کربلا کے ننھے شہید

معرکہ کربلا محض ایک واقعہ نہیں بلکہ شعور ، حریت ، خودداری ، جرات ، شجاعت ، ایثار و قربانی اور صبر و انقلاب کا مکمل فلسفہ ہے اور اس کرب وبلا میں ننھے مجاہدوں کا بھی اتنا ہی کردار ہے جتنا کہ کسی جواں و پیر سالہ کا ۔

اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں کا بچہ بچہ ہی کربلا شناس ہے جنہوں نے باوجود کم سن ہونے کے مقصد نبوی اور اسلام کو زندہ رکھا ، اپنی معصومیت لیکن جرات و کردارو عمل سے اسلام کو ایک ایسی قوت عطا کر دی کہ وہ رہتی دنیا تک کے لئے لازوال مثال بن گئے اور دین اسلام کو ناقابل تسخیر بنا دیا ۔
ان بچوں میں سے ایک دخترسید الشہدا امام عالی مقام سیدہ بی بی سکینہ سلام اللہ علہیہ ہیں جنہوں نے اپنے چاچا حضرت عباس علمدار علیہ اسلام کو اپنے ننھے ساتھیوں کے لئے پانی لانے کو کہا ، ۔

اس بے تقصیر بچی کے کرتے میں یزیدی فوج نے آگ لگا دی اور ان کے کان کی بالیاں بھی کھینچ کر انھیں زخمی کر دیا لیکن بچی کا صبر و استقامت برقرار رہا ، امام حسین علیہ اسلام کی شہادت کے بعد بھی ان پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی گئی اور تن تنہا زنداں میں قید کیا گیا ۔لیکن ان کے عزم و حوصلہ میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔

ایک ننھا شہید فرزند رسول حضرت امام حسن علیہ اسلام کا قاسم بھی تھا وہ محض تیرہ سال کے تھے ، حضرت امام حسین علیہ اسلام نے جب انہیں میدان کربلا میں روانہ کیا تو یہ پوچھا کہ ’’تم راہ حق میں موت کو کیسا پاتے ہو؟ ‘‘تو شہزادہ قاسم نے بلا خوف و خطر جواب دیا کہ ’’ میں موت کو شہد سے بھی زیادہ شیریں پاتا ہوں ۔‘‘

اس ننھے شہید کو شہید کرنے کے بعد ان کی لاش پر گھوڑے بھی دوڑائے گئے اور امام حسن علیہ اسلام کا یہ جگر گوشہ ان گنت ٹکٹروں میں بٹ گیا ۔
محافظ امامت بی بی زینب سلام اللہ علیہہ کے دو بیٹے عون و محمد بھی میدان کربلا میں شہید ہوئے اور بھائی کی محبت و عقیدت میں سرشار اس بہن نے اپنے بچوں کا غم بھلا کر ہمشکل پیغمبر حضرت علی اکبر کا سوگ منایا ۔

حق و باطل کی اس جنگ میں حضرت امام مسلم بن عقیل کے بچوں محمد اور عبداللہ کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جنہیں ذوالحج کے مہینے میں بھوکا پیاسا دریا کے کنارے شہید کیا گیا ۔

اسلام کی تکمیل کبھی نہ ہوتی اگر اس کے دامن میں چھ ماہ کے علی اصغر کی قربانی نہ ہوتی ، اگر علی اصغر راہ خدا میں ہدیہ نہ ہوتے تو کوئی کیسے جان سکتا کہ راہ حق کے لئے اپنی قیمتی سے بھی قیمتی چیز بھی قربان کر دینی چاہیے؟ لیکن افسوس اس بے رحم امت پر کہ جس نے نواسہ رسول کے ششماہے کی بھی پروا نہ کی ، پیاسے کی پیاس نہیں بجھائی اور گھوڑے کو مارنے والے تیروں سے علی اصغر کی گردن چھلنی کر دی ۔

میر انیس ایک جگہ فرماتے ہیں کہ کربلا میں تمام جانور تک بھی پانی پی رہے تھے لیکن صرف لشکر حسینی کو پانی نہ پلا کر انھیں حق شناسی کی سزا دی جا رہی تھی ۔

گھوڑے کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھات پر باندھے ہوئے قطار
پانی کا دام و در کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لئے قحط آب تھا

میدان کربلا میں یہ بچے بھی اپنی ذات میں جری و بہادر ، صابر اور متقی تھے کیوں کہ ان کی رگوں میں خون حیدری تھا ، ان کی تریبت بی بی سیدہ نے کی تھی ،موجودہ دور میں ہم کیوں ناکام ہیں محض اسئلے کہ ہم نے مقصد حسینی کو بھلا دیا ہے ، صبر و استقامت جس کا درس ہمیں ان بچوں نے بھی دیا وہ بھی ہم نے فراموش کر دیا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ انتہا پسندی اور دہشتگردی کے عفریت نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے جس سے نہ بچے محفوظ ہیں اور نہ ہی ہماری مستورات ، حالانکہ کربلا ہمارے دلوں میں زندہ ہونی چاہیے ، اسکی سچائی سے ہمارے اذہان منور ہونے چاہیں ۔ جوش ملیح آبادی نے کیا خوب کہا ہے ۔

کربلا اب بھی حکومت کو نگل سکتی ہے
کربلا تخت کو تلوووں سے مسل سکتی ہے
کربلا خار تو کیا ، آگ پہ بھی چل سکتی ہے
کربلا وقت کے دھارےکو بدل سکتی ہے
کربلا قلعہ فولاد ہے جراروں کا
کربلا نام ہے چلتی ہوئی تلواروں کا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے