توہمات اور شگون

بہت سے ایسے تصورات اور نظریات ہیں جو ہمارے اپنے نہیں ہیں ۔ان ہی تصورات میں ایک توہمات اور شگون بھی ہے۔آج کل مسلمانوں یہ چیز کافی زیادہ عام ہے ۔اس حوالے سے میں ڈاکٹر سید احمد راہی صاحب کی کتاب سے کچھ اقتباسات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہیں

"توہم اس عقیدے یا عمل کو کہتے ہیں جو نامعلوم اورپراسرار کے خوف پر مبنی ہو اور جس کی کوئی علمی توجیہ نہ کی جاسکے ،توہمات اکثر وبیشتر جادو،نظربندی،غیب بینی اور سعدونحس سے وابسطہ رہے ہیں اور قدیم انسان کی ان ذہنی کاوشوں سے یادگار ہیں۔جب وہ سبب ومسبب کے قانون۔ہر مسبب کا لازما ایک سبب ہوتا ہے سے بے خبر تھا اور قدرتی اور مظاہر اور غیر معمولی واقعات کی توجیہ طفلانہ قیاس آرائیوں سے کیا کرتا تھا اسے اپنے چاروں طرف ہر شے پراسرار دکھائی دیتی تھی ،وہ سورج اور چاند کے طلوع وغروب ،تاروں کی ٹمٹماہت،بادلوں کی گرج چمک، دریاؤں اور سمندروں کی موجزنی،پہاڑوں کی سربلندی،پیڑوں کے جھومنے اور پھولوں کے لہلہانے اور ان جیسے دوسرے فطرتی مناظر کو سمجھنے سے قاصر تھا اور ان کے بارے میں قیاس آرائیوں سے کام لیتا تھا”(مجھے حکم ہے اذان لاالہاللہ صفحہ107،108 )

آگے لکھتے ہیں "سائنس کی ترقی کے باوجود آج بھی ایک حد تک انسانی ذہن وقلب پر توہمات کا تصرف باقی ہے اورجہلاء سے قطع نظر بعض اچھے خاصے پڑھے لکھے آدمی بھی ان پر گرفت میں آجاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ فال گیروں ،نجومیوں ،عاملوں ،پیروں ،جوگیوں ،رشتیوں اور دست شناسوں وغیرہ کا کاروبار زوروں پر ہے۔ آج بھی لوگ 13 کے ہندسہ ،آئینہ ٹوٹ جانے،کالی بلی کے رستہ کاٹنے ،نمک کے گر جانے،آنکھ پھڑکنے سے خوف زدہ ہوجاتے ہیں ۔3،5،7 اور 12 کے اعداد کو سعد جانتے ہیں۔مریخ ،چانداور زحل کو نحس اور شمس اور زہرہ کو سعد کہا جاتا ہے۔سرخ اور زرد رنگ کو مبارک اور نیلے اور سیاہ رنگ کومنحوس سمجھتے ہیں۔بھوتوں ،پریتوں،چڑیلوں،عفریتوں پرعقیدہ رکھتے ہیں۔قبروں کو اگے ہوئے درختوں کی ٹہنیوں سے سرخ رنگ کے جھنڈے باندھ کر مرادیں مانگتے ہیں”۔(مجھے حکم اذان لاالہ اللہ۔صفحہ 108)

جیسے میں پہلے ذکر کر چکا ہوں ہم مسلمان ہندؤں کے ساتھ رہے ہیں اور ہندؤں کے ساتھ معاشرتی تعلقات کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم مسلمان بھی طرح طرح کے اوہام میں مبتلا ہوگئے اور ایک ایسا معاشرہ بن گیا جس میں عقائد کے اعتبار سے اسلامی نظریات تو موجود رہے لیکن ہندی اوہام نے اسلامی لبادہ اوڑھ کر اپنی جگہ برقرار رکھی اور نسل درنسل یہ بدعقیدگی منتقل ہوتی رہی اور بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں اسلامی تشخص کے علامت کے طور پر موجود ہیں۔ یہ دین سےدوری کا نتیجہ ہے ۔خاص طور پر ہم مسلمانوں میں قرآن کا جو استعمال ہونا چاہیے تھا وہ سرے سے رہا ہی نہیں ۔ قرآن ان ساری بدعقیدگیوں کے خلاف ہے ان ساری چیزوں کو قرآن نے وسواس سے تعبیر کیا اوریہی وسواس فطرت کے خلاف محاذآرائی کرتے ہیں اوریہی شیطان کی سب سے بڑی چال ہے۔

ان ساری چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے سوائے اس کے کہ انسان کو بدعقیدگی میں مبتلا کردیتے ہیں اور ایسے لوگ اللہ کی اس عظیم الشان ذات کو چھوڑ کر ان پر اعتقادات کی عمارت بنا دیتے ہیں ۔ انہی بے حقیقت چیزوں میں نفع اور نقصان مانا جاتا ہے اور دھیرے دھیرے انسان شرک میں گرفتار ہونے لگتا ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ شرک ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ان بے حقیقت چیزوں پر اعتقادرکھنا ایمان کی خرابی ہے اور ایک مسلمان کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے ۔جس طرح دنیا کی ہر چیز ہمیں خالص چاہیئے ہوتی ہے اس طرح کوشش کرنی چاہیئے کہ ایمان کو بھی خالص کیا جائے اور ان توہمات اور شگون کے دلدل سے نکلا جائے۔ اللہ تعالی سورہ الانعام میں فرماتے ہیں۔
الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ [٦:٨٢]
جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو (شرک کے) ظلم سے مخلوط نہیں کیا ان کے امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں
فیاض الدین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے