روداد کشمیر

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر

(اقبالؒ )

کشمیری عوام کا شمار دنیا کی مظلوم ترین اقوام میں ہوتا ہے، مظلوم کشمیر ی عوام گزشتہ سات دہائیوں سے جمہوری ہند سرکار کے مظالم برداشت کر رہی ہے اور آئندہ بھی ان مظالم کے تھمنے کی کوئی امید تا حال نظر نہیں آ رہی ہے ۔

کشمیر ی عوام پر تشدد کا موجودہ سلسلہ نہ تو کشمیری عوام کے لیے کوئی نئی چیز ہے اور نہ عالمی برادری بشمول مسلم دنیا کے لیے یہ فسادات کوئی نئی خبر ہے۔ کشمیری عوام نے سات دہائیوں میں مظالم کے ایسے متعد سلاسل کو نہ صرف دیکھا ہے بلکے برداشت کیا ہے جن میں ہزاروں کشمیری شہید ہوئے، ہزاروں کشمیری عورتوں کی عزتوں کا جنازہ نکالا گیا، ہزاروں کشمیری گرفتار ہوئے، کشمیری مسلمانوں کے مذہبی اجتماعات پر پابندی عائد کی گئی، متعد بار کشمیری لیڈران کو نظر بند اور گرفتا رکیا گیا۔ موجودہ فسادات میں اب تک ایک سو سے زائد نہتے کشمیر شہید ہو چکے ہیں، تقریبا دس ہزار کشمیری زخمی ہو چکے ہیں، درجنوں کشمیری پیلٹ گن کی وجہ سے اپنی ایک آنکھ یا دونوں آنکھوں سے جزوی یا مکمل طور پر محروم ہو چکے ہیں، گزشتہ دو ماہ سے لگاتار کشمیر کے تمام اضلاع میں کرفیو نافذ ہے، ریڈیو، انٹرنٹل، اور موبائل سروسز معطل ہیں، حتٰی کے عید کے ایام میں بھی کرفیو جاری رہا، مسلمانوں اور کشمیری رہنادؤں کو نہ صرف نماز عید نہیں ادا کرنے دی گئی یہاں تک کہ کشمیری عوام قربانی کا مذہبی فریضہ بھی ادا نہ کر سکے ۔

مظالم کی اس انتہا ء پر پوری دنیا نے تشویش کا اظہار کیا، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل نے کشمیر میں ایک وفد بھیجنا چاہا تو ہندو سرکار نے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ وفد کو کشمیر میں داخلے کی اجازت سے مکمل انکار کر دیا۔ عالمی برادری کی تشویش پر ہندو سرکار پر جو اثر ہوا وہ اتنا ہوا کہ ہندو سرکار نے مظالم روکنے کے بجائے مظالم کے موجودہ ہتھیاروں کو نئے ہتھیاروں سے بدل لیا اور اب مظالم کے نت نئے انسانیت سوز طریقے آزامائے جا رہے ہیں۔ہندو سرکار اب تک کشمیر عوام پر پیلٹ گن کا استعمال کر رہی تھی جس میں چھرے والے کارتوس استعمال ہوتے ہیں، ان کارتوسوں میں چھروں کی مختلف تعداد ہوتی ہے اور عموما یہ کارتوس شکار کے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن ہندوستان کی جمعوری سرکار نے یہ کارتوس نہتے کشمیریوں پر استعمال کئے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایسے تیرہ لاکھ کارتوس کشمیر میں استعمال کیے جا چکے ہیں اور اب پیلٹ گن کی جگہ پاوا یعنی مرچی والے کارتوس کے استعمال کی اجازت دے دی گئی اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایک ہزار کارتوسوں کی کھیپ کشمیر پہنچا دی گئی ہے۔پاوا کو عام زبان میں مرچوں والا کارتوس کہا جاتا ہے، ایک کمیائی ہتھار ہے جو سرخ مرچوں سے تیار کیا جاتا ہے، پاوا ایک آرگینک کمپاؤنڈ ہے جسے اب کمیائی طریقے سے بھی تیار کیا جا سکتا ہے۔

پاوا کو جس ہجوم پر استعمال کیا جاتا ہے وہ وقتی طور پر بے حس و حرکت ہو جاتا ہے لہذا اس سے گرفتاریوں میں آسانی ہوتی ہے، پاوا کے استعمال سے آنکھوں میں شدید جلن اور خارش پیدا ہوتی ہے، نیز اس سے جلد کی حساسیت میں اصافہ ہو جاتا ہے جس سے خارش اور جلد کی مزید بیماریوں کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ پاوا کے نقصانات کا دارمدا راس بات پر ہے اس کی تیاری میں کمئیکل کتنی تعداد میں استعمال ہوا ہے اور یہ کارتوس کتنے فاصلے سے چلایا جاتا ہے اس کا منظور شدہ فاصلہ چار سے پانچ میٹر تک ہے۔ اس سے زیادہ قریب سے استعمال پر اسکے نقصانات بھی زیادہ ہیں۔ پاوا یورپین یونین کے سیفٹی ایکٹ کے تحت ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔

ہندوستانی حکومت نے نا صرف اسکے استعمال کی باقاعدہ منظوری دے دی ہے بلکے ابتدائی طور پر پچاس ہزار کارتوس تیار کرنے کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔

بھارتی حکومت نے ہر بار مظالم کا ذمے دار کشمیر میں آزادی کی مسلح جہدو جہد کرنے والوں پر ڈالا ہے اور اس بار بھی مظالم کا ذمے دار حزب المجاہدین اور برہان وانی کو قرار دیا جا رہا ہے ۔ بھارت سرکار آزادی کی مسلح جہدو جہد کرنے والی تنظیموں اور آزادی کی تحریک میں شامل تمام افراد کو دہشت گرد قرار دیتی ہے یہی وجہ ہے برہان وانی کی شہادت کو بھی بھارت سرکار ایک دہشت گرد کی ہلاکت کا واقع قرار دے رہی ہے لیکن بھارت سرکار سے سوال یہ ہے کہ ایک برہان وانی کی سزا ہزاروں کشمیریوں کو کیوں دی جارہی ہے اس کا منطقی جواب بھارت کے پاس یہ ہے یہ تمام لوگ دہشت گردوں کے معاون ہیں لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سارا کشمیر دہشت گرد ہےَ ؟ کیا کشمیری ہزاروں بلکے لاکھوں جانیں محض دہشت گردوں کی حمایت میں دے رہے ہیں؟ کیا گزشتہ سات دہائیوں سے جانوں اور عزتوں کی قربانی دینے کے باوجود کشمیری مرد، خواتین، نوجوان اور طالب علم دہشت گردوں کو پہچان نہیں سکے اور مزید قربانیاں دیے جا رہے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ بھارتی حکومت کی محض حقائق سے چشم پوشی اور رائے فرار ہے ۔

بھارت سمیت پوری عالمی برادری کو یہ بات سمجھ لینی چاہئیے کشمیر ی ریاست کا وجود تقسیم پاک و ہند سے پہلے بھی موجود تھا، اور تقسیم ہند کے وقت جبری طور پر اور فوجی قوت پر ایک کشمیر ریاست کو دو علیحدہ حصوں میں تقسیم کیا گیا اور کشمیر کے حتمی اور مستقل حل کے لیے عالمی ادارے اقوام متحدہ میں قراردادیں جمع کرائی گئی لیکن 72برس گزرنے کے باوجود کشمیر کا مسلہ تا حال حل طلب ہے، ان 72 برسوں میں نہ تو اقوام متحدہ اور نہ ہندوستان اور پاکستان کی طرف سے کوئی پیش رفت ہوئی بلکے ان (72)برسوں میں معمالات مزید الجھتے چلے گئے۔

ایک ایسی ریاست جس کا مستقبل سالوں سے التوا کا شکار ہو، جس کی عوام دہائیوں سے حقیقی آزادی سے محروم لاکھوں فوجیوں کی گنوں کے سائے میں سانس لیتی ہو، جسکی پوری پوری نسلیں آزادی کی تمنا لیے دنیا سے رخصت ہوئی ہو ں،جس نے ہر پلیٹ فارم پر اپنا مقدمہ پیش کیا ہو اور ہر طرف سے سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ حاصل نہ ہوا ہو وہاں کی عوام کا اپنے جائز حق کے حصول کی کوشش میں تلخ و سخت مزاج ہونا اور نئے طریقے آزمانا اصول فطرت کے عین مطابق ہے۔ اگر بھارتی حکومت کشمیر کے مستقل حل میں سنجیدہ نہیں ہوتی اور محض طاقت کی بنیاد پر کشمیر کو اپنے ساتھ ملائے رکھتی ہے تو اقوام کی فطرت یہ بتاتی ہے کشمیر کی آنے والی نسلیں نہ صرف آزادی کی تحریک کا باقاعدہ حصہ بنیں گئیں بلکے تحریک کو مزید مستحکم اور کامیاب بنانے میں واضح کردار اد کریں گی۔موجودہ نسل یا آئندہ نسل کو کوئی شخص جب ہزاروں عورتوں کی عصمت دری کے واقعات سنے گا، قبروں کی درجنوں قطاریں دیکھے گا، مہینوں مہینوں گھر میں محصور رہے گا اور گھر سے باہر گلی، چوک بازار سنسان دیکھے گا تو اسکے دل میں موجودہ حکومت کے خلاف نفرت پیدا ہوگی اور اسے بغاوت پر اُ کسانے کے لیے نہ کسی اندرونی تحریک کی ضرورت ہے اور نہ کسی خارجی عنصر کی بلکے اسکے اندر کا درد ہی اسے بغاوت پر اکسائے گا۔

اسلامی دنیا اور بالخصوص اسلامی ممالک کی تنظیم کی ذمے داری ہے وہ کشمیر کے موقف کو عالمی سطح پر اٹھانے میں واضح کردار اد کرے، اقوام متحدہ، پورپی یونین ااور اقوام عالم کو کشمیر کی جانب متوجہ کریں۔

پاکستان جو عالمی سطح پر کشمیر کا وکیل ہے پر لازم ہے کہ پاکستان بھی کشمیر پر اپنی روایتی پالیسی تبدیل کرے محض بیان بازی پر اکتفاء نہ کرے اور نہ کشمیر کے مسلیپ کو اٹھانے کے لیے اقوام متحدہ کے اجلاسوں کا انتظار کرے بلکے عمومی حالت میں بھی کشمیر کا مقدمہ لڑا جائے، ہر پلیٹ فارم پر کشمیر کا مقدمہ نئے جذبے کے ساتھ پیش کیا جائے۔ہندوستان جو ہر مذکرات کو سرحد پار دہشت گردی سے مشروط کرتا ہے کے ساتھ مذکرات کو کشمیر کاز کے ساتھ مشروط کیے جائیں اور ہندوستانی مظالم پر ہندوستان کے ساتھ تمام تر تعلقات احتجاجا منقطع کر دیے جائیں ۔

آزاد کشمیر حکومت کو چاہئیے کے وہ مقبوضہ کشمیر کی بھرپور اخلاقی حمایت جاری رکھے، کشمیری حکومت اپنے طور کشمیر کا مسلۂ عالمی سطح پر اٹھائے اور پاکستانی حکومت اگر کہیں سستی روی اپناتی ہے تو کشمیر حکومت کا فرض کے کہ وہ پاکستانی حکومت کو سست روی پر ٹوکے اور اپنے تئیں یاد دہانی کرائے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے