ریاست کے شخص اعتباری ہونے کی بحث اور مسلم تاریخ میں ریاستی جبر کے واقعات

ممارگزشتہ دنوں مختلف اہل علم نے ریاست کے شخص اعتباری ہونے کے کچھ مضمرات پر نیز اس پہلو پر روشنی ڈالی کہ یہ تصور مسلم قانونی روایت میں کس حد تک ملتا ہے اور کس حد تک نہیں۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر عموماً واقعہ کربلا اور اسلامی تاریخ میں رونما ہونے والے اس نوعیت کے الم ناک واقعات زیر بحث ہیں۔ سو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں بحثوں کے باہمی تعلق کو دیکھنے کا ایک طالب علمانہ زاویہ بھی اہل علم کے سامنے پیش کر دیا جائے۔

ریاست کے شخص اعتباری ہونے کے تصور کا گہرا تعلق ریاستی اختیارات کی تقسیم کے مسئلے سے ہے، بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ تقسیم اختیارات کا اصول مان لینے کے نتیجے میں ہی شخص اعتباری کے تصور کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مغرب میں جدید ریاست کے ارتقا میں ایک اہم عامل کا کردار بادشاہ کے مطلق العنان ہونے کے مسئلے نے ادا کیا۔ مغربی مفکرین نے ارتکاز اختیارات اور اس سے پیدا ہونے والی قباحتوں کا حل یہ تجویز کیا کہ حکومت واقتدار سے متعلق اختیارات کو ایک فرد میں مرتکز کرنے کے بجائے انھیں مختلف مراکز میں تقسیم کر دیا جائے جو ایک دوسرے کو تجاوز سے روکنے کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا کام کریں۔ اس سے افراد کے بجائے اداروں مثلاً مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ وغیرہ کا نظام وجود میں آیا۔ چونکہ یہ تمام ادارے الگ الگ دائروں میں اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کے باوجود ایک ہی نظم اجتماعی کا حصہ ہوتے اور اسی کے طے کردہ مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں، اس لیے ان کے مجموعے کو ایک جامع عنوان یعنی ’’ریاست’’ سے تعبیر کیا جاتا ہےاور قانونی وسیاسی بحثوں میں اس کی طرف ذمہ داریوں اور اختیارات یا بالفاظ دیگر حقوق وفرائض کی اسی طرح نسبت کی جاتی ہے جیسے اس سے پہلے ایک فرد یعنی بادشاہ کی طرف کی جاتی تھی۔ اسی کو قانونی اصطلاح میں ’’شخص اعتباری’’ کہا جاتا ہے۔

مسلم سیاسی فکر میں ’’امام’’ یعنی مسلمانوں کے حکمران کی شخصیت میں تمام تر سیاسی اختیارات کے ارتکاز کا تصور غالب ہے۔ شریعت کی پابندی کی شرط کے ساتھ مسلمانوں کے جملہ اجتماعی امور سے متعلق آخری اور فیصلہ کن اختیار ’’امام’’ کے لیے تسلیم کیا گیا ہے۔ چنانچہ کسی بھی اجتہادی تعبیر کو قانون کا درجہ دینے کا فیصلہ کن اختیار اسی کے پاس ہے۔ وہ دار الاسلام کے حدود میں کیے گئے کسی بھی عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کا اختیار رکھتا ہے۔ وزرا، گورنروں، عمال، قضاۃ اور فوجی امراءکے تقرر کا حتمی اختیار اس کے ہاتھ میں ہے۔ دشمن کے ساتھ جنگ کرنے یا صلح کا معاہدہ کرنے میں امام ہی فائنل اتھارٹی رکھتا ہے۔ گویا مسلمان امت اپنے اجتماعی امور سے متعلق تمام تر اختیارات ’’امام’’ کو تفویض کر دیتی ہے اور پھر وہ ان کی نیابت میں، انتظامی سہولت اور مصلحت کے تحت ان میں سے کچھ اختیارات مختلف سطحوں پر اپنے منتخب عمال اور افسران کے سپرد کر دیتا ہے، تاہم اختیارات کا اصل منبع ومصدر امام ہی کی شخصیت رہتی ہے اور اپنے تفویض کردہ اختیارات کے تحت کیے گئے تمام فیصلوں اور تصرفات پر نظر ثانی کا آخری اختیار امام ہی کے پاس رہتا ہے۔

ہر سیاسی وقانونی تصور کی طرح اس سیاسی تصور کے بھی مختلف اور متنوع مضمرات تھےاور ناگزیر طور پر ان کے اثرات ونتائج اسلامی تاریخ اور قانونی روایت پر بھی مرتب ہوئے۔ان میں سے ایک اہم نتیجہ یہ تھا کہ سیاسی نوعیت کے مقدمات کی سماعت اور ان کے فیصلے عمومی عدالتی سسٹم کے دائرہ اختیار میں شامل نہیں تھے اور حکومت یا حاکم کے خلاف کیے جانے والے کسی بھی اقدام کا فیصلہ براہ راست خود امام ہی کیا کرتا تھا اور اس کے فیصلوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ گویا عدلیہ، سیاسی مقدمات میں نہ صرف یہ کہ انتظامیہ کے تابع تھی، بلکہ سرے سے بے اختیار تھی، کیونکہ یہ مقدمات امام کی طرف سے اس کے دائرہ اختیار میں رکھے ہی نہیں گئے تھے۔ اسلامی تاریخ کے اہم ترین اور الم ناک ترین حادثات میں ہم اس قانونی تصور کے براہ راست اثرات دیکھ سکتے ہیں۔ سیدنا عثمان کو شہید کیا گیا تو قصاص کا مطالبہ کرنے والےخلیفہ وقت کو اس واقعے یا اس کی ذمہ داری سے بالکل لاتعلق تسلیم کرتے ہوئے بھی ان کی طرف سے باغیوں کے خلاف کسی موثر قانونی اقدام کے امکان پر مطمئن نہ ہو سکے، اور چونکہ معاملہ براہ راست خلیفہ کے دائرہ اختیار میں آتا تھا، جبکہ عدلیہ بطور ایک مستقل ادارے کے کوئی وجود نہیں رکھتی تھی جو اپنی آزاد حیثیت میں سیاسی مقدمات کی سماعت کا اختیار رکھتی ہو، اس لیے قصاص کا مطالبہ کرنے والوں کو نظام کے اندر رہتے ہوئے اپنے مطالبے کی تکمیل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے نہتے خانوادے کو کربلا میں شہید کر دیا گیا، لیکن چونکہ معاملہ سرے سے عدالتی نظام کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں تھا، اس لیے نہ اس کی تحقیق کے لیے کوئی عدالتی کمیشن قائم ہو سکتا تھا اور نہ امام کے خلاف طاقت کے ناجائز استعمال کا مقدمہ دائر کیا جا سکتا تھا۔ حجاج بن یوسف نے حکومت مخالف رجحانات کو ختم کرنے کے لیے لوگوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے اور اکابر صحابہ وتابعین کی ایک بڑی جماعت بھی اس کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوئی، حتی کہ بیت اللہ کی حرمت تک پامال کی گئی، لیکن اس کے خلاف بھی کوئی مقدمہ نہ چلایا جا سکا۔

ظاہر ہے کہ اس پوری صورت حال میں مسلم معاشرہ بھی موجود تھا اور اس کے اندر عدل وانصاف کی قدریں اور اخلاقی جرات کے اوصاف بھی زندہ تھے اور عین اسی وقت میں اپنے دائرہ اختیار میں جلیل القدر مسلمان قاضی کسی خوف کے بغیر خود حکمرانوں کے خلاف بھی فیصلے کر رہے تھے۔ اصل مسئلہ جملہ ریاستی اختیارات کو امام کی شخصیت میں مرتکز ماننے کے قانونی تصور میں تھا جس کی رو سے تمام ریاستی ادارے (اگر انھیں جدید مفہوم میں ’’ادارے’’ کہا جا سکے) دراصل امام کی طرف سے تفویض کیے گئے اختیار کے دائرے میں ہی کوئی قدم اٹھانے کے مجاز تھے ۔ اس سے ہٹ کر ان کا کوئی اقدام کرنا صریحاً قانون کے خلاف ہوتا جس پر امام متعلقہ فرد کو معزول کرنے کا حق رکھتا تھا۔ہمارے طالب علمانہ نقطہ نظر کے مطابق دور اول میں خروج اور بغاوت کے مسلسل واقعات کو اس تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اقتدار کے پرامن انتقال نیز ریاستی جبر سے تحفظ جیسے اہم عملی سوالات کا کوئی حقیقی جواب اس وقت مسلم سیاسی فکر کے پاس، بلکہ اس وقت دنیا کے کسی بھی مسلمہ سیاسی فکر کے پاس موجود نہیں تھا۔ انسانی تمدن اور انسانی تاریخ اچھے اور برے تجربات کی روشنی میں اور خوب سے خوب تر کی تلاش کے جذبے سے ہی آگے بڑھتے ہیں۔ آج اگر دنیا کی کچھ دوسری قوموں نے اجتماعی نظام کو چلانے کے لیے مسلم سیاسی فکر سے ہٹ کر کچھ مفید تصورات یا تجربات پیش کیے ہیں تو انھیں اسلامی قانونی روایت کے لیے غیر مانوس ہونے کی بنیاد پر یکسر مسترد کر دینے کے بجائے ان کی عملی اور قانونی افادیت کے پہلو سے زیر غور لانا اور ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔

باقی جہاں تک شخص اعتباری کے کچھ نامناسب نتائج یا قانونی نقائص کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ ہر قانونی تصور کے کچھ عملی مضمرات اور نتائج ہوتے ہیں اور ان میں مثبت اور منفی، دونوں پہلو شامل ہوتے ہیں، اس لیے کہ کسی بھی قانونی تصور کی تشکیل دراصل کچھ اخلاقی اقدار یا عملی مصلحتوں کو کچھ دوسری اقدار یا مصلحتوں پر ترجیح دینے سے ہوتی ہے اور عموماً ان کے مقابلے میں کسی دوسری قدر یا مصلحت کی قربانی دی جا رہی ہوتی ہے۔ایسی بحثوں میں فیصلے کی بنیاد نظری اور جزوی پہلووں سے زیادہ مجموعی اور غالب پہلووں پر ہوتی ہے اور کسی بھی تصور یا تجربے کے رد وقبول کا فیصلہ اس کی مجموعی افادیت یا عدم افادیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے