے تقریر کی ہیں اور پور زور الفاظ میں بھارتی ریاستی دہشتگردی کی مذمت کی ہے۔

پانی کی تقسیم پر مذکورہ ممالک کے درمیان سندھ طاس معاہدات ہوئے ہے جس کی رو سے دریائے سندھ اور دوسرے دریاوں کے پانی کی منصفانہ تقسیم عمل میں لائی جائیگی یاد رہے انڈیا ان معاہدات کی عملاً پاسداری میں مکمل طور ناکام ہوا ہیں اگرچہ یہ معاہدہ برقرار ہے لیکن دونوں ملکوں ہی کے اس پر تحفظات رہے ہیں اور بعض اوقات اس معاہدے کو جاری رکھنے کے حوالے سے خدشات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

اس طرح پاکستان اپنے پڑوسی ممالک افغانستان سے بہتر تعلقات و تعاون کا خواہاں ہیں لیکن افغانستان بارڈر پر اکثر اوقات دباو او رکشیدگی کی صورتحال ہوتی رہی ہیں حال ہی میں پاکستان کا ایم ائی 18 ہیلی کاپٹر لینڈ کریش کیوجہ سے صوبہ لوگر افغانستان میں گر ا تھا۔ افغانی طالبان نے جہاز کو آگ لگائی اور عملے کے افراد جسمیں روس کے ہوائی جہاز کے مرمت کے عملے کا ایک رکن بھی تھاکو یرغمال بنالیا گیا تھا لیکن پاکستان وافغانستان کی سفارتی کوششوں سے جہاز کے عملے اور دیگر اشخاص کو باز یا ب کرالیا گیا ہے ۔

پاکستان نے طالبان اور دیگر ایجنسیز کے درندازیوں کو روکنے کیخاطر پاک افغان تورخم بارڈر پر گیٹ تعمیر کیا ہیں اور بھی کئی مقامات پر گیٹ تعمیر کرنے کا اعلان کرچکے ہیں ۔ چمن بارڈر پرباب دوستی پاکستان مخالف مظاہروں کے وجہ سے بند کیا گیا ہے تاکہ افغانستان سے دراندازیوں کو روکا جاسکیں کیونکہ طالبان اور بھارتی ایجنسیز’’ را‘‘ وہاں سے پاکستان میں سیکورٹی ایجنسیز، عوامی مقامات و شخصیات پر کاروائیاں کرتے ہیں۔ کویٹہ ہسپتال ومردان ڈسٹرکٹ کورٹس کے حالیہ دہشتگردانہ خود کش دھماکوں میں تقریباً80معصوم افراد شہید ہوئے اور 100 سے زائد لوگ زخمی ہوئے ۔ یاد رہے کوئٹہ سانحے میں 60 وکلا ء کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر ، بلوچستان بار کونسل کے ممبر اور دیگر عام شہری اور میڈیا ورکرز شہید ہوئے ہیں۔ پاکستان کے حکومت و آرمی افیشلز کا دعوی ہے کہ یہ واردات بھارتی ایجنسی ’’را ‘‘ نے کئے ہیں جبکہ کئی پارلمینٹرین اور پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسل اسے سیکورٹی ایجنسیز کے ناقص حکمت عملی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ افغان مجاہدین حکمت یارگروپ اور اشرف غنی کے درمیان امن معاہدات عمل میں آچکے ہیں۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکہ اور اسکی اتحادی افواج کا فرنٹ لائن اتحادی ہیں اور پاکستان کو دہشت گردی کی عالمی جنگ میں 60000 سے زائد جانوں کی قربانی دینی پڑی ہے یاد رہے سنہ 1992 ورلڈ ارڈر کے نتیجے میں پاکستان جو فرنٹ لائن اتحادی تھا روس کی پسپائی کیوجہ سے جب امریکہ نے سرد جنگ کے خاتمے پر افغانستان کو وار لارڈز اور ڈرگ سپلائرز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ اس وقت پاکستان کے حکومت نے سعودی حکومت کے مالی تعاون سے طالبان کی حکومت بنائی جسکو امریکہ کی خاموش تائید اور بعد ازاں مکمل تائید حاصل تھی ۔ حکومت پاکستان اسکو تذویراتی پالیسی کے تحت سپورٹ کرتے رہیں حتی کہ 9/11 وقو ع پذیر ہوا اوروہابی ازم کابیانیہ جو سعودی حکومت نے طالبان و القاعدہ کو دیاہوا تھا ،القاعدہ کے لیڈران اس مذکورہ واقعے میں ملوث پائے گئے تو پاکستان امریکہ کے دھمکی اور دباو پر طالبان اور القاعدہ سے دستبردار ہوا اور اس وجہ سے پاکستان کو محفوظ راستہ ملا۔ لیکن سنہ2001 میں دوبارہ نیو ورلڈ ارڈر دوم اوردہشت گردی کیخلاف فرنٹ لائن اتحاد کیوجہ سے پاکستان کو کئی قسم کی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے جسمیں میں سرفہرست تحریک طالبان پاکستان ،حقانی نیٹ ورک اورڈرون حملے وغیرہ ، افغانستان کیساتھ تعلقات اور دیگر کئی کالعدم تنظیمیں ملک کے لئے وبال جان بن گئی ۔ دہشت گردی کیخلاف یک تنہاجنگ میں پاکستان کی انڈسٹریز، انفراسٹرکچر،سکول کالجز ، یونیورسٹیز اورمعیشت تباہ ہو چکاہے ۔ امریکہ کی فرنٹ لائن اتحادی ہونے اورنہ ہونے میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہا ہے کیونکہ امریکہ نے بھارت کے ساتھ سول اور نیوکلیئر معاہدات کرلئے ہیں اور اسطرح بھارت نے اپنی فوجی اسلحے کو مغربی ہتھیاروں سے بدلنا شروع کر دیا ہے۔
بھارت نے یوکرائن اور کریمیا کے مسئلےپرروس کا ساتھ نہیں دیا تھا ۔ انڈیا امریکہ نیوکلیئر معاہدوں سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ رہا ہے یہی وہ بدلتے ہوئے حالات ہیں جو روس اور پاکستان کو قریب لانے میں مدد گار ثابت ہو ئے ہیں۔پاکستان روس کے ساتھ بہتر تعلقات کے فروغ کے لئے تاریخی معاہدے کئے جارہے ہیں دونوں ممالک نے دہشت گردی کے خاتمے اور ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے، سیاسی و فوجی مسائل پر معلومات کے تبادلے اور بین الاقوامی سلامتی کو بہتر بنانے کے علاوہ تیل وگیس توانائی کے بحران اور فوجی شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیاہے حالیہ فوجی مشقوں اورتحاد کیوجہ سے عالمی منطر نامے کے تبدیل ہونے کے اثرات شروع ہوچکے ہے جو ائندہ پاک چائنا روس کے دوستانہ تعلقات کے ایک نئے باب کے شروعات کے علا مات ہیں ۔
اسطرح پاکستان نے ایران کیساتھ بھی کئی قسم کی توانائی اور معاشی معاہدات کئے ہیں ۔ جسمیں گیس پائپ لائن منصوبے شامل ہیں۔ ایران نے اپنی طرف سے گیس پائپ لائن بچا دیا ہیں ۔ جبکہ روس کے تعاون سے پاکستان بھی پائپ لائن بچھانے کے معاہدے کرچکے ہیں۔یاد رہے دفاعی تعاون کے فروغ کیلئے ایران اور پاکستان بھی فوجی مشقوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
پاکستان انڈیا کیساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہیں۔ لیکن انڈیا کیساتھ ایسٹرن بارڈر پر دباو اور تناو کی صورتحال ہوتی رہتی ہیں۔ اسی اثنا امریکہ نے فوری طور پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان کا درینہ دوست ملک چائنہ کیساتھ نئی عالمی منظر نامے میں کئی معاشی مفادات کے لئے کھڑا ہواہے۔ یاد رہے چائنا نے انڈیا کیساتھ بھی دفاعی ومعاشی معاہدات کئے ہوئے ہیں۔ اس طرح دونوں مذکورہ ملکوں کے درمیان کشمیر کے مسئلے، پانی کی تقسیم کی معاہدوں پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ دونوں ممالک کو چاہئے کہ دوستانہ تعلقات کے لئے مراسم بڑھائے کیونکہ مسلسل دباو کیصورت میں دونوں ممالک کواپنے مفادات اور عالمی چلینجز کے مقابلہ کی سکت باقی نہیں رہی گی ۔ حالیہ سارک کانفرنس کی منسوخی نے معاملات کو اور زیادہ پیچیدہ بنا دیا ہیں کیونکہ بنگلہ دیش ،بھوٹان ، سری لنکا اور مالدیپ نے بھارت کے شہ پر اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا ہے۔ حالیہ کشیدگی کیوجہ سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ جیسا سماں ہے۔میڈیا وار اور جھڑپیں دو ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑے نظر آرہے ہیں ۔ا ور خدانخواستہ طبل جنگ بجنےکیصورت میں مذکورہ ممالک کے عوام کو اور سارے دنیا کو خطرات لاحق ہوچکےہے ۔اورخاص کر اس جنگ کا خمیازہ دونوں ممالک کے پسماندہ عوام کو بھگتنا پڑے گا ۔
سعودی عرب کیساتھ پاکستان کا ملکی مفاد بوجہ اسلامی ملک ،معاشی و اقتصادی تعاون جڑا ہوا ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کے کئی مواقع پر خاص کر دہشت گردی کیخلاف جنگ میں حمایتی اور امداد کی شکل میں تعاون کرتا رہا ہیں اسطرح پاکستان کو سعودیہ حکومت نے کئی لاکھ لیبر کیلئے کاروباری مواقع فراہم کئے ہیں ۔اس کے بدلے میں پاکستان نے بھی ہر وقت سعودی عرب کی لئے خدمات سر انجام دئے ہیں ۔ لیکن پاکستان کوبدلتے ہوئے حالات کیوجہ سے از سر نو سعودی حکومت کیساتھ معاہدات اور میل ملاپ کامنصفانہ جائزہ لینا چاہئے ۔اور اسطرح سعودی عرب کا مرتب شدہ جہادی بیانیہ جو سویت یونین کیخلاف عمل میں لایا گیا تھا اور جس سے اج بھی پاکستان طالبانائیزیشن اور دوسرے کالعدم تنظیموں کے روپ میں بھگت رہا ہے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور اس شدت پسند بیانیہ سے روگردانی اختیار کرنی ہوگی !!! سعودی عرب کے سرکردگی میں حالیہ 34 اسلامی ممالک کا دہشت گرد ی کیخلاف نئی اتحاد اگر چہ اس لحاظ سے خوش ائند ہے کہ پاکستان کی اسلامی دنیا کیساتھ برادارنہ تعلقات برقرار رہینگی لیکن اس معاہدہ کے رو سے پاکستان کو قدم قدم پر مشکلات و مسائل درپیش ہے خاص کر پڑوسی ملک ایران ان معاہدوں کے وجہ سے نالاں ہے۔یاد رہے سعودی عالی جاہ شاہ سلمان نے وزیر اعظم نریندر مودی کو سعودی عرب کا سب سے بڑا سول اعزاز ’شاہ عبدالعزیز ایوارڈ‘ دیا گیا ہے۔اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری بڑھانے اور سٹریٹجک تعاون کے کئی معاہدوں پر دستخط بھی ہوئے ہیں ۔
پاكستان-چین اقتصادی راہداری چائنا پاکستان ایکنامک کوریڈور(CPEC (منصوبے کے رو سے چائنا مشرق وسطی سنٹرل ایشین ممالک مشرق وسطی اور اور یوریشن ممالک سے ملے گا جس سےخطےمیں معاشی ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی ۔پاکستان چائنا اکنامک کوریڈور فی الحال 46 بلین ڈالرز لاگت کی زیر تعمیر مجموعی منصوبوں کی ایک کڑی ہیں ۔ جس میں اب تک 53 مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط ہوچکے ہیں ۔ گوادر بندر گاہ 2015 سے لیکر 2055تک 40 سال کیلئے چین کی حوالے کردی گئی ہیں ۔ دراصل چائنا اپنے غریب خطوں کے ترقی کے لئے نئے منصوبے لا رہا ہے ۔ اور یوں یہ سارے منصوبے چینی ورکرز کے زیر سایہ تکمیل تک پہنچائے جائینگے ۔پاکستان نے بھی اس منصوبے کی حمایت کا اعلان و اعادہ کیا ہیں ۔ پاکستان چائنا راہداری منصوبے میں شامل 29 جگہوں پر انڈسٹریل زونز کی تعمیر عمل لائی جائیگی اور یہ تمام منصوبےپاکستان کی معاشی نمو میں اہم سنگ میل ثابت ہونگے ۔ پاکستان چائنا اکنامک کوریڈور کراچی اور لاہور موٹر وے اور سکر سے ملتان موٹر وے اور قراقرم ہائے وےکے اپ گریڈیشن ائندہ سال مکمل ہوجائیگی اسطرح پاکستان میں کل ملاکر 1100 مریع کلومیٹر کی موٹر ویز بنائی جائیگی ۔پنجاب اورنج ٹرین ،میٹرو منصوبہ بھی تکمیل کی مراحل میں ہیں ۔ پاکستانی حکام کی پیش گوئی کیمطابق 2015-2030 کے درمیان اس منصوبے سے 700،000 افراد کے لئےبراہ راست ملازمتیں تخلیق کئے جاسکیں گے ، اور ملک کی سالانہ اقتصادی ترقی میں 2 سے 2.5 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوسکیں گا۔
اس منصوبے سے پا ک چائنا ،وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے 3 بلین لوگوں کو فائدپہنچے گا ۔کہا جاتا ہے کہ پاک چائناپاکستان کے زمینی راستے ازخودکوریڈورکے توسط سے بحیرہ عرب سے ملا ئیگا اور پاکستان دنیا کیساتھ پل کا کردار ادا کریگا ۔ پاکستان کی ساز گار محل وقوع ، قدرتی وسائل سے مالامالی ،اور نسبتاً کم اجرت مزدوری ،ٹیکسٹائل، اسٹیل، توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، کان کنی، ایندھن تیل گیس کی کنووں کی تلاش ، خوراک، ادویات، ماہی گیری،دنیا کو معاشی ترقی کیلئے اپنی طرف کھنچتی ہیں ۔پاکستان اور چین دنیا کے درمیان رابطے کی سہولت کے لئے تیار ہے۔اس سارے مقاصد کے حصول کیلئے پاکستانی حکومت نے چینی کارکنوں کی سیکورٹی کی حفاظت کے لئے خصوصی ٹاسک فورس اتھارٹیز قائم کئے ہوئی ہے۔ اور معاشی راہداری کیلئے چائنہ کے توسط سے دیگر اتھارٹی فورسز بھی فوج کی نگرانی میں بنائی جارہی ہیں۔
چائنا نے اب تک اس منصوبے پر پاکستان بنگلہ دیش اور دیگر وسطی ایشائی ممالک میں معاشی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کی لئے کئی کمپنیوں کے توسط سے اقدامت کئے ہوئے ہیں ۔جبکہ امریکہ نے اپنے اتحادیوں کو مشورہ دیا ہیں کہ وہ اس منصوبے سے الگ ہو جائےاسطرح امریکہ اور جاپان کے علاوہ کوئی بھی اس منصوبے سے علیحدہ نہیں ہونا چاہتا ہے۔ منصوبے کو چائنا کے کمپنیاں ، ورلڈ بینک ،اورائی ایم ایف وغیرہ بھی قرضے دے رہا ہے۔ اور اس پر تیزی کیساتھ کام ہو رہا ہے۔ اس منصوبے سے خطے میں معاشی ترقی کے نئے راہیں کھلیں گے اور پاکستان سنٹرل ایشئن ممالک کیساتھ وابسطہ ہوجائیگا ۔ پاکستان اور روس اس منصوبے کے توسط سے ایک دوسرے کے قریب لانے میں معاون ثابت ہونگے ۔بیجنگ اور ماسکو نے غیر وابسطہ ممالک کو ترک کرکے منصوبے کو آگے لے جانےکاعہد کیا ہوا ہے ۔حالیہ رپورٹوں کیمطابق چائنہ کے کئی کمپنیوں نے اپنے اپ کو دیوالیہ ظاہر کرکے تعمیراتی و دیگر امور پر کام کرنا بند کردیا ہیں۔
چائنا نے حال ہی میں روس کے تعاون سے او ۔بی ۔او ۔ار) OBOR) راہداری منصوبےکا اغاز کیا ہیں اور یہ ایک ٹریلین ڈالرز سے زائد کا منصوبہ ہےجو ایک علاقہ ، ایک شاہراہ اور نئے شاہراہ ریشم کے سلوگن کیساتھ چائنا اپنی معاشی ترقی کے لئے روس کے مدد سے پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اور چائنا نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ اس سے زیادہ ڈالرز ہم اس منصوبے میں لگائینگے ۔ اسطرح جی 20 ممالک کے کانفرنس میں اس منصوبے کواور مظبوط خطوط پر بنائے جانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ماسکو نے بیجنگ کے اس اقدام کی تعریف کی ہیں ۔ جبکہ امریکہ کی جذباتی وجارحانہ انداز فکرنے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کو دوستی کیلئے مقابل لانے میں اہم کردار ادا کیا ہیں ۔ چونکہ چائنا وسطی ایشیا میں مرکزی اور با اثر کردار کا حامل طاقتور ملک ہیں ۔اس لئے معاشی ترقی میں چائنا نے دیگر ممالک بشمول روس کو پیچے چھوڑ دیا ہیں ۔
چائنا کے کمپنیوں نے وسطی ایشیا ء کی ممالک میں انفرا سٹرکچر کیلئے جال بچا کر انوسٹمنٹ کی ہوئی ہے۔2013 کے اعداد و شمار کیمطابق چائنا نے وسطی ایشیا ء کی ممالک قاز قستان ، کرغستان ، تاجکستان،ترکمانستان اور ازبکستان میں 50 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہیں ۔روس وسطی ایشیائیءممالک میں اپنا اثر و رسوخ کھو نے کیوجہ سے نا راض ہے۔لیکن یہ مشکل ہوگا کہ بیجنگ ،ماسکو کےمدد کے بغیر وہاں پر ترقیاتی کاموں کا جال بچا سکیں ۔
اس سارے منظر نامے سے حاصل کلام یہی ہیں کہ تبدیل ہوتی دنیا میں ملکی مفاد اور ازاد خارجہ پالیسی اہم رول ادا کرتی ہیں اور ہر ملک اپنے ملکی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے خارجہ پالیسیز مرتب و متشکل کرتی ہیں ۔ آزادانہ خارجہ پالیسی اور ملکی مفاد لازمی طور پر ملک کے سالمیت، بقاء ،معاشی و دفاعی ترقی کے لئے اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ پاکستان چونکہ غیر وابسطہ ممالک کے تحریک میں فعال رکن ہیں اس لئے مملکت پاکستان کو جنگوں سے دامن بچا کر رکھنا ہوگا کیونکہ پاکستان اب دیگر جنگوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہیں کہ پاکستان بوجوہ اپنی دفاعی صلاحیتوں کو تکمیل تک پہنچائے اور معاشی اہداف کے حصول کیلئے دوستی و دشمنی کا پیمانہ ملکی مفاد کو ٹہراتی ہوئے دوستی اور دشمنی ملکی مفاد کو سامنے رکھ کر بنائی جائی ۔اخرمیں ارباب حکومت سے عرض ہے !!!کہ اپنے مذکورہ مقاصد ،اہداف او رعزائم کا اپنے ماضی و مستقبل سےازسر نو مو ازنہ کرتے ہوئے اقوام عالم سے ملکی وقومی مفاد کو مد نظر رکھتی ہوئی پالیسیاں تشکیل دے دیں اور قانون ساز اسمبلیز سے معاون ملکوں سے معاہدوں کے مدد سے اس کی توثیق کرالیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان بھی ترقی کرکے دنیا کے دیگر ممالک کو مذکورہ وسائل اور توانائی وغیرہ فراہم کرسکیں گےاور وہ دن دور نہیں کہ پاکستان معاشی طو ر پر ایک مظبوط ملک ہوگا اور اس طرح یہ ممکن نہیں ہوگا کہ دنیا کہ طاقتور ترین ممالک بھی پاکستان کو بوجہ اس کی جیو پولیٹیکل ، سوشیو اکنامک پوزیشن وغیرہ پہلو تہی کرسکیں گے ۔ اختتام

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے