تعلیم کے بغیر کیسی ترقی

پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر میں دن بدن اضافہ ہو تا جا رہا ہے جو معاشی ماہرین کی نظر میں ملکی معشیت کے لیےریڑھ کی ہڈی کو ناصر ف مضبوط کر رہا ہے بلکہ معشیت کو پاؤں پر کھڑاکرنے کا موجد بھی بن رہا ہے ۔سی پیک اگر کامیابی سے پایہ تکیمل تک پہنچتا ہے تو یقینا پاکستانیوں کے لیے اس سے بڑی خوش نصیبی کوئی نہیں ہو گی کیونکہ یہ سلک روڈ ناصرف پاکستان کو چین سے جوڑے گا بلکہ اسی کا روٹ مغرب میں فرانس تک پہنچے گا جس سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی ناصرف معاشی حالت مزید مستحکم ہو گی بلکہ اس سے ناصرف روزگار کے لاکھوں مواقع میسر آئیں گے اور غربت کی لکیر بھی کم ہو گی تاہم اس ساری صورتحال سے ہم تب ہی فائدہ اٹھا سکیں گے جب ہم تعلیمی میدان میں بھی آگے ہوں گے ۔

کسی کے نزدیک پاکستان کےبڑے مسائل میں لوڈشیڈنگ، دہشتگردی،معاشی ناہمواری جیسے موضوعات ہیں مگر میری نظر میں ہمیں سب سے پہلے اپنےعوام کو تعلیمی شعور دینا ہو گا اور جہالت کے نظام کو ختم کرنا سب سے پہلی ترجیح ہو نی چاہیئے کیونکہ جب تک عوام باشعور اور تعلیم یافتہ نہیں ہو تے وہ اپنے اچھے برے کی تمیز نہیں کر سکتے۔ ہماری بدقسمتی رہی کہ ہم اپنے آپکو مسلمان کہلوانے میں بڑا فخر محسوس کرتے ہیں مگر سرور کائنات حضرت محمد ﷺ کےفرمان اور خصوصی طور پر تعلیم کے افادیت پر کبھی دل سے عمل نہیں کرتے اور نا ہی کسی اور کو شعور کی منازل طے کرنے دیتے ہیں۔ 14سو سال قبل رحمت عالم نے تعلیم حاصل کرنے کےلیے چین تک سفرکرنےکی ہدایت کی۔ مگر افسوس کہ مسلمان کسی اور ہی سمت چل پڑے۔یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ مجھ گناہگار سمیت کلمہ اور سنت گردن سے نیچے نہیں آئی ۔ یہی حال وقت کے حکمرانوں کا ہے جو دعوے تو کرتے ہیں مگر وقت پر کچھ اور ہی ہوتا ہے ۔

حکمرانوں کی ترجیحات بھی عجب ہوتی ہیں ہر کوئی جمہوریت کا راگ الاپتا ہے مگر جب تخت نشین ہوتا ہے تو ناجانے وہ اپنے وعدے اور اعلانات کیوں بھول جاتا ہے ۔دنیا کے دیگر ممالک سے اگر ہم اپنا مقابلہ کریں گے پاکستان میں شرح خوانداگی محض 58فیصد کے قریب ہے جبکہ ہمارے قبائلی علاقہ جات،جنوبی پنجاب،اندرون سندھ،بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں اسکی شرح شرمناک حد تک کم ہے اور یہی وجہ ہےکہ پاکستان کی ترقی میں ان علاقوں کی جانب سے اس طرح حصہ نہیں پڑ رہا جو وقت اور پاکستان کی ضرورت ہے۔پاکستان بھر کے تعلیمی نظام کو ماہر تعلیم کی بجائے افسر شاہی چلا رہی ہے جو ناکامی کی بنیادی وجہ ہے کیونکہ وہ افسر کبھی کسی محکمے کو دیکھتا ہےا ور کبھی کسی محکمے تو ان حالات میں پالیسیوں کا تسلسل کس طرح ممکن ہو پائے گا۔ ان سب صورتحال کے باوجود سلام ان اساتذہ کو جو کٹھن اور اعصاب شکن حالات میں ، معاشی و معاشرتی استحصال کے باوجود پاکستا ن کی ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں۔

احساس محرومی یا بے توقیری اساتذہ کی کارکردگی کو متاثر کر سکتی ہے۔ حکومت وقت کو اساتذہ کو درپیش مسائل پر توجہ دینا ہوگی کیونکہ پاکستان میں افرادی قوت کے لحاظ سے اساتذہ افواج پاکستان سے کہیں زیادہ ہیں۔ اساتذہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں اور افواج پاکستان جغرافیائی سرحدوں کے محافظ ہیں تو پھر کیوں اساتذہ کو نظر انداز کیا جار ہا ہے۔پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 18لاکھ مرد وخواتین اساتذہ پرائمری سے لیکر یونیورسٹی و مدارس کی سطح پر سرکاری و غیر سرکاری شعبہ میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں ان میں تقریباً 8لاکھ اساتذہ پاکستان میں سرکاری سطح پر ہیں جبکہ صوبہ پنجاب میں قریباَ ساڑھے تین لاکھ اساتذہ سرکاری سکولوں میں اپنے فرائض منصبی سرانجام دے رہے ہیں۔استادکا تعلیمی نظام میں بنیادی کردار ہےاور اس کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہےجبکہ انکے بغیر نظام تعلیم ادھوراہے۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ سرکاری و غیر سرکاری شعبہ میں کام کر نے والااستاد بے شمار معاشی و معاشرتی مسائل کا شکار ہے۔یہ کہنا بے جا ہوگا کہ پرائیویٹ شعبہ میں استاد کی حیثیت ایک مزدور سے بھی کمتر ہے جسکا معاوضہ حکومت کی طرف سے مزدور کے طے کردہ معاوضہ کم از کم 14ہزار روپے سے کہیں کم ہے۔لیکن حالات سرکاری اساتذہ کے بھی بہتر نہیں۔ اساتذہ کو دیگر ملازمین سے کم درجے پر تصور کر کے نظرانداز کرنا ارباب اختیار کا وتیرہ بن چکاہے۔پنجاب میں اس وقت اساتذہ جن حالات میں اپنے فرائض ادا کررہے ہیں۔شایدہی ماضی میں اس قدر کٹھن اور اعصاب شکن حالات سےا نکو پالا پڑا ہو۔ہر ناکامی کا ذمہ دار اساتذہ کو ٹھہرا کر معاشی و معاشرتی استحصال کرنا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے اور ایسی پالیسیاں مرتب کی جارہی ہیں جن کا زمینی حقائق سے دور تک کا واسطہ نہیں۔یہاں یہ بات باور کرانا ضروری ہے کہ نصاب، بلڈنگ اور بنیادی سہولیات چاہے کتنی اچھی کرلی جائیں۔جب تک استاد ذہنی طور پر سکون نہیں اور بااختیارنہیں ہوتا تب تک 100فیصداہداف اور کامیابیاں نہیں مل سکیں گی۔

حکمران ہر شہری کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے دعوی کرتے نہیں تھکتے مگر یہاں تو معاملہ کچھ ایسا ہےکہ حکومت پنجاب کے تعلیمی روڈ میپ کے اہداف کو پورا کرنے کے لئے دن رات کوشاں یہ استاد کونسا کام ہے جوسرانجام نہیں دے رہے؟ سیکورٹی کی ذمہ داری ، صفائی کی ذمہ داری یا بلڈنگ کی دیکھ بھال ، گلی محلوں سے بچوں کی تلاش ، صحت کی دیکھ بھال یعنی پولیو،ڈینگی /کانگو کاخاتمہ، سیلاب کے دوران ڈیوٹیاں ، رمضان المبارک میں سستے بازاروں میں ڈیوٹیاں ، مختلف دفاتر میں ڈیٹا انٹری کے لئے ڈیوٹیاں ، الیکشن ،ضمنی الیکشن ،ووٹ کا اندراج و اخراج ، و دیگر غیر تدریسی ناجانے کتنی ڈیوٹیاں ہیں جو قوم کو بہتر معمار دینے والے یہ اساتذہ دیتے ہیں اور پھر ہم معصومانہ انداز سے ا ن سے نتائج مانگتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جب یہ استاد مہینہ مہینہ اسکولوں ،کالجز اور یونیورسٹیاں سے غائب رہیں گے تو پھر کہاں سے وہ ملک کے معمار پیدا کریں گے ارے جناب قوم کے ساتھ اس سے بڑھ کر اور کیا مذاق ہو گا کہ ہم تعلیمی ایمرجنسی کا نعرہ لگا کر انہیں کسی اور کام پر لگا دیں درحقیقت یہ تعلیمی انقلاب ہے نا ہی ایمرجنسی بلکہ حکومتی پالیسیاں صرف سراب ہے جسے عوام اب سمجھنا شروع ہو گئے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب عوام اپنے حق کے لیے خود میدان عمل میں نکل آئیں گے کیونکہ وہ بھی جان چکے ہیں کہ تعلیم کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر پاتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے