شہ رگ کے رستے زخم

کشمیر میں بھارت کی نام نہاد سیکولر اور جمھوری حکومت کا غیر انسانی چہرہ کشمیر میں جاری درندگی اور بر بریت کے ساتھ انسانیت اور بنیادی انسانی حقوق کے علمبرداروں کے سامنے کھل کر سامنے آگیا ہے۔بے گناہ اور معصوم کشمیری ایک بار پھر آزادی اور پاکستان سے محبت کی شمعیں جلائے سڑکوں پر دیوانہ وار بھارت کی مسلح اور درندہ صفت فوج سے نبرد آزماء ہو رہے ہیں ۔ انکے استقامت اور ولولے کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے۔ کہ جیسے بھارت کے ۶ لاکھ فوجی جو کہ ہر قسم کے اسلحہ سے لیس بہ زبانِ حال ان سے شرمندگی کے عالم میں اپنی شکست و درماندگی کا اظہار کر رہے ہوں۔

آج بھارت کی حیوانیت اور درندگی پر انسانیت ماتم گسار ہے ۔ انسانی جذبے اور انسانی اقدار انسانیت کے اس روپ کو دیکھ کر شاید اپنے آپ سے شرمسار ہے۔ لیکن اس درندگی اور انسانیت سوز رویوں کے باوجود بھارتی سرکار اور حکومت کے کرتا دھرتاؤں کی بے شرمی اور اخلاقی بدحالی کا یہ حال ہے۔ کہ وہ دنیا کی نگاہوں سے اس دہکتے انگارے کو چھپانے اور آزادی کے متوالوں کو دہشت گرد وں کے نام سے متعارف کرانے کے لئے کمال بے حسی کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں۔

کشمیری نوجوان ، عورتیں اور بچے آزادی کے گن گاتے دنیا کے اس بڑے اور دوغلے جمھوریت کا اصلی چہرہ بے نقاب کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور پاکستان کی حکومت اور سیاستدان راویتی بیانات اور سیاسی نعروں اور قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم لگانے کا بوسیدہ نسخہ آزما رہے ہیں۔

کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔یہ سیاسی نعرہ یا پھر ہمارے عسکری اداروں کا عزمِ محکم ہم اپنے زمانہ طالبعلمی سے سنُ رہے ہیں۔لیکن زمانہء طالبعلمی سے لے کر آج تک۳۰ ، ۳۲ سال گزرنے کے باوجود اس شہ رگ کے رستے ہوئے زخموں کا کوئی عملی مداوا نہیں ہوسکاخاص کر ہمارے سیاسی حکومتوں کا اس سلسلے میں کردار سوائے گفتار اور کشمیریوں کے نام کی آسائشیں لے کر پر عیش زندگی گزارنے سے زیادہ آگے نہ بڑھ سکا۔

عسکری ادارے تو بھارت کے ہرجارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے ہر وقت تیار اور سربکف ہوتی ہیں۔ لیکن سیاسی قیادت ہمیشہ اپنے مفادات کی کھونٹی سے اٹکے ہوئے اپنے لائحہ عمل سے قوم کے جذبات کی صحیح ترجمانی کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ہماری سیاسی قیادت ہمیشہ سفارتی محاذ پر کشمیر کے مسئلے کو صحیح طور پر اجا گر کرنے میں ناکام رہی ہے۔ وزارتِ خارجہ کی اپنی خارجہ پالیسی ہمیشہ افرد کے رحم و کرم پر وقتی سہاروں کے بل رینگتی ہوئی کراہ رہی ہوتی ہے۔ایسے میں وہ کشمیر کے مسئلے کا کیا ادراک اور کیا مقدمہ لڑے گی؟

بلکہ آج کل تو اور افسوس اور شرم کا مقام ہے۔ کہ موجودہ حکومت نے پچھلے تین سالوں سے وزارتِ خارجہ کا با ضابطہ وزیرِ خارجہ چھین کر اسکو عملی طور پر یتیم کر دیا ہے ۔ اور اس یتیم اور بے آسرا محکمے کی کفالت دو ایسے بوڑھوں کے ناتواں کندھوں پر ڈال دی ۔ جو شاید خارجہ امور کے حواے سے اپنی درماندگی اور ناتوانی کا بوجھ بھی اُتھانے سے قاصر ہیں۔ان دو ضعیفوں کو کشمیر کی بھاری بھرکم سیاسی جنگ لڑنے کی ذمہ داری دینا کشمیر کے مسئلے کے ساتھ کسی بڑے مذاق سے کم نہیں۔
نہایت افسوس اور شرم کے ساتھ کہنا پڑتا ہے۔ کہ غیر تو دور کی بات ہے ہم اس اہم قومی مسئلے پر اپنے اسلامی برادر ملکوں کو اعتماد میں لے کرکشمیریوں کے آواز سے ہم آواز نہ کر سکے۔

حکومت سی پیک منصوبے کے تحت چھوٹے صوبوں کا حق مار کر تختِ لاہور کی بنیادیں اور گہری کرنے میں مگن ہے۔ کہیں اور نج ٹرین کی بازگشت ہے تو کہیں لمبی چوڑی سڑکوں کے سہانے خواب ہے۔ کہیں وزیرِ خزانہ کی پُر فریب اور دلکش اعداد و شمار ہیں۔ تو کہیں خادم اعلی کی جنت نما مستقبل کے وہ جھوٹے وعدے جو کبھی ایفا نہ ہوئے فضاؤں میں گونج رہے ہیں۔ لیکن اس موقع پر پاکستان کے شہ رگ سے رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے روایتی پارلیمانی اجلاس، آل پارٹیز کانفرنس یا پھر کچھ قراردادیں، کچھ بھڑکیں اور پھر نتیجہ یہ کہ نشستن گفتن برخاستن اور باقی ملک کی سلامتی اور بھارت کے شیطانی منصوبوں کا جواب دینے کے لئے ہمارے جوانوں کا اللہ محافظ ہو۔نہ تو بھرپور انداز میں اسلامی ملکوں کو آج تک اپنا ہم آواز بنایا جاسکا اورنہ ہی اقوامِ متحدہ میں بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرکے ہم سلامتی کونسل کو اس بات پر مجبور کرسکے کہ وہ اپنے ہی کہے اور پاس کئے ہوئے قراردادوں کا پالن اور لحاظ کر لے۔سفارتی طور پر نہ تو ہم بھارت کے مقابلے کا منہ توڑ لابنگ کرسکے اور نہ ہی کشمیر کے معاملے پر ہم اپنے نقطہ ء نظر کو دنیا کی نظروں میں معتبر اور طاقتور منواسکے۔

اس سارے منظر نامے کو دیکھ کر ایک ہی خیال دل میں آتا ہے ۔ کہ آخرکشمیر کے آزادی کی اس جنگ کا حاصل کیا ہوگا۔ دماغ ایک ہی نقطے پر آکر رُک جاتا ہے ۔ کہ شاید یہ صرف کشمیریوں کی آزمائش اور کڑا امتحان ہے۔ ایک طرف انکی نسل کُشی اور آزادی کے لئے بے لوث جدوجُہد ہے دوسری طرف کشمیر کو اپنا شہ رگ ماننے والوں کی شہ رگ کی اہمیت سے بے خبر صرف سیاسی بیان بازیاں اور عوام کی آنکھوں میں جھونکنے والا دھول ہے۔

آزادی کے سُہانے خواب دکھا کر اور جاگو جاگو صبح ہوئی کے ترانے بجا کر یہ سوچتے ہوئے دل و ضمیر کانپ اُٹھتا ہے کہ کہیں ہم کشمیر کی مقصدیت، کشمیری عوام کے جذبات اور انکے احساسات کے ساتھ ظلم و زیادتی تو نہیں کر رہے ہیں؟اپنے سیاسی یتیموں کے کردار اور پچھلے تیس سالوں کی بے جان اور وقتی کشمیر پالیسی کو دیکھ کر دل اس بات پر نہ چاہتے ہوئے بھی یقین کرنے کو مجبور کرتا ہے کہ
نہ خنجر اُٹھے گی نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔ لیکن پھر دل میں خیال آتا ہے کہ نا اُمیدی کفر ہے ۔ اور دل اند ر سے اک یقین کے ساتھ تسلی دیتا ہے کہ کشمیریوں کی بے لوث قربانیاں ایک دن رنگ ضرور لائیں گی اور بھارت کی فرعونیت اور غرور و کبر کا بُت ایک دن ضرور پاش پاش ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے