تاریخ امام حسین علیہ السلام

تعارف و ولادت:

حسین ابن علی نبئ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چھوٹے نواسے اور علی بن ابی طالب و فاطمہ زہرا رضی اللہ عنھماکے چھوٹے بیٹے تھے۔ ‘حسین’ نام اور ابو عبد اللہ کنیت ہے۔
ہجرت کے چوتھے سال تین شعبان جمعرات کے دن آپ کی ولادت ہوئی۔ اس خوشخبری کو سن کر جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم خودتشریف لائے، نواسے کو گود میں لیا، داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنی زبانب مبارک منہ میں دے دی۔ پیغمبر کا مقدس لعاب دہن حسین رضی اللہ عنہ کی غذا بنا۔
ساتویں دن عقیقہ کیا گیا۔ آپ کی پیدائش سے تمام خاندان اہلبیت میں خوشی اور مسرت کی لہردوڑ گئی،مگر آنے والے حالات کا علم صرف پیغمبر کو تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سےآنسو برس پڑے۔

پرورش:

پیغمبرِ اسلام کی گود، جو اسلام کی تربیت کا گہوارہ تھی اب دن بھر دو بچّوں کی پرورش میں مصروف رہتی، ایک حسن، دوسرے حسین رضی اللہ عنھما۔

اس طرح ان دونوں کا اور اسلام کا ایک ہی گہوارہ تھا جس میں دونوں پروان چڑھ رہے تھے۔ ایک طرف پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جن کی زندگی کا مقصد ہی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اور دوسری طرف حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ جو اپنے عمل سے خدا کی مرضی کے خریدار بن چکے تھے، اور تیسری طرف حضرت فاطمہ زہرارضی اللہ عنہا جو خواتین کےطبقہ میں پیغمبر کی رسالت کو عملی طور پر پہنچانے کے لیے ہی قدرت کی طرف سے پیدا ہوئی تھیں۔ اس نورانی ماحول میں حسین رضی اللہ عنہ کی پرورش ہوئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد:

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عمر ابھی چھ سال کی تھی جب انتہائی محبت کرنے والے نانا کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔اب پچیس برس تک حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی خانہ نشینی کادور ہے۔ اس زمانہ کے طرح طرح کے ناگوار حالات حضرت حسین رضی اللہ عنہ
دیکھتے رہے اور اپنے والد بزرگوار کی سیرت کا بھی مطالعہ فرماتے رہے۔ یہ وہی دور تھا جس میں
آپ رضی اللہ عنہ نے جوانی کی حدود میں قدم رکھا اور بھر پور شباب کی منزلوں کو طے کیا۔ 35ھ میں جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ
کی عمر 31 برس کی تھی عام مسلمانوں نےحضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بحیثیت خلیفہ اسلام تسلیم کیا۔

یہ امیر المومنین کی زندگی کے آخری پانچ سال تھے جن میں جمل،صفین اور نہروان کی لڑائیں ہوئیں اورحضرت حسین رضی اللہ عنہ ان میں اپنے بزرگ مرتبہ والد کی نصرت اور حمایت میں شریک ہوئے اور شجاعت کے جوہر بھی دکھلائے۔40ھ میں جناب امیرالمومنین مسجد کوفہ میں شہید ہوئے اور اب امامت وخلافت کی ذمہ داریاں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئیں جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی تھے۔ حضرت حسین نے ایک باوفااور اطاعت شعار بھائی کی طرح حضرت حسن کاساتھ دیااور جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ نےاسلامی مفاد کی حفاظت کی خاطر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کرلی تو حضرت حسین بھی اس مصلحت پر راضی ہوگئے اور خاموشی اور گوشہ نشینی کے ساتھ عبادت اور شریعت کی تعلیم واشاعت میں مصروف ہو گئے۔

عراق روانگی کی وجوہات:

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نےاپنی حیات کے آخری ایام میں کوفہ کے گورنر حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر اپنے بیٹے یزید کو اپنی زندگی میں خلیفہ نامزد کیا اور اس کے لئے بیعت خلافت لی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد 60ھ میں یزید کے ہاتھ پر شامیوں، اہل مدینہ اور دوسرے صوبہ جات نے بیعت کی۔

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے وقت ولید بن عتبہ بن ابی سفیان (حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھتیجا اور یزید کا چچیرا بھائی) مدینہ منورہ کا گورنر تھا۔ اس کو یزید نے حکم بھیجا کہ وہ میرے لئے بیعت لیں۔ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے سوچنے کی مہلت دیں اور نرمی اختیار کریں۔ چنانچہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ مہلت لے کر مدینہ منورہ سےمکہ معظمہ تشریف لے گئے۔

کوفیوں کے خط:

جب آپ مکہ معظمہ پہنچ گئے تو کوفیوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے قاصد و پیغامات بھیجے اور عرض کی کہ آپ رضی اللہ عنہ کوفہ تشریف لے آئیں ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں ، ہم لوگوں نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا ہے، اس کے گورنر کے پیچھے جمعہ پڑھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ اس وقت کوفہ کا گورنر نعمان بن بشیر تھا۔ جب کوفیوں کی طرف سے اس قسم کے پیغامات آئے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے تحقیق احوال کے لئے پروگرام بنایا۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے چچیرے بھائی مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو کوفہ روانہ کیا تا کہ وہ وہاں کی صورت حال کا اچھی طرح جائزہ لیں۔ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ مکہ سے پہلے مدینہ منورہ گئے، وہاں سے راستہ کی رہنمائی کے لئے دو آدمی ساتھ لئے اور کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے۔

کوفیوں کی بیعت:

کوفیوں کو جب مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کی آمد کی خبر ہوئی تو خفیہ طور پر ان کے پاس پہنچے اور بارہ ہزار کوفیوں نے ان کے ہاتھ پرحضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لئے بیعت کی۔

گورنر کوفہ کی معزولی:

مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر جب بارہ ہزار کوفیوں نے بیعت کی تو یزید کے ایک بہی خواہ عبداللہ بن مسلم حضرمی نے نعمان بن بشیر گورنرکوفہ کو کہا کہ: دیکھو شہر کی صورتحال کیا ہے؟ یا تو کوفہ والے آپ کو کمزور سمجھتے ہیں یا آپ واقعتا کمزور ہیں۔

حضرت نعمان نے جواب دیا:

میری ایسی کمزوری جو اطاعت الٰہی میں ہو اس طاقت سے بہتر ہے جو خدا کی نافرمانی میں ہو۔ جس کام پر اللہ نے پردہ ڈالا اس کو کیوں ظاہر کروں؟؟؟

اس کے بعد عبداللہ بن مسلم حضرمی نے انکی شکایت یزید کے پاس لکھ کر بھیج دی۔ یزید نے اپنے ایک آزاد کردہ غلام سرحون سے مشورہ کیا اس نے کہا کہ:اگر آپ کے والدمعاویہ رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے تو آپ ان کے مشورہ پر عمل کرتے؟؟ یزید نے کہا کہ: ضرور عمل کرتا۔ سرحون نے مشورہ دیا فوری طور پر عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا گورنر مقرر کر دو۔

چنانچہ یزید نےسرحون کا مشورہ قبول کرتے ہوئے نعمان بن بشیر کو معزول کر دیا اور ابن زیاد(جو کہ اس وقت بصرہ کا گورنرتھا)کو کوفہ کا گورنر بنا دیا اور کہا کہ کوفہ پہنچ کر مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو تلاش کرو اگر مل جائے تو اسے قتل کر دو۔

ابن زیاد بصرہ کے چند ساتھیوں کے ہمراہ اس حالت میں کوفہ آیا کہ اس نے نقاب باندھ رکھا تھا وہ جس مجلس سے بھی گزرتا سلام کرتا۔ لوگ جواب میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ سمجھ کر ” وعلیک یا ابن رسول اللہ “ (اے رسول کے بیٹے آپ پر بھی سلام ہو) جواب دیتے۔

کوفی سمجھتے تھے کہ حسین رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں۔ یہاں تک کہ ابن زیاد قصر امارت میں پہنچ گیا۔

ابن زیاد نے کوفہ پہنچ کر اپنے غلام کو تین ہزار درہم دئیے اور کہا جاؤ اس شخص کا پتہ لگاؤ جو کہ کوفہ والوں سے بیعت لیتا ہے۔ لیکن اپنے آپ کو ظاہر کرو کہ میں حمص کا باشندہ ہوں اور بیعت کرنے آیا ہوں اور یہ رقم پیش خدمت ہےتاکہ آپ اسے اپنے مشن میں صرف کر سکیں۔ غلام حیلے سےمسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ تک پہنچ گیا۔ مسلم رضی اللہ عنہ نے اس سے بیعت لی اور رقم بھی قبول کر لی۔ اب وہ غلام یہاں سے نکلا اور سیدھا ابن زیاد کے پاس پہنچا اور سب کچھ اس کو بتلا دیا۔ ادھر حضرت مسلم رضی اللہ عنہ نےحضرت حسین رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیج دیا تھا کہ بارہ ہزار کوفیوں نے بیعت کر لی ہے۔ آپ کوفہ تشریف لے آئیں۔

مسلم بن عقیل اس وقت ہانی بن عروہ کے گھر میں ٹھہرے ہوئےتھے۔

جب ابن زیاد کو پتہ چل گیا کہ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ ہانی بن عروہ کے گھر پر ہیں تو اس نے ہانی بن عروہ کوبلوا لیا۔ چنانچہ ھانی ابن زیاد کے پاس پہنچے۔

اتفاق سے اس وقت قاضی شریح بھی ابن زیاد کے پاس موجود تھے۔ اس نےان سے مخاطب ہو کر کہا: دیکھو اس احمق کی قضاء اسےہمارے پاس لے آئی ہے۔ ہانی نے سلام کہا۔ ابن زیاد بولا: مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کہاں ہیں؟
ہانی بن عروہ نے کہا : مجھے علم نہیں ہے۔

اس پر ابن زیاد نے تین ہزار درہم والے غلام کو سامنے کر دیا۔ ھانی بالکل لاجواب ہو گئے اور کہا: میں نے ان کو بلایا نہیں وہ خود بخود میرے گھر میں آ گئے ہیں۔

ابن زیاد نے کہا : کہ اس کو حاضر کرو۔ اس پر ھانی نےپس و پیش کیا۔ جس پر ابن زیاد نے اپنے قریب کر کےانکے اس زور سے چھڑی ماری جس سے ان کی بھنویں پھٹ گئیں اور پھرکہا کہ: اب تیرا خون حلال ہے۔ اور ان کو قصر امارت کے ایک حصہ میں قید کر دیا۔

اس واقعہ کی اطلاع پرھانی کے قبیلہ نے قصر امارت پر حملہ کر دیا۔ ابن زیاد نے قاضی شریح کے ذریعہ ان کو پیغام بھیجا کہ ہانی کو مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کا پتہ و تحقیق کرنے کے لئے روکا ہے خطرے کی کوئی بات نہیں۔ یہ بات سن کر لوگ مطمئن ہو گئے۔

مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کا خروج:

مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو جب اس ہنگامے کا علم ہوا تو خروج کا اعلان کر دیا۔ چنانچہ چار ہزار لوگ اورایک روایت کے مطابق چالیس ہزار آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ ان کو جنگی طریقہ سے ترتیب دے کر قصر امارت کی طرف روانہ کر دیا۔ ابن زیاد کو اطلاع ہوئی تو اس نے سرداران کوفہ کو بلایا جب لشکر قصر امارت تک پہنچ گیا تو سرداران کوفہ نے اپنے اپنے قبیلہ کو سمجھایا تو وہ آہستہ آہستہ کھسکنا شروع ہو گئے۔ رات کے اندھیرے تک کوئی بھی باقی نہ رہا۔

کوفیوں کی غداری اور مسلم رضی اللہ عنہ کی شہادت:

حضرت مسلم رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ سب نے دھوکہ دیا ہے اور تنہا رہ گئے ہیں تو راستہ پر چل پڑے۔ ایک مکان پر پہنچے اندر سے ایک خاتون نکلی۔ آپ نے پانی مانگا، اس عورت نے پانی پلا دیا اور واپس اندر چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر باہر آئی۔ آپ کو دروازہ پر دیکھ کر کہا کہ: اے اللہ کے بندے تیرا اس طرح بیٹھنا مشکوک ہے۔ یہاں سے چلاجا۔ آپ نے کہا:میں مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ ہوں، تم مجھے پناہ دو گی؟ اس نے کہا آ جائیے۔ آپ اندر چلے گئے۔ جب اس عورت کے لڑکے محمد بن اشعث کو پتہ چلا کہ حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ ان کے گھرپر ہیں تو اس نے فورا ابن زیاد کو اطلاع کر دی۔ ابن زیاد نے اس کے ہمراہ پولیس روانہ کی اورپولیس نے جا کر مکان کا محاصرہ کر لیا۔ مسلم اطلاع ملتے ہی تلوار سونت کر باہر نکل آئے مقابلہ کا ارادہ کیا ، لیکن محمد بن اشعث نے روکا اور حفاظت کی ذمہ داری اٹھالی۔ لیکن حضرت مسلم کو پکڑ کر ابن زیاد کے پاس لیجایا گیا،اورابن زیاد کے حکم پر قصر امارت کی چھت پر لے جا کر مسلم کو قتل کر دیاگیا۔ پھر انکی لاش لوگوں کے سامنے پھینک دی گئی۔
اورہانی بن عروہ کوسولی پر لٹکا دیاگیا۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مکہ سے کوفہ کی طرف روانگی:

حضرت مسلم کا خط حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا کہ بارہ ہزار کوفیوں نے بیعت کر لی ہے لہٰذا آپ جلد کوفہ پہنچ جائیں۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ قادسیہ سے تین میل کے فاصلے پر تھے کہ حربن یزید تمیمی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قافلے سے ملا اس نے کہا کہاں جا رہے ہو؟ آپ نے فرمایا کوفہ…. اس نے کہا وہاں کسی خیر کی توقع نہیں ہے۔ آپ کو یہاں سے واپس ہو جانا چاہیے ۔ پھر اس نے کوفیوں کی بے وفائی اور حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کے قتل کا واقعہ سنایا۔ سارا واقعہ سن کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے واپسی کا ارادہ کر لیا،لیکن مسلم رضی اللہ عنہ کے بھائیوں نے کہا ہم بدلہ لیں گے یا شہید ہو جائیں گے۔ اس پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہارے بغیر زندگی کا کوئی لطف نہیں ہے۔ اب سب کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے۔

کربلا میں آمد:

 جب آپ رضی اللہ عنہ کو ابن زیاد کی فوج کا ہراول دستہ نظر آیا تو آپ نے کربلا کا رخ کر لیا۔
جب آپ کربلا میں پہنچے خیمے نصب کر لئے،اس وقت آپ کے ساتھ پینتالیس سوار اور سو (100) کے قریب پیدل تھے۔ اس وقت ابن زیاد نے عمر بن سعد کو بلایا کہ آپ حسین رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں میری مدد کریں۔

عمربن سعد نے معذرت کی لیکن ابن زیاد نہ مانا۔
اس پر عمر بن سعد نے ایک رات سوچنے کی مہلت لی۔

عمر بن سعد نے سوچنے کے بعد آمادگی کا اظہار کیااورکربلا میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی تجویز:

حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تین باتوں میں سے ایک مان لو:

1۔ مجھے کسی اسلامی سرحد پر جانے دو۔
2۔ مجھے موقع دو کہ میں براہ راست یزید کے پاس پہنچ جاؤں۔
3۔ جہاں سے آیا ہوں وہاں واپس چلا جاؤں۔

ابن سعد نے تجویز قبول کر کے ابن زیاد کے پاس بھیج دی اس نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بس ایک بات کی کہ حسین رضی اللہ عنہ بیعت کریں۔ عمر بن سعد نے ہر بات حضرت حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچا دی۔ انہوں نے فرمایا ایسا نہیں ہو سکتا۔

میدان جنگ اور آپ کی آخری تقریر:

صلح کی آخری گفتگو ناکام ہونے کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ جو جانا چاہتے ہیں انھیں میری طرف سے اجازت ہے۔ اس پر کچھ جان نثار اور اعزاء باقی رہ گئے، جنہوں نے آخری وقت تک ساتھ دینے کا عہد کیا۔ ان جاں نثاروں کی تعداد صرف 72 تھی ۔ حضرت حسین نے اس مختصر ترین فوج کو منظم کیا۔ میمنہ پر زبیر بن قیس کو اور میسرہ پر حبیب بن مطہر کو متعین کرکے علم حضرت عباس کو مرحمت فرمایا۔ جنگ کے آغاز سے پیشتر اللہ تعالٰی کے حضور دعا کی اور تائید اور نصرت خداوندی چاہی۔ اس کے بعد اتمام حجت کے لیے دشمنوں کی صفوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

”اے لوگو! جلدی نہ کرو ۔ پہلے میری بات سن لو۔ مجھ پر تمہیں سمجھانے کاجو حق ہے اسے پورا کرلینے دو اور میرے آنے کی وجہ بھی سن لو ۔ اگر تم میرا عذر قبول کرلوگے اور مجھ سے انصاف کرو گے تو تم انتہائی خوش بخت انسان ہو گے لیکن اگر تم اس کے لیے تیار نہ ہوئے تو تمہاری مرضی۔

تم اور تمہارے شریک مل کر میرے خلاف زور لگا لو اور مجھ سے جو برتاؤ کرنا چاہتے ہو کر ڈالو۔ اللہ تعالٰی میرا کارساز ہے اور وہی اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے“

جونہی آپ تقریر کے اس حصے پر پہنچے تو خیموں سے اہل بیت کی عورتوں کی شدّت رنج سے چیخیں نکل گئیں۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے رک گئے اور اپنے بھائی عباس کو انہیں چپ کرانے کے لیے بھیجا۔ جب خاموشی طاری ہوئی تو آپ نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

”لوگو ! تم میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں؟ اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے آپ کو ملامت کرو۔ تم خیال کرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ اور ان کے چچیرے بھائی کا بیٹا نہیں؟ جنہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالٰیٰ کی آواز پر لبیک کہا اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔ کیا سیدالشہداء حضرت حمزہ میرے والد کے چچا نہ تھے؟ کیا جعفر طیارمیرے چچا نہ تھے؟ کیا تمہیں رسول اللہ کا وہ قول یاد نہیں جو انہوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا تھا کہ دونوں نوجوانان جنت کے سردار ہوں گے؟ اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہی ہےتو بتاؤ کہ تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا ہے؟؟؟

اور اگر تم مجھے جھوٹا سمجھتے ہو تو آج بھی تم میں وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے میرے متعلق رسول اللہ کی حدیث سنی ہے۔ تم ان سے دریافت کرسکتے ہو۔ تم مجھے بتاؤ کہ کیا آپ کی اس حدیث کی موجودگی میں بھی تم میرا خون بہانے سے باز نہیں رہ سکتے“

لیکن کوفیوں اور ان کے سرداروں پرآپکی اس تقریرکاکوئی اثر نہ ہوا۔ صرف حر بن یزید تمیمی پر آپ کی اس تقریر کا اثر ہوا اور وہ یہ کہتے ہوئے کہ:

”یہ جنت یا دوزخ کے انتخاب کا موقع ہے۔ میں نے جنت کا انتخاب کر لیا ہے خواہ مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا جلا دیا جائے“

حضرت حسین کے لشکر میں آ شامل ہوا۔ اس کے بعد شخصی مبارزت کے طریقے سے جنگ کا آغاز ہوا جس میں اہل بیت اطہر کا پلہ بھاری رہا۔ یہ دیکھ کر ابن سعد نے عام حملہ کا حکم دیا۔ فدایان و اراکین اہل بیت نے دشمنوں کی یلغاروں کا پوری قوت ایمانی سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ فدائی ایک ایک کرکے کٹ مرے لیکن میدان جنگ سے منہ نہ پھیرا۔ دوپہر تک حضرت حسین کے بیشتر آدمی کام آ چکے تھے۔ چنانچہ اب باری باری حضرت علی اکبر، عبداللہ بن مسلمہ ، جعفر طیار کے پوتے عدی ، مسلم بن عقیل کےفرزند عبدالرحمن ، حضرت حسن کے صاحبزادے قاسم اور ابوبکر وغیرہ میدان میں اترے اور شہید ہوئے۔ ان کے بعد حضرت حسین آئے۔ دشمنوں نے ہر طرف سے آپ پر یورش کی۔ یہ دیکھ کر آپ کے بھائی عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان آپ کی حفاظت کے لیے ڈٹ گئے مگر چاروں نے شہادت پائی۔

حضرت حسین تنہا میدان میں جمے ہوئے تھے۔ عراقیوں نے آپ کو ہر طرف سے نرغہ میں لے لیا مگر شہید کرنے کی کسی کو بھی جرات نہ ہو رہی تھی؛کیونکہ کوئی نہ چاہتا تھا کہ یہ گناہ اس کے سر ہو۔

بالآخر شمر کے اکسانے پر زرعہ بن شریک تمیمی نے یہ بدبختی مول لی اور ہاتھ اور گردن پر تلوارکےوار کیے۔ سنان بن انس نے تیر چلایا اور آپ گر گئے۔ ان کے گرنے پر شمر ذی الجوشن آپ کی طرف بڑھا تو اس کی برص زدہ شکل دیکھتے ہی حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے نانا رسولِ خدا نے سچ فرمایا تھا کہ: "میں ایک دھبے دار کتے کو دیکھتا ہوں کہ وہ میرے اہلِ بیت کے خون سے ہاتھ رنگتا ہے”۔۔۔۔۔ اے بدبخت شمر بلاشبہ تو وہی کتا ہے جس کی نسبت میرے نانا نے خبر دی تھی۔ اس کے بعد شمر نے ان کا سر پیچھے کی طرف سے (پسِ گردن سے) کاٹ کر تن سے جدا کر دیا۔

پھرابن زیاد کے حکم کے مطابق آپ کاجسم گھوڑوں کے ٹاپوں سے رونداگیا۔

قبیلئہ مذحج کا ایک شخص آیااور اس نےآپ رضی اللہ عنہ کا سر تن سے جدا کر دیا، اور ابن زیاد کے پاس لےگیا۔ اس نے سر مبارک یزید کے پاس بھیج دیا۔ ادھرحضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کو بھی یزید کےپاس پہنچا دیاگیا۔ مردوں میں سے صرف حضرت حسین رضی اللہ کےایک فرزند علی بن حسین رضی اللہ عنہ (زین العابدین) بچے،
جو کہ اسوقت نہایت کم عمرتھے۔

خواتین و بچے یزید کے دربار میں:

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بچےاور افرادخانہ یزید کے دربار میں پہنچے تو درباریوں نے فتح کی مبارکباد دی۔ دربار میں سے ایک شخص نے جرات کر کے ایک لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ امیرالمومنین یہ مجھے دے دو، یہ سن کر زینب بن علی رضی اللہ عنہا نے کہا: "اللہ کی قسم یہ نہیں ہو سکتا، بجز اس کے کہ یزید دین الٰہی سے نکل جائے۔”

جب دوبارہ اس شخص نے کہا تو یزید نے اس کو ڈانٹا اور ان سب کو اپنے محل میں بھیج دیا۔

اھل بیت کی مدینہ روانگی:

یزید نے سب کو تیار کرا کر مدینہ روانہ کر دیا۔ جب یہ مظلوم قافلہ مدینہ پہنچا تو خاندان عبدالمطلب کی ایک خاتون روتی ہوئی آئی،
وہ یہ اشعار پڑھتی تھی:

"ماذا تقولون ان قال النبی لکم
ماذا فعلتم وانتم اٰخر الامم
بعترتی و باھلی بعد مفتقدی
منھم اساری ومنھم ضرجوا بدم
ماکان ھذا جزائی اذ نصحت لکم
ان تخلفونی بسوءفی ذوی رحم”

ترجمہ:

"اگر پیغمبر علیہ السلام نے پوچھا تو کیا جواب دو گے کہ تم نےآخری امت ہو کر میری وفات کے بعد میرے گھرانے کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟؟ ان میں کچھ قیدی ہیں اور کچھ خون میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ میں زندگی بھر جو تمہیں نصیحت کرتا رہا تو اس کی یہ جزا نہ تھی کہ تم میرے رشتہ داروں سے ایسا سلوک کرتے۔”

اخلاق و اوصاف:

حضرت حسین رضی اللہ عنہ زہد و طہارت کا مجسمہ تھے- آپ کی عبادت، زہد، سخاوت اور آپ کے کمالِ اخلاق کے دوست و دشمن سب ہی قائل تھے- پچیس حج آپ نے پاپیادہ کئے- آپ میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا: "حسین میں میری سخاوت اور میری جراَت ہے”- چنانچہ آپ کے دروازے پر مسافروں اور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رہتا تھا اور کوئی سائل محروم واپس نہیں ہوتا تھا- اس وجہ سے آپ کا لقب ابوالمساکین ہو گیا تھا- راتوں کو روٹیوں اور کھجوروں کے ٹوکرےاپنی پیٹھ پر اٹھا کر لے جاتے تھے اور غریب، محتاج بیواؤں اور یتیم بچوں کو پہنچاتے تھے جن کے نشان پشت مبارک پر پڑ گئے تھے- حضرت حسین رضی اللہ عنہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ: "جب کسی صاحبِ ضرورت نے تمہارے سامنے سوال کے ليے ہاتھ پھیلا دیا تو گویا اس نے اپنی عزت تمہارے ہاتھ بیچ ڈالی- اب تمہارا فرض یہ ہے کہ تم اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرو، کم سے کم اپنی ہی عزتِ نفس کا خیال کرو”-

غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ آپ عزیزوں کا سا برتاؤ کرتے تھے- ذرا ذرا سی بات پر آپ انہیں آزاد کر دیتے تھے- آپ کے علمی کمالات کے سامنے دنیا کا سر جھکا ہوا تھا-

مذہبی مسائل اور اہم مشکلات میں آپ ہی کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔

آپ رحمدل ایسے تھے کہ دشمنوں پر بھی وقت آنے پر رحم کھاتے تھے اور ایثار ایسا تھا کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت کو پورا کرتے تھے- ان تمام بلند صفات کے ساتھ متواضع اور منکسر ایسے تھے کہ ایک دفعہ کہیں تشریف لے جا رہے تھے کہ راستے میں چند مساکین بیٹھے ہوئے اپنے بھیک کے ٹکڑے کھا رہے تھے اور آپ کو پکار کر کھانے میں شرکت کی دعوت دی توفوراً زمین پر بیٹھ گئے- اگرچہ کھانے میں شرکت نہیں فرمائی- اس بنا پر کہ صدقہ آلِ محمدکیلئے جائزنہیں مگر ان کے پاس بیٹھنے میں کوئی عذر نہیں ہوا- اس خاکساری کے باوجود آپ کی بلندئ مرتبہ کا یہ اثر تھا کہ جس مجمع میں آپ تشریف فرماہوتے تھے لوگ نگاہ اٹھا کر بات نہیں کرتے تھے۔

ایک مرتبہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک سخت خط لکھا جس میں ان کے اعمال و افعال اور سیاسی حرکات پر نکتہ چینی کی تھی۔ اس خط کو پڑھ کر حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو بڑی تکلیف ہوئی- پاس بیٹھنے والے خوشامدیوں نے کہا کہ آپ بھی اتنا ہی سخت خط لکھئے- حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ  نے فرمایا "میں جو کچھ لکھوں گا وہ اگر غلط ہو تو اس سے کوئی نتیجہ نہیں اور اگر صحیح لکھنا چاہوں تو بخدا حسین میں مجھے ڈھونڈنے سے کوئی عیب نہیں ملتا”-

آپ کی اخلاقی جراَت، راست بازی اور راست کرداری، قوتِ اقدام، جوش عمل اور ثبات و استقلال، صبر و برداشت کی تصویریں واقعئہ کربلاکےہر ہر موقع میں محفوظ ہیں ۔

یہ زہد و عبادت کے پیکر، استقلال وثبات کے پہاڑ، اخلاق حسنہ میں اپنے نانا کی تصویر، آخرکار اپنے نانا ہی کے دین کی سر بلندی کیلئے اپنی جان کی قربانی دیکر ہمیں یہ سبق دے گئے کہ حق کبھی بھی باطل کے سامنےنہیں جھک سکتا۔ اور حق پر جان لٹانے والے قیامت تک کیلئےامر ہو جاتے ہیں۔۔

اللہ شہدائےکربلا پر اپنی کروڑ ہا کروڑ رحمتیں و برکتیں نازل فرمائے، اور ہمیں انکے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔ آمین۔

(بحوالہ:تاریخ طبری، الاصابه فى تمييزالصحابه،
شهادت امام حسین از علامہ طاہرالقادری،
شہید کربلا ازمفتی محمد شفیع رح۔)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے