2005 کے زلزلے کی کچھ یادیں، مکمل تحریر

[pullquote]پُتر سب کچھ تباہ ہو گیا۔ [/pullquote]

یار شیر غازی یہ دیکھو؛ ایبٹ آباد میں کتنے بڑے بڑے پلازے اور شاپنگ مال بن رہے ہیں ۔ میرے خیال میں ان لوگوں کی سات نہیں تو کم ازکم چا ر نسلیں تو آرام سے بیٹھ کر کھائیں گی۔

شیر غازی : سہی کہتے ہو ۔ اور ہماری سات نسلیں انہی بلڈنگز میں فلیٹ کرائے پر رہ کر رہیں گی ۔ اور ہم دونو ں قہقہہ لگا کر آگے چل دیے ۔ یہ 7 اکتوبر 2005 کی ایک چمکتی صبح تھی اور میں اپنے دیرینہ دوست شیر غازی کے ساتھ ہوٹل سے ناشتہ کر کے باہر نکلا تھا۔
اسی رات میں حسب معمول ریڈیو پر شفٹ مکمل کرنے کے بعد مانسہرہ اپنے گھر میں سحری کر کے سو رہا تھا کہ کسی لمحے میں زمین لرزنا شروع ہوئی ۔ پکام (زلزلہ) آ گیا پکام آ گیا کی آوازوں کے ساتھ لوگوں کی چیخ و پکار کے سنائی دینے لگی۔ صحن میں نکل کر جو منظر میرے سامنے تھا وہ ان سارے واقعات سے ملتا جلتا تھا جو ہم نے ’’قیامت کب آئی گی‘‘ یا ’’قیامت کا منظر‘‘ کی کتابوں میں پڑھ رکھا تھا ۔ اللہ اللہ کی صدائیں تھیں ، نفسا نفسی کا عالم تھا ، زمین اپنا بوجھ باہر نکال رہی تھی ۔ مکانات بنیادوں سمیت اکھڑ رہے تھے ۔ اچانک کسی نے آواز لگائی ۔ بچے کہاں ہیں ۔ اف بچے تو سکول گئے ہیں ۔ اب سب خود کو بھول کر بچوں کے پیچھے نکل گئے ۔ موبائل فون بند ، لینڈ لائن فون بند ۔ خبر لینے کا کوئی طریقہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔

بہر حال چند گھنٹوں کے بعد مانسہرہ میں صورتحال سنبھل گئی۔ بچے گھروں کو آ گئے ۔ کہیں کہیں اکا دکا نقصانات کی خبریں ملیں ۔ لوگوں نے سکون کا سانس لیا ۔ لیکن گھر خالی تھے اور سڑکیں ، گلیاں اور میدان لوگوں سے بھرے پڑے تھے۔ اگرچہ اکتوبر تھا لیکن دھوپ میں شدت تھی ۔ لوگ سایہ دار پناہ گاہ بنانے کے لئے چادریں ، شالیں اور ترپال استعمال کر کے عارضی خیمے بنا رہے تھے ۔ کہیں نماز کا اہتمام تھا اور کہیں قر آن کی تلاوت ہو رہی تھی ۔ کوئی ہاتھ تسبیح سے خالی نہیں تھا۔
حالات سنبھلنے کے بعد صحافتی زمہ داری نبھانے کی غرض سے میں نے ایبٹ آباد میں واقع اپنے ریڈیو کا رخ کیا ۔گاڑی نے 2گھنٹے میں 4 کلومیٹر گا سفر کیا لیکن پھر اس کے بعد رش کی وجہ سے پیدل چلنا شروع کیا ۔ راستے میں موبائل کے سگنل آئے تو میں نے ایبٹ آباد میں موجو د اپنے دوست شیر غازی کو فون کیا ۔ تاکہ وہاں کی صورتحال پتہ چل سکے۔ اس نے کہا کہ کل تم جن پلازوں کا حوالہ دے کر سات نسلوں کو کھلانے کا پروگرام سوچ رہے تھے وہ اب زمیں بوس ہو چکے ہیں ۔ سات نسلوں نے کھانا کیا تھا اب تو موجودہ نسل کی زند گی کے لالے پڑ چکے ہیں ۔

اس نے بتایا کہ زلزلے کے جھٹکے جاری ہیں ۔ اور ہزاروں لوگ سڑکوں پر موجو ہیں۔ سینکڑوں ایمبولسز مسلسل ڈیوٹی پر ہیں ۔ اور ہسپتال زخمیوں اور لاشوں سے بھر چکے ہیں۔ پھر تین گھنٹے کا سفر تین صدیوں میں گزرا۔ یا اللہ یہ کیا ہو گیا۔
خدا خدا کر کے میں ایبٹ آباد ہسپتال پہنچا۔ دل کا کمزور ہوں ۔ آنسو نہ روک سکا ۔ ہر طرف خون ہی خون تھا، کہیں لاشیں تھیں اور کہیں ذخمی تڑپ رہے تھے ۔ میں اسی کشمکش میں تھا کہ ایک ڈاکٹر کی آواز آئی کہ یہ وقت سوچنے کا نہیں ۔ ہمیں آپ کی مدد چاہیئے ۔ مجھے آج بھی اس ڈاکٹر کا چہرہ یاد ہے جس نے سارے ڈاکٹرز ، سٹاف اور رضاکاروں کا حوصلہ بڑھایا ۔ کیونکہ زلزلے کے جھٹکوں کے ساتھ ہسپتال کی بلڈنگ کے اندر جا کر مریضوں کا علاج کرنا ایک خود کشی سے کم نہیں تھا۔ زند گی میں پہلی دفعہ بچوں، عورتوں اور مردوں کو آنکھوں کے سامنے جان دیتے ہوئے دیکھا۔

اسی دورانیے میں اسلام آبا د سے خبر آئی کہ کہ وہاں دو ٹاور گر گئے ہیں اور سارا میڈیا اس کی خبریں دے رہا ہے ۔ میں نے مختلف میڈیا ہا وٗ سز میں فون کر کے ایبٹ آباد اور مانسہرہ کی صورتحال بتائی لیکن گھنٹوں گزرنے پر بھی کسی کو بھی پتا نہ چل سکا ۔ کہ کشمیر اور ہزارہ میں کیا قیامت گزر چکی ہے ۔

لیکن نہیں ! ابھی ایک قیامت باقی تھی ۔ اگلی صبح سحری کے بعد دو ایمبولینسز ایمرجنسی گیٹ سے اندر آتی ہیں اور ایک سفید داڑھی والا ڈرائیور گاڑی روک کر نیچے اترتا ہے ۔ میں اس سے پوچھتا ہوں کہ چاچا کون سے علاقے سے آ رہے ہو ۔ اور وہ کہتا ہے کہ بیٹا بالاکوٹ سے ۔
میں : چاچا بالاکوٹ کے کیا حالات ہیں ۔

چاچا: پتر سب تباہ ہو گیا سب برباد ہو گیا ۔تین سو بچیاں سکول کے ملبے تلے دھنس چکی ہیں۔
یہ کہتے ہوئے چاچا گرتا ہے اور بے ہوش ہو جاتا ہے

[pullquote]2005 کے زلزلے کی کچھ یادیں ،،،سکول کی چھت اور ننھی کی تلاش
[/pullquote]

9 اکتوبر 2005 کو بالاکوٹ کی طرف رخت سفر باندھا۔ گڑھی حبیب اللہ سے چند کلومیٹر آگے حسہ کے مقام کے بعد لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ٹریفک بند تھا ۔ ما نسہرہ سے بالاکوٹ جاتے ہوئے جگہ جگہ تباہی کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے تھے ۔ بہرحال اس سے آگے کا سفر ایبٹ آباد کے صحافی عاطف قیوم کے ساتھ پیدل طے کرنے کا فیصلہ ہوا۔ حسہ کے پہاڑی راستوں سے گزرتے ہوئے ہم قریب تین گھنٹے میں بالاکوٹ پہنچے ۔ لیکن راستے میں کوئی ایسا مقام نہیں گزرا ۔جہاں کوئی جنازہ نہ ہو رہا ہو۔ ہر طرف درد تھا، غم تھا ، چیخ و پکار تھی ۔

بالاکوٹ زندہ لا شوں کا قبرستان بنا ہوا تھا۔ سفید کپڑے سے ڈھکی لاشیں۔ زخمی یہاں وہاں تڑپ رہے تھے ۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس کو اٹھاوٗں کس کو چھوڑوں۔ سوچا کہ ٹی وی والے تو اسلام آبا د میں مصروف ہیں تو ریڈیو سٹیشن کے ذریعے اس قیامت کی اطلاع کسی کو دے دوں کہ کوئی ان کی مدد کو آ سکے۔
موبائل سگنلز کی تلاش میں بالاکوٹ بازار سے زرا اوپر پہنچا تو ایک خستہ حال نوجوان کو دیکھا ۔ جس کے ہاتھ میں ایک ہتھوڑی تھی ۔ اور وہ روتے ہوئے کنکریٹ کے ایک چھت کو دیوانوں کی طرح کُوٹ رہا تھا۔

میں لپک کر اس کی طرف گیا ۔ اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا بھائی ۔ اس نے کہا کہ یہ سکول کی چھت ہے ۔ پوری بلڈنگ زمین کے اندر دھنس چکی ہے ۔ اور میری چھ سالہ بہن کی کلاس تو گراونڈ فلور پر تھی ۔ بھائی میں تمہیں ہتھوڑی دیتا ہوں ۔میری مدد کرو۔ میں گزشتہ دن سے اس کو کُوٹ رہا ہوں ۔ آخر کچھ دن بعد تو اپنی ننھی کو نکال سکوں گا۔ اور پھر وہ پُھوٹ پُھوٹ کر رونے لگا ۔

اس کے بعد ایک سال تک ہزارہ سے کشمیر تک رپورٹنگ کے دوران درد کی ہزاروں داستانیں سنیں اور رپورٹ کیں ۔ کسی کا خاندان کا خاندان زمین بوس ہو گیا ۔ اور کوئی عمر بھر کے لئے معذور ہو گیا اور کسی کی ساری عمر کی کمائی ان چند لمحوں کی نظر ہو گئی ۔ اس دوران کچھ معجزات بھی رونما ہوتے دیکھے ۔ کوئی دس دن بعد، کوئی مہینے بعد اور کوئی مہینوں بعد ہزاروں من ملبے سے زندہ نکلا۔ اس سارے منظر میں سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کی ناقص تعمیرات کی قلعی کھل گئی جن کے ملبے کے نیچے ہزاروں بچے یا تو دفن ہو گئے یا معذور ہو گئے ۔ آج بھی گورنمنٹ ہائی سکول بالاکوٹ کے گراوٗند میں بچوں کی اجتماعی قبر دیکھی جا سکتی ہے۔

لیکن خیبر تا کراچی ہزاروں لاکھوں لوگ اس لوگوں کی امداد کے لئے پہنچنا شروع ہوئے ۔ تب پتہ چلا کہ ایک قوم کیا ہوتی ہے۔ جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا ۔ لیکن اس کے بعد اعلان ہوا کہ چونکہ بالاکوٹ زلزلے کی خطرے والی لائن پر ہے اسلئے یہاں کسی بھی قسم کی تعمیرات کی اجازت نہیں ہے ۔ حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ دنیا بھر سے اربوں روپے کی جو ما لی امداد آئی ہے اس سے بالاکوٹ سے مانسہرہ کی طرف کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر نیو بالاکوٹ سٹی بنے گا ۔ لیکن گزشتہ گیارہ سال سے یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہے ۔ بہت سے لوگوں نے اس تاخیر کو دیکھے ہوئے بالاکوٹ میں پھر سے غیر قانونی تعمیرات بھی کر لی ہیں کیونکہ قانون جب حق نہ دے تو عوام غیر قانونی طریقے اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بالاکوٹ کے لوگ آج بھی منتظر ہیں کہ ان سے کیا گیا وعدہ پورا کیا جائے گا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے