اپنا آپ کہیں ہم کھو نہ دیں!!

!!!!!!!!!!!
نئے دورکی نئی باتیں جو سمجھ سے بالاتر ہے ایک دور تھا جب کسی شخص کی عزت اسکی تعلیم ، تہذیب ، نظریات ، خوش اخلاقی ،بلند خیا لی کی وجہ سے کی جا تی تھی چا ہے وہ کوئی امیر ہو یا پھر غریب ہو۔وہ گھرا نہ ہی اعلیٰ کہلاتا تھا جن کے پاس تعلیم ،تہذیب اور رکھ رکھاؤ تھا ۔ !آج کے دور میں ہمارے معاشرے میں صرف ان لوگوں کی عزت کی جاتی ہے جن کے پاس پیسہ ہو یا پھر وہ منہ بنا بنا کر انگلش بولتے ہوں ،ہم کس سمت جا رہے ہیں ہمیں نہیں پتہ ہم نے اپنی تہذیب اپنا کلچر اور اپنی زبان تو کہیں گم کر دی ہے ابھی حال ہی میں ایک نجی یونیورسٹی میں ایک ورکشاپ میں جانا ہوا ۔وہ یونیورسٹی جو جدید طرز کی بہت خوب صورت بنی ہوئی ہے ، بڑے بڑے کلاس رومز ،جدیدکمپوٹرسے مزین لیب ،کینٹین ،پلے گراؤنڈ،اور بہترین اساتذہ جو دیار غیر سے فارغ التحصیل ہو کر آئے ہیں اور وہ اپنے طلبہ کو ہر معلومات اور آگہی دے رہے ہیں مگر افسوس کے ساتھ تہذیب اور اپنی زبان کے علاوہ ۔ اُس ورکشاپ میں بہت اچھی اچھی باتیں سکھائی جا رہی تھی،گفتگو اور طرز تکلم بھی سیکھا گیا لیکن تمام کی تمام انگریزی میں تھی اچھی بات ہے ہمیں دوسری زبان پر بھی عبور حا صل ہونا چاہیے لیکن اپنی مادری زبان اسکا کیا ہو گا ؟اسکو پس پشت پر ڈال کر مغربی زبان کو اہمیت دی جائے گی ؟

ہم مغربی تہذیب میں ایسے رچ بس گئے ہیں کہ بس آج کل ہم ممی،ڈیڈی،پاپا،مام بولتے ہوئے باباجانی ،ابو،امی،اماں جیسے الفاظ کی میٹھاس تو کہیں گم کردی گئیہیں ،ہماری زبان تو زبان ہمارا لباس تک مغربی ہوتا جارہا ہے اُس تعلیمی ادراے میں بیشتر ٹیچرز مغربی لباس میں ملبوس تھی۔ کہتے ہیں استاد طالب علم کے لئے مثالی کردار ہوتے ہیں،سوچنے کی بات ہے جب استاد مغربی تہذیب کی پیروی کر رہے ہوں تو طالب علم کا کیا حا ل ہو گایہ صرف ایک ادارے کی بات نہیں ہے پاکستان کے تقریباً ہر پرائیویٹ یو نیورسٹی اور کالج کا یہی حال ہے ۔وہاں سے آنے کے بعد دل مضطرب ہو تا رہا اور اور سوچتی رہی کیا ہم بے راہ روی کا شکار ہو تے جارہے ہیں؟ہماری تہذیب جو خدا پرستی اور فکر آخرت کی اساس پر قائم ہے اور عفت وعصمت کے ستونوں پر کھڑی ہے، مغرب دنیا پرست اور آزاد تہذیب سے مغلوب ہونا شروع ہوگئی ہے۔چند دہائیوں کی بات ہے، اس کے بعد ممکن ہے کہ ہم قوم پرستی کے جذبے سے مغرب کے خلاف کھڑے ہوں، مگر ہم تہذیبی طور پر مغربی انداز فکر کو قبول کرچکے ہوں گے۔آج معیارِ زندگی بلند کرنے کی جو دوڑ لگی ہوئی ہے اور دنیاوی لذتوں اور تعیشات کو زندگی کا مقصد بنالینے کا جو عمل شروع ہوگیا ہے، اس کے نتائج ہمارے کھوکھلے اخلاقی وجود کے لیے تباہ کن ثابت ہورہے ہیں۔

ہم دنیا بھر سے اسلام کے نام پر لڑتے ہیں،مگر انفرادی یا اجتماعی سطح پر اپنے سیرت و کردار میں وہ مثالی نمونہ پیش نہیں کرپاتے جو صحابہ ا کرامؓ یا ان کے بعد بھی مسلمانوں کا شعار تھا۔ مثالی ہونا تو دور کی بات ہے ہم معمول کا وہ اخلاقی رویہ بھی پیش نہیں کرپاتے جس کی توقع بحیثیت ایک اچھے انسان سے کی جاسکتی ہے،آج ہمارے اکثر تعلیمی اداروں میں یہ بات دیکھی جا رہی ہے کہ وہاں ’’ہم نصابی‘‘ لیکن درحقیقت غیر تعمیری سرگرمیوں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ خصوصاً گرلز کالجز اور نجی تعلیمی اداروں میں ہم غیر نصابی پروگرامز اور فن فیئرز کے نام پر اخلاقیات کی حدود پامال کی رہے ہیں ۔ سالانہ تقریبات، مقابلہ حسن، فیشن شوز، ملبوسات کی نمائش، کیٹ واک اور کبھی ڈانس مقابلوں کے عنوان سے پروگرامز کے انعقاد کے ذریعے ہماری ملی و دینی، ثقافتی اور قومی غیرت وحمیت کا جنازہ نکالا جارہا ہے۔ ملک بھر میں پرائمری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک تعلیمی اداروں میں ’’روشن خیالی‘‘ کے نام پر جو وباء پھیل رہی ہے وہ ہمارے معاشرے اور تمد ن کودیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اور نتیجتاً ان تعلیمی اداروں سے محب وطن لوگ اور مستقبل کے دانشور پیدا ہونے کے بجائے رومانوی داستانوں کے ہیروز اور مستقبل کے لالی وڈ اور ہالی وڈ کے ’’ٹاپ ا سٹارز‘‘ بنائے جارہے ہیں ۔کہتے ہیں ہر معاشعر ہ اسکی تہذیب،تمدن اور ثفاقت سے پہچانے جاتے ہیں ،ہما را ملک کس تہذیب سے پہچا نا جائے گا ؟کیا مغربی تہذیب سے ؟جبکہ ہما را ملک تو ایک اسلامی ملک ہے ہماری اپنی ایک بہت اچھی پہچان ہے،ہماری اپنی تہذیب ،ہماری ثفاقت ،ہمارا اپنا لباس تو بہت خوب صورت ہے پھر ہم کیو ں اس کو ترک کر کے دوسروں کی پہچان اپنا رہے ہیں ؟ہم کس راہ پر گامزن ہیں ؟کیا ہمارے ملک سے ہماری زبان ،ثفاقت بلکل ختم ہو گئی ہے

یہی سوچ سر پر سوار رہی سارادن ،لیکن شام میں جب ایک بہت نفیس اورسادہ طبیعت کے مالک معروف کالم نگار وشاعریعقوب غزنوی صاحب سے روزنامہ امت کے دفتر میں ان سے ملاقات کا شر ف حاصل ہوا اور انکی گفتگو سے مستفید ہوئے تو دل کو سکون ملا، کہ آج بھی ہمارے درمیان ایسی مثالی کردار موجود ہیں جن کی وجہ سے ہماری زبان، ہماری تہذیب زندہ ہے ،ان کا تعلیمی سفر کیسا تھا؟ انہو ں نے لالٹین کی روشنی میں تختی پر لکھ لکھ کر وہ تعلیم حاصل کی تھی جو آج کی نسل ہر آسائش ہونے کے باوجود بھی حاصل نہیں کر سکتی انکی اچھی اچھی باتیں سن کر میں نے صبح و شام کا موزانہ کیا، صبح کیا سبق سیکھا اور شام میں کیا سیکھا ؟وہاں لبر ل لوگوں کی زبان سے قرآن کا ترجمہ سن کر کیسا لگا تھا اور ابھی ان سے اسلام کی تاریخ سن کر کیسا لگ رہا ہے۔ہمیں یقوب غزنوی صاحب جیسے قلم اور زبان سے محبت کرنے والے لوگوں کو اپنا مثالی کردار بنا نا چاہیے جنہوں نے اپنے ہی ملک میں رہتے ہوئے ہی بڑی جدوجہد سے کامیابی حا صل کی نہ کہ ان لوگوں کو اپنا مثا لی کردار بنا ئے جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مغرب میں گزرا اور وہی سے تعلیم حاصل کی اور آج وہ ہمارے ملک بھی مغربی تہذیب اور ثقافت کو فروغ دے رہے ہیں ۔ہمیں مغرب کے بجائے اپنی زبان ،ثقافت اور تہذیب کواجاگر کرنا ہے !ہماری اپنی زبان جو میٹھاس ،ہماری اپنی تہذیب میں جو آداب و شائستگی ہے ،ہمارے اپنی ثقافت میں جو پاکیزگی ہے وہ مغرب میں نہیں۔ہمارے معاشرے کا تو وہ حال ہوگیا ہے کوا چلاہنس کی چال اپنی ہی چال بھول گیا ۔ہماری نئی نسل کو تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت کی بھی ضرورت ہے جو ہم اپنے بزرگوں سے زیادہ اچھے طریقے سے سیکھ سکتے ہیں اور نوجوان نسل کو تہذیب یافتہ بنانے کیلئے ہمیں اپنے سینئرز کو ساتھ لے کر چلا چلنا ہو گا اور نئی نسل کیلئے مکالمے کا ماحول پید ا کرنا ہوگا جبھی ہم اپنے اقدار کو اپنائے گے ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ہماری تہذیب کا کوئی نام لیوا بھی نہ ہو گا۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے