شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی!

پاکستانی عدلیہ پر قلم یا آواز اٹھانا ممنوع ہے کیونکہ اس سے عدلیہ کے تقدس کی پامالی کا ڈر ہوتا ہے۔ عدالت میں کوئی کیس چل رہا ہو تو اس پر بات نہیں کی جا سکتی۔ اور کسی جج کے کردار پر انگلی اٹھ جائے تو آپ بلاسفیمی کے قصوروار ٹھہرتے ہیں۔ ہماری عدالتوں کی آسیب زدہ غلام گردشوں میں عوام ساری عمر جوتیاں چٹخاتی مر جاتی ہے مگر انصاف نہیں ملتا۔ اس سلسلے میں دو مقدمے آپ کے سامنے پیش خدمت ہیں جو ( قانون اندھا ہوتا ہے ) کی عمدہ مثال ہیں۔ ایسا قانون جو کسی آسیب سے کم نہیں۔ جہاں پیچھے مڑ کر دیکھنے والا پتھر کا ہو جاتا ہے، اور مظہر حسین جیسے بے بس، لاچار، بے گناہ لوگ ساری زندگی نہ کئے ہوئے گناہوں کی سزا پاتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب سے اپنی رہائی سے دو سال قبل ہی وفات پا جاتے ہیں۔ دونوں کیسز ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں لیکن دونوں ہی ہمارے ملک کے انصاف فراہم کرنے والے اداروں، عدالتی نظام اور یہاں کے کرپٹ سسٹم پر کڑا سوال ہیں۔

مظہر حسین کو انیس سال قبل قتل کے کیس میں سزائے موت کی سزا سنائی گئی۔ قتل کے اس جھوٹے مقدمے کے خلاف مظہر کے والد مقدمے کی پیروی کرتے رہے۔ جب ان کا انتقال ہو گیا تو چچا نے مقدمے کی پیروی کی ذمے داری اٹھا لی۔ جب چچا کا انتقال ہو گیا تو دوسرے چچا عدالتوں کے چکر کھانے لگے کہ شائد ان کا بے قصور بھتیجا جھوٹے الزام سے بری ہو جائے۔ لیکن بد قسمت چچا اپنے بھتیجے کا غم لے کر اس دنیا سے سدھار گئے۔ 2014 میں مظہر حسین کا جیل میں ہی انتقال ہو گیا۔ اس کے انتقال کے دو برس کے بعد 6 اکتوبر 2016 کو سپریم کورٹ نے اینس سال قبل قتل کے الزام میں قید ملزم مظہر حسین کو ناکافی ثبوت اوراستغاثہ کی جانب سے جھوٹی گواہی کی بناء پر بری کرنے کا حکم دے دیا۔

قربان جائیے ایسی عدالت، ایسے فیصلے اور ایسے نظام پر۔ صحیح کہتے قانون اندھا ہوتا ہے۔ جو دو سال قبل وفات پائے ہوئے ملزم کو انیس سال بے گناہ جیل کاٹنے والے ملزم کو با عزت بری کر دیتا ہے۔ مظہر حسین، اس کے بے بس والد ، چچاوں اور پورے خاندان کی زندگیوں کو کون لوٹائے گا؟ ہمارا قانون ان سب کا قاتل نہیں؟ کیا قانون کے لئے اس غفلت اور جرم کے لئے کوئی سزا تجویز نہیں کی جا سکتی؟ آئیے چلتے ہیں اپنے دوسرے کیس کی جانب۔

ایک شخص اپنی ذہانت، ہمت، محنت اور زور بازو پر ایک کمپنی قائم کرتا ہے۔ ہزاروں پاکستانی نوجوانوں کو عزت دار روزگار فراہم کرتا ہے۔ وہ پاکستانی نوجوان جو ہاتھ میں ڈگریاں پکڑے روزگار کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے تھے ان نوجوانوں کو اعلی پیشہ ورانہ تربیت فراہم کر کے نوکریوں پر لگایا جاتا ہے۔ اس کمپنی کے مالکان نے مڈل کلاس پاکستانیوں کو ایسے لائف اسٹائل سے متعارف کروایا جسکو بسر کرنے کا ٹھیکہ صرف اس ملک کی اشرافیہ نے اٹھایا ہوا ہے۔ ہم نے آج تک لوگوں پاکستان کا پیسہ باہر لے جاتے ہی دیکھا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کا کوئی شخص اربوں ڈالرز اپنے وطن لے کر آیا اور یہاں سرمایہ کاری کر کے عوام کے لئے روزگار کے وسائل پیدا کئے۔

بس پھر کیا تھا پاکستان کی صف اول کی آئی ٹی کمپنی اور میڈیا گروپ پر جعلی ڈگری بیچنے کا الزام لگا کر دفاتر پر تالے لگا دئیے گئے اور آٹھ ہزار سے زائد ملازمین کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین لیا گیا۔ دلچسپ بات یہ کہ جعلی ڈگری کا الزام لگانے والے بیشترکی اپنی ڈگریاں جعلی ہیں۔ بناء کسی ثبوت کے پندرہ مہینوں تک اس کمپنی کے مالک اور ان کے ساتھیوں کو جیل میں بند کیا گیا۔ ایڑی چوٹی کا زور لگا دینے کے باوجود ایف آئی اے پندرہ مہینوں کے بعد بھی اس کمپنی اور میڈیا گروپ کے خلاف کوئی ثبوت فراہم نہ کر سکی۔ آخر کار عدالت نے یہ فیصلہ سنایا کہ ثبوتوں کی عدم موجودگی کی بناء پر ان کے پاس شعیب شیخ کو اندر رکھنے کا کوئیی جواز نہیں۔ سو وہ اور ان کے ساتھی پندرہ مہینوں کی کلفت کاٹنے کے بعد با عزت رہا ہو گئے۔

لیکن ایگزیکٹ اور بول ٹی وی کے مالکان اور ملازمین کا اصل جرم تھا کیا ؟؟ْ ؟ یہی نا کہ پاناما میں کمپنیز بنا کر ملک کا پیسہ لوٹ کر باہر لے جانے کی بجائے، باہر سے کمایا پیسہ ملک کے اندر کیوں لے آئے؟ اگر یہی پیسہ شعیب احمد شیخ نے پاکستان سے کما کر پانامہ یا سوئس بنکوں میں چھپایا ہوتا تو وہ پندرہ مہینے کی جیل نہ کاٹتے بلکہ بڑے آرام سے منی لانڈرنگ کرتے ہوئے اربوں روپیہ باہر لے جا کر لندن میں شاندار فلیٹس خرید کر عیش و آرام کی زندگی بسر کرتے ۔ اس کیس کو الٹا لٹکے بغیر بھی دیکھا جائے تو سمجھ میں آجاتا ہے کہ سازشی کون ہے اوراس سازش کا مقصد کیا ہے۔ اب ان سے یہ سوال کون کرے گا کہ اتنا شور شرابا کرنے والے ادارے عدالت کے سامنے ایک ثبوت پیش نہیں کر سکے۔ پاکستان کے عوام کی زندگیاں جھوٹے مقدموں کی پیروی کرتے بیت جاتی ہیں، لیکن عدالتوں اور نا قص قوانین کا یہ آسیب ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ ایسا شہر آسیب جہاں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنا کوئی مسئلہ نہ ہو ، ایسے شہر آسیب کے لئے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی!
الٹا لٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائی دے گا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے