شوبز صرف خوبصورت نظر آنا نہیں ہے، احسن خان

ہم ٹی وی کی ڈرامہ سیریل اڈاری اہم معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنے کی وجہ سے شہرت کی حامل رہی ہے۔ سیریل کے اہم کردارامتیاز کو جہاں مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا وہیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا گیا کہ یہ کردار ہمارے معاشرے کی جیتی جاگتی تصویرہے۔ امتیاز کا کرادا ادا کرنے والے معروف اداکار احسن خان اپنے کام سے مطمئن نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کو فخر ہے کہ انہوں نے معاشرے کی برائی پر سے پردہ اٹھانے کے لیے ایک اہم کرادر اد اکیا ہے۔

57284e4b12c72

آئی بی سی خصوصی گفتگو کرتے ہوئے احسن خان نے میڈیا کا بھی شکریہ ادا کیا جس نے اس ڈرامے کو سپورٹ کیا اور اپنی زمہ داری پوری کی۔ سماجی مسائل پر نظر رکھنے والے اس منفرد اداکار سے بات چیت قارئین کی نظر ہے۔

منفی کردارمیں مشہور ہونا کیسا لگتا ہے؟
سچی بات ہے پہلی مرتبہ سکرپٹ پڑھنے کے بعد میں نے بھی سوچا تھا کہ یہ کردار کرنے کے بعد لوگ مجھے برا کہیں گے اور شاید نفرت بھی کرنے لگیں۔ لیکن یہ بھی سوچا کہ اگر ہم مسائل کو حل کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے تو پھر ہمیں شکایت کرنے کا حق بھی نہیں ہے۔ ویسے بھی ہمارے ناظرین ہر دن ساس بہو اور رونے دھونے والی عورتوں کے ڈراموں سے تنگ آچکے ہیں اور جب میرے پاس ایسا موقع آیا ہے کہ میں ایسے مسئلے کو سامنے لاؤں جس پر آج تک کسی ڈرامے یا فلم میں کھل کر بات نہیں ہوئی ہے تو میں کیوں نہ اس کو استعمال کروں۔ اس کرادر کو ادا کرنے میں مومنہ درید اوراحتشام الدین نے میری بہت حوصلہ افزائی کی اور بلاشبہ فرحت اشتیاق نے بہت اچھا سکرپٹ لکھا ہے۔

اندازہ تھا کہ یہ کردار اتنا مشہور ہوجائے گا؟
مجھے اس بات کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ کردار اتنا مشہور ہوجائے گا۔ اور مجھے خوشی ہے کہ ایک روایتی سے رومینٹک ہیرو کا کردار نہ ہونے کے باوجود بھی یہ عوام میں اتنی مقبولیت حاصل کرگیا۔ مجھے یہ بھی احساس ہے کہ لوگ اس کرار سے نفرت کررہے ہیں بلکہ کئی لوگوں نے تو ٹوئٹر پر یہاں تک لکھا ہے کہ اگر میں انہیں کہیں مل جاؤں تو وہ مجھے چھوڑیں گے نہیں۔ لیکن زیادہ تر لوگوں نے میرے کام کو سراہا ہے اور اس بات کی تعریف کی ہے کہ میں نے ایک بولڈ کرداد ادا کیا ہے جو ہمارے معاشرے ہی کی ایک برائی کی عکاسی ہے۔ میں بھی رومینٹک کردار ادا کرتے کرتے بور ہوگیا تھا او چاہتا تھا کہ کچھ مختلف کروں۔

enlarge64007

کیا اس کرادر کو ادا کرنے میں کوئی خاص محنت کرنی پڑی؟
نہیں! یقین جانیے میں نے اس کردار کو ادا کرنے میں اتنی ہی محنت کی جتنی میں اپنے دیگر کرادروں کے لیے کرتا ہوں ۔ میرا کام اداکاری ہے اور جیسے ہی سکرپٹ ہاتھ میں آتا ہے کام خود بہ خود شروع ہوجاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ کردار میرے باقی کرداروں سے مختلف تھا۔

کیا ابھی بھی لوگ آپ کے ساتھ سیلفی کھنچوانے آتے ہیں؟
جی ہاں! بلکہ سیلفیاں اور زیادہ ہوگئی ہیں اور لوگ اب مجھے امتیا ز کہ کر پکارتے ہیں۔ اور مجھے خوشی ہے کہ میں نے اپنے کیرئر میں وہ کام کرلیا جس کی وجہ سے مجھے ایک اداکار مانا جارہا ہے کیونکہ میرے خیال میں ایک اداکار کو اپنی جوبصورتی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے کردار کو خوبی سے ادا کرنے کی وجہ سے منوانا چاہیے۔

لوگوں کی کیا ردعمل ہوتا ہے؟
کل میں ایک تقریب میں تھا تو کچھ چینل کی خواتین رپورٹرز میرے پاس آئیں اور کہا کہ ’شہزادے زرا انٹرویو تو دے دیں۔‘ کئی مرتبہ ایسا بھہ ہوا ہے کہ میری گاڑی سگنل پر رکی ہوئی ہے کی اچانک کوئی کھٹکٹاتا ہے اور شیشہ گرانے پر فرمائش کی جاتی ہے کہ پلیز وہ ڈائیلاگ تو سنادیں۔ کچھ دن پہلے میں اپنی اہلیہ کے ساتھ شاپنگ پرتھا تو دکاندار نے کہا کہ احسن بھائی میں آپ کو زبردست رعایت دوں گا اگر آپ مجھے اپنا کوئی ڈائیلاگ سنا دیں۔

56e6cbab7d21c

کیا کھی کسی نے آپ کو دیکھ کر برا بھلا کہا؟
ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ ایک خاتون ملیں اور مجھ سے کہا کہ بیٹا آپ یہ کیا کراد ادا کررہے ہیں۔ پھر میں نے ان کو سمجھایا کہ امتیاز ہمارے معاشرے کا جیتا جاگتا کردار ہے بلکہ ایک بیماری ہے جو ہمارے اطراف پھیلی ہوئے ہے۔ میں بہ حیثیت شہری اور ایک اداکار اس مسئلے کو سامنے لانا چاہتا ہوں اور ختم کرنا چاہتا ہوں۔

‘اور یقینا یہ ہماری ڈرامہ انڈسٹری کی کامیابی ہے۔ اور میری خواہش ہے کہ رائٹرز، پروڈدیوسرز اور ڈائرکٹرز مزید ایسے مسائل پر کام کریں۔ شوبز صرف یہ نہیں ہے کہ آپ خوبصورت اور اچھے نظر آئیں بلکہ ایک اچھا پیغام بھی دیں اور میں سمجھتا ہوں کہ شوبز کے زریعے لوگوں کو آگہی دینا ضروری ہے۔’

جب لگا کہ امتیاز مرگیا ہے تو لوگوں کی کیا ردعمل تھا؟
حالانکہ وہ سین ناظرین کے لیے ایک شک چھوڑ گیا تھا کہ وہ کردار واقعی مرا بھی ہے یا نہیں۔ لیکن لوگوں پر یہ ڈرامہ اتنا طاری ہوچکا تھا کہ اور انہیں بدلے کی اتنی خواہش تھی کی وہ چاہتے تھے کہ بس امتیاز مرجائے۔

‘ایک مزے کی بات بتاؤں کہ میری لاہور والی پڑوسن نے میری والدہ کو انگلیند فون کرکے کہا کہ آپ کے بیٹا بڑا اداکار تو بن گیا ہے لیکن وہ امتیا زمرگیا ہے اس لیے ہم تو خوشی منارہے ہیں۔ ‘

ahsan-3

آپ کے خیال میں امتیاز کے کردار یا اڈاری نے بچوں کے ساتھ جنسی ذیادتی یا تشدد کی روک تھام کے لیے کیا کرادر ادا کیا ہے؟
مجھے اس وقت بہت حیرت ہوئی اور خوشی بھی جب کچھ کارپوریٹ ورلڈ کے لوگ، جن کو دیکھنے سے لگتا تھا کہ وہ صرف ٹاک شوز یا سپورٹس چینل دیکھتے ہیں، میرے پاس آئے اور مجھ سے ڈرامے کے بارے میں بات کی۔ اس کے علاوہ بچے اور کالج اور یونیورسٹی کی لڑکیاں میرے پاس آئیں اور مجھ سے اس مسئلے پر بات کی تو مجھے لگا کہ ہاں پیغام صحیح جگہ پہنچ گیا ہے۔

اگر میں مبالغہ آرائی سے کام نہ لوں تو میرے پاس ۵۰ سے ۱۰۰ پیغامات ہیں جن میں لڑکوں اور لڑکیوں نے مجھے اپنی کہانیاں سنائی ہیں۔ ان میں سے کچھ نے یہ خواہش بھی ظاہر کی ہے وہ سامنے آکر سب کچھ بتانے کے لیے تیار ہیں۔ اور میں مستقبل میں ایک ڈاکومینٹری بنانا چاہتا ہوں جس میں کہانیوں کے کرداروں کی شناخت ظاہر کیے بغیر اس ایشو کا سامنے لایا جائے کیونکہ اب وقت آگیا ہے کی ہمیں کھل کر ان موضوعات پر بات کرنی ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے